بیک جنبش قلم کیا سندھ میں جوڈیشل مارشل لا لگ چکا


روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ ذوالفقار علی بھٹو نے دے کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ دیس باسیوں کے بنیادی حقوق ریاست کی ذمہ داری ہے، بھٹو کا نعرہ لگ گیا لیکن عوام آج بھی روٹی، کپڑے اور مکان کے لئے ترس رہی ہے۔

نہ ہمارا ملک ریاست بن سکا نہ ہی عوام کو بنیادی حقوق مل سکے، بنیادی حقوق کے لیے اب بھی شہریوں کو راستوں پر نکلنا پڑتا ہے۔ ایک حکومت دوسری حکومت کے کاموں کو بند کر دیتی ہے، لوگوں کو ملا روزگار چھین لیتی ہے، منصوبے ٹھپ کر دیتی ہے، پالیسیاں تبدیل کر دیتی ہے۔ اس ملک کو پہلے دن سے جس طرح لیبارٹری بنا گیا ہے وہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے حال ہی میں ایک ایسا فیصلہ دیا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہزاروں برسر روزگار نوجوانوں سے روزگار چھین لیا جائے، عدالتی فرمان جاری ہو چکا ہے اب انتظامی آرڈر یعنی اس پر عمل ہونا باقی ہے۔ عدالت نے ایسا فیصلہ دیا ہے جسے سندھ میں جوڈیشل مارشل لا سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔

یہ ہائیکورٹ کا ڈویژنل بنچ تھا جس نے ایک صدی سے زائد عرصے سے قائم سندھ پبلک سروس کمیشن کو ختم کر دیا ہے، پہلے اس ادارے کے افسران کو معطل کیا، ادارے کو غیر فعال کر کے اس پر تالے لگوا دیے، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، مقدمہ جوں جوں آگے چلا کمیشن پر مشکلات بڑھتی گئیں، آخر میں عدالت نے ایک ہی وار سے کمیشن جیسا ادارہ ختم کیا، کمیشن جس قانون کے تحت کام کر رہا تھا اس قانون کو آئین سے متصادم قرار دے کر معطل کر دیا گیا، اور دو ہزار سے زائد کمیشن پاس افسر، ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹرز کو گھر بھیج دیا گیا۔ عدالتی فیصلہ سر آنکھوں پر جس فیصلے کا مطالبہ کامران خان جیسا بندہ کیمرے کے سامنے کئی دن پہلے کردے، خواجہ اظہار الحسن جیسا نفیس متعصب فیصلے کا اعلان دو دن پہلے کردے تو وہ فیصلہ عدالت کا کیسے ہوا؟

جس فیصلے میں ایک فریق کو سنے بغیر ہی ان کے حقوق چھین لیے جائیں، متاثرین کو صفائی کا موقعہ ہی نہ دیا جائے، بغیر نوٹس کے انہیں آفس سے گھسیٹ کر گھر کا راستہ دکھا دیا جائے تو اسے عدالتی نہیں سیاسی یا انتقامی فیصلہ ہی مانا جائے گا، قانونی ماہرین اس فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دے رہے ہیں، متاثرین کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے اور حکومت سندھ نے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پاکستانی عدالتوں کے کئی غیر مقبول فیصلے ہیں جن کو تاریخ نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، وہ فیصلے غیر مقبول یا متعصبانہ فیصلے اس لیے کہلائے جاتے ہیں کہ وہ اندھے انصاف کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے، بلکہ ان فیصلوں کے ذریعے قانون کو اندھا کر کے رکھ دیا جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ انصاف اندھا ہوتا ہے قانون دیکھتا ہے اور انصاف کرنے والے ججوں کی آنکھیں بھی پرنور ہوتی ہیں، رہی بات ہماری معزز عدالتوں کے ماضی یا حال کے کردار کی تو وہ کردار اتنا شاندار کبھی نہیں رہا جو یہ کہا جائے کہ تمام فیصلے آئین، انصاف اور قانونی تقاضوں پر پورے اترتے ہیں۔

اگر پاکستانی عدالتوں، غیرجمہوری قوتوں اور غیر مرعی ہاتھوں کے ملی بھگت اور گٹھ جوڑ کی بات کی جائے تو بات دور تک چلی جائی گی۔ لیکن ہم سندھ ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر آتے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں خاندانوں کے گھروں کے چولھے ٹھنڈے پڑنے کو ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں کہ دو ہزار ڈاکٹروں کو گھر بھیج دیا گیا ہے اس کے ساتھ 2018 کے مقابلے کے امتحانات میں کامیاب سیکڑوں افسران کو بھی برطرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا جھانسہ ہم نے دیکھ لیا روزگار دینا تو دور کی بات لیکن حکومت وقت نے لاکھوں لوگوں کو بیروزگار کیا، اب سمجھ میں آیا کہ عوام کو بے روزگار کرنے کا ٹھیکہ صرف تحریک انصاف کی حکومت نے نہیں لیا لیکن ہماری معزز عدالتیں بھی اسی کام پر مامور ہو چکی ہیں

تمیز الدین کیس سے لے کر قاضی فائز عیسیٰ کیس تک اگر عدالتیں اپنی خودمختاری، آزادی، آئین، قانون اور انصاف کو مقدم رکھتیں تو ملک کی صورتحال یہ نہ ہوتی۔ شاید ہم کافی آگے نکل چکے ہوتے، دنیا میں ہماری پہچان شاید سروسز مہیا کرنے والے ملک والی نہ ہوتے بلکہ اپنی اچھی خاصی وزن دار پوزیشن میں ہوتے، چلو جو بھی ہے ہم آتے ہیں ہائیکورٹ کے فیصلے کی طرف، انصاف کے عالمی اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے دنیا کی کوئی عدالت یک طرفہ فیصلہ نہیں دی سکتی، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا درخواست گزاروں کی استدعا ان لوگوں کو برطرف کرنے کی تھی؟

فیصلہ لکھتے وقت جج صاحب نے درخواست گزاروں کا موقف پیش کیا ہے، پبلک سروس کمیشن کی طرف سے سیکریٹری اور کمیشن کے چیرمین ان کے وکلا پیش ہوئے، رکارڈ لایا گیا، جوابات جمع کروائے گئے، اس میں کچھ تو ہوگا، کمیشن والوں نے بھی کچھ تو موقف اختیار کیا ہوگا فیصلے میں کمیشن کے موقف کا ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔ اب تو پبلک سروس کمیشن کے سیکریٹری کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے وہ تمام رکارڈ عدالت کو دکھایا جو سیکریٹ رکارڈ ہوتا ہے، اس کے باوجود فیصلے میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔

سندھ ہائیکورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن ایکٹ 1989 ع کو ہی آئین سے متصادم قرار دے کر معطل کر دیا ہے، بتیس سال پرانے قانون کو معطل کرنے کا مطلب یہ کہ ضیا الحق کے دور کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن نے جتنی بھی ملازمتیں دی ہیں ان کی قانونی حیثیت کوئی نہیں، پھر اس کمیشن کے ذریعے جتنی سفارشات آئیں اور بھرتیاں ہوئیں ان سب پر بڑا سوالیہ نشان چھوڑ دیا گیا ہے، اگر ہائیکورٹ کی منشا یہ ہی کہ 90 ع کی دہائی کے بعد سندھ میں پبلک سروس کمیشن کی سفارشات پر بھرتی افسران کو نکال دیا جائے تو پھر انتظامی بحران پیدا ہوگا، اگر انتظامی معاملات میں مداخلت والے ایسے ہی فیصلے آتے رہے تو پھر لوگوں کو جوڈیشل مارشل لا لگ جانے کی باتوں سے کون روک سکتا ہے؟

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments