امریکہ میں مہاجرین کی اولادیں


امریکہ میں مہاجرین کی تین قسم کی اولادیں آباد ہیں۔ ایک وہ جن کے آبا و اجداد نے امریکہ کو دریافت کیا اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر دنیا میں ایک مضبوط ریاست کی بنیاد رکھی۔ مہاجرین کی اس پہلی قسم کی اولاد کے لیے رسمی تعلیمی ادارے بنائے گئے جہاں وہ اپنے آباء کی تاریخ پڑھتے اور سیکھتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں، جن کے آبا و اجداد کو امریکہ میں ایک غلام کی حیثیت سے لایا گیا لیکن وہ اپنے بزرگوں کی غلامی کا درد بھول کر، نئے امریکہ کی ترقی و مضبوطی کے لیے اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں، وہ اپنے بڑوں کی تاریخ، غیر رسمی تعلیم کے ذریعے جانتے، سیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔

تیسرے وہ، جن کے بزرگوں نے امریکہ کو دل و جان سے اپنا وطن مانا اور اپنی مرضی سے وہاں رہنے اور آباد ہونے کا فیصلہ کیا، یہ اولادیں امریکہ کی جدید تاریخ سیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے بڑوں کے وطن اور وہاں کے کلچر پر بھی فخر کرتے ہیں۔ اپنے باپ دادا کی تعلیمات کو سیکھتے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

ماجد اور سلمٰی امریکہ میں آباد مسلمان مہاجرین کی دوسری نسل میں سے تھے۔ ان کے اباؤ اجداد بیسویں صدی کے اواخر میں جزیرہ عرب سے ہجرت کر کے اپنے بچوں کے لیے امن اور خوابوں کی سرزمین تلاش کرتے ہوئے امریکہ میں آ کر آباد ہوئے۔ ان کے باپ دادا نے اپنے آبائی وطن سے تمام دولت سمیٹ کر امریکی ریاست ٹیکساس میں آئل اور گیس کا کاروبار شروع کیا۔ جلد ہی ان کا شمار ریاست کے امراء میں ہونے لگا۔

ماجد اور سلمٰی دونوں امریکہ میں پیدا ہوئے اور وہاں کے شہری تھے۔ وہیں کے سکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ وہ دونوں ایک ہی کالج میں پڑھتے، ایک دوسرے کو پسند کرتے اور دوسرے امریکی نوجوان جوڑوں کی طرح اکٹھے رہنا چاہتے تھے لیکن ان کی مذہبی تعلیمات میں بغیر شادی کیے کسی مرد اور عورت کو اکٹھے رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ کالج کے علاوہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے لیکن اپنے گھر والوں سے چھپ چھپا کر اور ان کی اجازت کے بغیر۔

امریکہ میں آباد مہاجرین کی تیسری قسم کی اولاد کو سیکھنے اور سکھانے کے دوہرے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ تعلیم جس کے نتیجے میں دوغلی سوچ رکھنے والے انسان پروان چڑھتے ہیں، نہ ادھر کے اور نہ ادھر کے۔ کنفیوزڈ پرسنیلیٹیز، ان کا اصلی ہیرو کوئی اور ہوتا ہے لیکن وہ امریکہ کے قومی ہیروز کو بھی سلام پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے والدین پر فخر کرتے ہیں جو اپنی آزادی ء عمل اور انتخاب کے ساتھ امریکہ میں آ کر آباد ہوئے۔ جنہوں نے اپنی مرضی سے دوسرے آپشنز کو پس پشت ڈال کر امریکہ میں جینے اور مرنے کا فیصلہ کیا۔

امریکہ میں مہاجرین کی یہ تیسری قسم کی اولاد، دوغلے ہونے کے ساتھ ساتھ مفاد پر ست بھی ہوتی ہے اور ان کا مفاد امریکہ کی خوشحالی میں ہے لہذا وہ امریکہ کے وفادار رہتے ہیں۔ وہ رسمی اور غیر رسمی طریقہ ہائے تعلیم کی نعمتوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ سکول میں تاریخ کے جو اچھے برے اسباق پڑھائے جاتے ہیں وہ انہیں یاد کرتے ہیں لیکن جب عمل کی باری آئے تو وہ اپنے باپ دادا کے ہیروز کی تعلیمات کی پیروی کرنا پسند کرتے ہیں۔ مہاجرین کی اولادوں میں تیسری قسم کا ایک خاص مائنڈ سیٹ ہوتا ہے، ان کے آباء، امریکہ میں اپنی مرضی سے آئے اور وہ بھی امریکہ میں اپنی مرضی سے رہنا چاہتے ہیں۔

مسلمان نوجوانوں کا یہ جوڑا اپنے خاندان کی روایات قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ امریکی معاشرت کو سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں یاروں کی محفلوں میں شامل تو ہوتے لیکن پینے پلانے سے اجتناب برتتے۔ شاید اسی لیے امریکہ میں ان کا حلقہ احباب زیادہ وسیع نہیں ہوا۔ وہ اپنے دوستوں کی شام کی محفلوں میں شریک تو ہوتے لیکن ان کے گھر میں پکے گوشت کو کھانے سے اجتناب کرتے۔ بولنے کے خاص لہجے، اپنی مخصوص رنگت، ثقافتی اقدار اور عادات و اطوار پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے وہ جلد ہی دوسروں کی نظروں میں آ گئے۔

لوگ ان سے، ان کی مخصوص طرز زندگی، رہن سہن کے طریقوں اور ان کے عقائد کے بارے میں اکثر سوال کرتے اور آہستہ آہستہ دوستوں کے رویے ان کے ساتھ محتاط ہوتے گئے۔ انہیں اکثر شک کی نگاہ سے دیکھا جا تا۔ شک یہ نہیں کہ وہ کوئی چور، ڈاکو یا مجرم تھے بلکہ ان پر شک اس بات پر کیا جاتا کہ کہیں وہ کسی انتہا پسند سوچ کے مالک تو نہیں، عورتوں کے حقوق کے بارے میں ان کی رائے منفی تو نہیں، ان سے حلال و حرام پر بحث کی جاتی، ان کے سامنے ہم جنس پرستی جیسے حساس موضوع کو چھیڑا جا تا اور اکثر یاروں کی محفل میں وہ تنہا نظر آتے، اس لیے نہیں کہ وہ زیادہ سوشل نہیں تھے یا لوگوں کے درمیان رہنا انہیں پسند نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ دوسرے ساتھی انہیں avoid کرتے تھے۔

امریکہ میں زیادہ مسائل تیسری قسم کے مہاجر ین کی اولادوں کو درپیش ہیں۔ جن کی اولادیں اپنی مرضی سے جینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ اپنی مرضی سے مراد، اپنی مرضی کا کھا نا، اپنی مرضی کا پہننا اور اپنی مرضی کا رہنا۔ وہ اپنی مرضی دوسروں پر مسلط نہیں کرنا چاہتے مگر اپنی مرضی سے جینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ امریکہ میں علم سیکھنے کے ساتھ ساتھ، اپنی سوچ اور فکر پر عمل کی آزادی بھی چاہتے ہیں۔ لیکن امریکہ ایک جمہوری اور جدت پسند معاشرہ ہونے کے باوجود رو بہ زوال نظر آتا ہے۔

اس کی مثال وہاں تعلیم کا شعبہ ہے جس کا انتظام و انصرام غلاموں کے تصرف میں چلا گیا ہے، تیسری دنیا کے ممالک کی طرح امریکہ میں بھی تعلیم کی نگرانی وہ پیسے کے غلام کر رہے ہیں جو تعلیم کے شعبے میں خدمت کے لیے نہیں بلکہ اچھی تنخواہ اور مراعات کے لیے آئے ہیں، تعلیم ایک مقدس فرض سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، اب امریکہ میں سکول کم اور تعلیمی دکانیں زیادہ نظر آتی ہیں، سکول میں طالب علموں کو ایک گاہک کی حیثیت حاصل ہے، جہاں طالب علم نے اچھی تعلیم حاصل کر نے کا اپنا بنیادی حق خرید رکھا ہو، جب شہریوں کو اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے بھاری قیمت ادا کرنی پڑے تو سمجھو معاشرے کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔

سکول اور کالجز میں امریکی بچوں کو بچپن ہی سے ایک متنوع معاشرے میں رہنے اور کامیاب شہری بننے کی تربیت دی جاتی ہے لیکن شاید یہ غیر رسمی اور گھر میں حاصل ہونے والی تعلیم کا کمال ہے جس کے زیر اثر اکثر امریکی شہری اپنے مخصوص متعصبانہ رویے ظاہر کرتے ہیں۔ یہ گھر کی تربیت اور غیر رسمی تعلیمی اداروں کا گھو لا ہوا نفرت کا زہر ہے جسے شعوری اور لا شعوری طور پر آنے والی نسلوں کے خون اور دل و دماغ میں شامل کیا جا تا ہے۔

امریکہ میں سکول یا یونیورسٹی کی تعلیم کو آزاد رکھا گیا ہے، یہاں آزادی سے مراد سیکولر تعلیم ہے۔ جس میں پبلک کے ادا کردہ ٹیکس پر چلنے والے اداروں میں کسی قسم کی مذہبی تعلیم نہیں دی جاتی اور کسی بھی مذہب کو نصاب کا حصہ نہیں بنا یا گیا، ہاں مگر چند مذہبی رسومات جیسے کرسمس وغیرہ کو ضرور پڑھا یا جاتا ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر تعلیمی اداروں میں نہیں تو امریکی بچے اپنے مذہب اور دوسروں کی ثقافت کے بارے میں کیسے جانتے ہیں؟

جانتے بھی ہیں یا انہیں اس سے بے خبر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ میں مذہب کو پرائیویٹ افئیر کا درجہ حاصل ہے۔ آپ کسی سے انٹر ویو میں، اس کے مذہبی خیالات یا رجحانات کے بارے سوالات نہیں کر سکتے۔ جس معاشرے میں کسی بات پر سوال کرنے کی پابندی ہو وہاں اس موضوع کی تعلیم دینا یا اس پر عمل کر نا تو دور کی بات ہے۔

اس کہانی کا مرکزی کردار مسلمان جوڑا بڑا مزاح پسند تھا۔ انہیں امریکہ کا جدید میوزک سننا اچھا لگتا، وہ گھٹنوں سے پھٹی ہوئی جینز بھی پہنتے، دوسروں کے ساتھ مل کر ناچ گا بھی لیتے، ذہین بھی تھے، امیر بھی، خوش شکل اور خوش مزاج بھی لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے سماجی رابطے محدود ہوتے گئے۔ شاید اس لیے کہ وہ اپنی مرضی سے جینا چاہتے تھے اور ابھی امریکی سماج اتنا بھی زیادہ ترقی یافتہ نہیں ہوا کہ وہ اپنی مرضی سے جینے والوں کے لیے ایک پر مسرت جگہ بن سکے۔

امریکہ میں ایک مخصوص طرز زندگی اپنانے کو ہی ترقی یافتہ ہونے کی علامت سمجھا جا تا ہے۔ اگر آپ نے تنگ اور مختصر کپڑے پہن لیے تو آپ کسی بھی محفل کی جان بن سکتے ہیں اور اگر آپ نے حجاب اوڑھ لیا تو گو یا آپ نے دیکھنے والوں کی آنکھوں اور احساسات کو تکلیف پہنچائی۔ سر پر ہیٹ پہننا، آپ کے جدت پسند اور سٹائلش ہونے کی علامت ہے مگر سر پر ٹوپی پہن لی جائے تو گویا آپ چلتے پھرتے خطرے کے نشان بن چکے ہیں اور اگر سر پر ٹوپی کے ساتھ آپ کے چہرے پر داڑھی بھی ہے تو پھر تیار رہیں کہ لوگ آپ کے قریب بیٹھنے اور آپ سے بات کرنے سے گریزاں نظر آئیں گے۔

یہ اس لیے نہیں کہ عام امریکی شہری تنگ نظر یا متعصب ہیں یا وہ دوسروں کی ثقافت اور روایات کی قدر کرنا نہیں جانتے۔ شاید یہ اس لیے ہے کہ امریکہ کا نام نہاد آزاد میڈیا اپنا کردار صحیح طور پر نہیں نبھا رہا۔ وہ مخصوص وضع قطع اور پس منظر رکھنے والے لوگوں کو انتہا پسند بنا کر اپنے شہریوں کے سامنے پیش کر تا ہے۔ 9 / 11 کے حملوں کے بعد یہ رجحان اور بڑھ گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی عوام میں آپس کے فاصلے بڑھنے لگے ہیں اور ان کے درمیان شک و شبہ کی دیواریں کھڑی کر دی گئیں۔

امریکہ کی پبلک یونیورسٹیوں اور کالجز میں مذہب کی تعلیم پر بے جا پابندی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مختلف مذاہب پر عمل کر نے والے اور مختلف ثقافتی پس منظر رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کے لیے اجنبی بنتے جا رہے ہیں۔ یہی سب کچھ امریکہ میں مقیم ان مہاجرین کی اولادوں کے ساتھ ہو رہا ہے جو امریکہ میں رہن سہن سیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے آبا و اجداد کے طریقوں پر بھی عمل کر نا چاہتے ہیں۔ وہ ایک امریکی ہونے کے ساتھ ساتھ، اپنے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی یا کسی اور مذہب کا پیرو کار ہونے کے دعوے دار بھی ہیں۔

ان کا یہ دعوی، کسی اور کی نفی کرنا نہیں بلکہ ان کے ہونے کی دلیل ہے۔ جو لوگ کسی ملک کے آئین، قانون، جھنڈے اور ترانے کا احترام کرتے ہیں، انہیں یہ حق بھی حاصل ہو نا چاہیے کہ وہ دوسروں کی طرح آزاد اور اپنی مرضی کے ساتھ جی سکیں۔ امریکہ میں رنگ و نسل کی تفریق ختم کر نے کے لیے تو اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن وہاں کئی ثقافتوں کے امتزاج سے پروان چڑھتے ہوئے تمدن کو اجاگر نہیں کیا جا رہا ہے۔ شاید اسے تعلیم کے شعبے میں ایک اضافی شے سمجھا گیا ہے اور یا پھر شاید یہ ایک صنعتی معاشرے کی ضرورت بھی ہو کہ لوگوں کو بس اتنی ہی تعلیم دو جس سے ان کے گھر کا اور ریاستی نظام کا پہیہ چلتا رہے۔ عمومی طور تعلیم کے شعبے کو حکومتیں کنٹرول کرتی ہیں تا کہ اذہان سازی کا عمل مخصوص ریاستی مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد فراہم کر سکے۔

امریکہ میں اپنا جسم اور اپنی مرضی کا نعرہ تو مقبول ہے لیکن اگر آپ اپنی مرضی سے اپنے جسم کے کسی خاص حصے کو ڈھانپنا چاہیں تو کئی اعتراض اٹھائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ میں جہاں بچوں کو نسلی تفریق کے خاتمے اور رنگ و نسل کے فرق کے بارے میں سمجھایا اور پڑھا یا جا تا ہے وہاں انہیں ملک کے خوشنما گلدستے میں سجے دوسرے کلچر اور مذاہب کے بارے میں کیوں نہیں بتایا جا تا۔ کیا فرق پڑے گا اگر ایک مسلمان کی اولاد کسی اور مذہب سے متعلق تعلیم حاصل کر لے گی۔

اگر ابراہیمی مذاہب کے لوگ ہندو دھرم رکھنے والوں کے بارے میں یہ جان لیں کہ ہندوؤں کی اکثریت سبزی خور ہوتی ہے اور یہ ان کے عقیدے کا حصہ ہے، تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ کیا ابراہیمؑ کے ماننے والے جانوروں کی قربانی دینا بند کر دیں گے۔ نہیں، انہیں ایسا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ ہندوؤں کے بچوں کو بھی یہ سکھایا جائے گا کہ سارے انسان سبزی خور نہیں ہوتے۔ کچھ انسان جانوروں کا گوشت کھانا پسند کرتے ہیں، جیسا کہ کچھ جانور گوشت کھاتے ہیں اور کچھ گھاس۔ کاش ہم انسان جنگل کے قانون بقائے باہمی کے اصولوں پر عمل کرنا سیکھ جائیں۔ سب کو ان کی ضرورت کامل جا تا ہے۔ کیا کسی نے دیکھا کہ ایک سر سبز جنگل میں کوئی جانور بھوکا سوئے، سب کو اس کے نصیب کا ضرور مل کر رہتا ہے بس رزق کی تلاش کے لیے نکلنا شرط ہے۔

امریکہ بھی ایک ہرے بھرے جنگل کی مانند ہے جہاں ہر طرح کی مخلوق کا بسیرا ہے۔ رزق کی فراوانی، قانون کی حکمرانی اور انسانوں کے زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ وہاں ہم جنس پرستوں تک کو شادی کی اجازت حاصل ہے۔ لیکن یہ بات امریکہ میں بسنے والے عام لوگوں کی اکثریت اور ان کے مذہبی عقائد کے بر عکس ہے۔ کیا اس حقیقت کو جاننا ایک ایسے بچے کے لیے ضروری نہیں، جس کو بچپن سے ہی ہم جنس پرستی کے خلاف تعلیم دی جاتی ہو اور ان کی تعلیمات میں ہم جنسوں کو مغضوبین میں شمار کیا جا تا ہو۔

ہاں یہ ایک بچے کے لیے ضروری ہے کہ اسے اچھے اور برے راستے کے بارے میں بتا دیا جائے۔ اشیاء اپنے تضادات سے پہچانی جاتی ہیں اگر ہمیں اچھائی کے راستے پر چلنا ہے تو برائی کا راستہ معلوم ہونا ضروری ہے تاکہ اس راستے پر چلنے سے بچا جا سکے۔ شاید امریکہ میں تعلیم برائے مقصدیت کے نظریے کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ معاشرے کی تعمیر نو کے ساتھ تعلیم کا مقصد یہ بھی ہو نا چاہیے کہ متعلم کو اچھائی اور برائی میں تفریق کرنا بھی سکھا یا جائے۔

ماجد اور سلمٰی کی کہانی کا کلائمکس اس وقت شروع ہو تا ہے جب امریکہ میں رہنے والا یہ مسلمان جوڑا اپنے گھر، سکول اور گردونواح کے ماحول سے متاثر ہو کر رد عمل کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے گھر میں دی جانے والی تعلیمات اور سماج کے غیر دوستانہ رویوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے دونوں اپنا الگ اپارٹمنٹ لے کر شادی کے بغیر اکٹھے رہنا شروع کرتے ہیں اور وہ کالج میں لڑکوں اور لڑکیوں کا اپنا ایک ہم خیال گروپ بنا لیتے ہیں۔

وہ اپنے گروپ میں ایسے لوگوں کو شامل کرتے ہیں جو امریکہ میں انارکسٹ کہلاتے ہیں جن پر معاشرے میں انارکی پھیلانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ یہ امیروں کی بگڑی ہوئی اولاد کا ایک ایسا گروہ ہو تا ہے جو سڑکوں، محلوں اور شہروں میں اپنے والدین کی دولت کی نمود و نمائش کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر تا ہے۔ وہ عجیب و غریب حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہوئے قانون توڑ کر اور سڑک پر چلتے راہ گیروں کا مذاق اڑا کر لذت محسوس کرتے ہیں اور پولیس والوں سے پنگا لیتے ہیں۔

ایک دن یہ نوجوان عرب جوڑا پولیس کے ہاتھوں ہی مقابلے میں مارا جاتا ہے کیونکہ محلے والوں نے ان کے اپارٹمنٹ میں مشکوک سرگرمیوں کی شکایت کی اور پولیس نے ان کے مکان پر چھاپا مارا۔ مزاحمت کے دوران وہ دونوں مارے گئے۔ پولیس حکام نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے رد عمل سے بچنے کے لیے مقتولین کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے دن شہر میں مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی ریلی نکالی گئی، انہیں دہشت گرد کہا گیا اور انہیں امریکہ سے باہر نکالنے کا مطالبہ کیا گیا۔ مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ مارے جانے والے بس نام کے ہی مسلمان رہ گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments