ملالہ کی مردانہ سوچ


ملالہ یوسفزئی کے حالیہ انٹرویو کے بارے میں بات کی جائے تو اس میں کچھ لوگوں کو ایک بات جس سے کافی زیادہ اختلاف ہے وہ یہ کہ شادی کے کاغذات پہ دستخط کرنا کیوں ضروری ہیں دو لوگ پارٹنر کی حیثیت سے بھی ساتھ رہ سکتے ہیں۔

پہلی بات یہ کہ ہر انسان اپنے نظریات کے اظہار کا حق رکھتا ہے ملالہ نے بھی ایسا کیا مگر اعتراض شاید اس لیے ہے کہ وہ خود کو مسلمان کہتی ہیں اور کسی بھی مذہب میں شادی ایک معاہدے کی صورت میں طے پاتی ہے۔

دو لوگ کب تک ساتھ ہیں یہ تو شادی میں بھی طے نہیں پاتا اور نہ ہی پارٹنر شپ میں اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مگر شادی معاشرتی طور پر ایک لیگل یا جائز رشتہ ہے یہی وجہ ہے کہ ایکسٹرا میریٹل افیئر مذہبی تو کیا معاشرتی لحاظ سے بھی غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ دو لوگ کنٹریکٹ میں رہتے ہوئے اگر پارٹنر شپ کے اصولوں کو توڑ رہے ہیں تو یہ غیر اخلاقی عمل کے ساتھ ساتھ غیر قانونی بھی ہے بالکل ایسے ہی جیسے دو بزنس پارٹنر کا آپسی معاہدہ اور اس کے قواعد پہ عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔

شادی کیا ہر معاملے میں کاغذی کاروائی کو اہمیت حاصل ہے اگر ملالہ کے پارٹنر شپ کے حوالے سے کاغذی کاروائی کو مسترد اور اپنی مرضی سے ساتھ رہنے کو دیکھا جائے تو پھر مالک مکان بھی کرائے دار کے ساتھ ایگریمنٹ نہ کرے اور کہے جب تک آپ کا دل چاہے میرے مکان میں رہیں، بزنس پارٹنر بھی اپنے ساتھی کو مرضی سے بنا کسی قواعد و ضوابط کاروباری معاملات چلاتے رہیں۔ مگر یہاں تو ادھار محبت کی قینچی بن جاتا ہے معاہدہ توڑنا تو دور کی بات ہے۔

ملالہ یہ کہتی ہیں کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں۔ بھئی سمجھ تو کسی کو نہیں آتا کچھ کو بچپن سے یہ شوق ہوتا ہے تو کچھ کو والدین مجبور کرتے ہیں، اور کچھ کو دوستوں کے طعنے جینے نہیں دیتے۔

شادی ایک خوبصورت بندھن ہے مگر معاشرے کے چند ناکام جوڑوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے تو یہ آپ کی ذاتی سوچ ہے۔ شادی آپ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ آپ ایک ہی انسان کے ہو کے رہنا چاہتے ہیں، زندگی کے دکھ سکھ میں ہر قدم اسے اپنے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں، آپ کے بچے کسی اس ایک شخص کے علاوہ کسی کو ماں یا باپ کا درجہ نہیں دے سکتے، اور پھر زندگی کہ اس موڑ پر جب آپ عمر کے آخری حصے میں ہوں دوست، احباب، اولاد سب اپنی زندگی میں مصروف ہوں تب اس شخص کے کاندھے پہ سر رکھ کے آرام کرنا چاہتے ہیں۔ بس اسی لیے کچھ لوگ شادی کرتے ہیں۔

بہر حال آپ ایک لبرل سوسائٹی میں رہتے ہوئے ایسی بات تو کر سکتے ہیں مگر ہمارا معاشرہ ایسی بات ماننا تو دور سننا گوارا نہیں کرتا جیسا کہ ملالہ نے اپنے اسی انٹرویو میں کہا کہ ان کی والدہ ہر گز یہ نہیں چاہتی اور ملالہ کو شادی کا کہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments