کینیڈا میں پاکستانی نژاد خاندان کی ہلاکت اور اسلاموفوبیا پر بحث: ’کیا اب ہمیں حجاب اور شلوار قمیض میں چہل قدمی کرنے سے پہلے بھی سوچنا پڑے گا‘


کینیڈا

کینیڈا میں ’سوچے سمجھے منصوبے‘ کے تحت پاکستانی نژاد مسلمان خاندان کے چار افراد کے قتل نے ایک بار پھر سے ’اسلاموفوبیا‘ پر بحث چھیڑ دی ہے اور بیشتر سوشل میڈیا صارفین کا دعویٰ ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کو اگرچہ دو دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن صحیح معنوں میں مغربی معاشروں میں اسلاموفوبیا ’اب عروج پر ہے۔‘

کینیڈا کے وزیِراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے یہ ٹویٹ کرنے کے باوجود کہ ’کینیڈا میں اسلاموفوبیا کی کوئی جگہ نہیں‘ حالیہ واقعے نے پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں میں ایک بار پھر یہ احساس تازہ کر دیا ہے کہ مغربی ممالک میں اسلاموفوبیا میں اضافہ ہو چکا ہے۔

جہاں بہت سے صارفین پریشان ہیں کہ ناجانے کب ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کوئی واقعہ پیش آ جائے وہیں کئی افراد سوال کر رہے ہیں کہ مغربی ممالک کے رہنما مسلمانوں کے ساتھ اس نفرت اور تعصب کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیوں نہیں اٹھاتے؟

یاد رہے عام فہم زبان میں ’اسلاموفوبیا‘ کا مطلب مذہبِ اسلام یا مسلمانوں کے خلاف اُن کے عقائد کی بنیاد پر نفرت، تعصب یا خوفزدہ کرنے کا رویہ برتنا ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس وقت صفِ اول کے تمام ٹرینڈز کینیڈا میں پیش آنے والے واقعے کے گرد گھومتے دکھائی دے رہے ہیں اور ہیش ٹیگز جیسا کہ #Islamophobia ،#MuslimsLiveMatters کے تحت صارفین اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مغربی ممالک میں مسلمانوں سے روا رکھے جانے والے تعصب پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے بھی اس واقعے کے بعد ٹویٹ کیا کہ ’دہشت گردی کا یہ قابل مذمت اقدام مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کو ظاہر کرتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو مل کر اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

لندن سے مسلم کونسل کے ترجمان مقداد وارسی نے ٹویٹ کیا کہ ’اسلاموفوبیا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے اُس کی سنگینی کو مدِنظر رکھتے ہوئے نہیں نمٹا جاتا۔‘

انھوں نے مزید لکھا ایسے واقعات کی گونج مسلم دنیا میں سنائی دیتی ہے اور یہ واٹس گروپس اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہیں اور بہت سے لوگوں پریشان رہتے ہیں کہ شاید ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو جائے۔

کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کے شہر ہیملٹن میں مقیم پاکستانی نژاد صحافی عائشہ ناصر کا کہنا تھا کہ ’ہمیشہ سے مسلمان کمیونٹی سے ہی یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہم اپنی مساجد اور گھر کھولیں اور حجاب ترک کر دیں تاکہ سکیورٹی حکام ہم پر کسی جرم کے حوالے سے شک نہ کریں۔‘

انھوں نے سوال کیا ’لیکن یہ ذمہ داری ان افراد پر کب آئے گی جو اس وقت اقتدار میں ہیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ ایسے قتل روکنے کے لیے وہ کیا کر رہے ہیں؟‘

برطانیہ سے صحافی محمد شفیق نے تبصرہ کیا: ’ہمیں یہ مت کہیے کہ اسلاموفوبیا حقیقت نہیں اور اس کے اثرات نہیں ہوتے۔‘

انڈیا سے فیضل پیراجی نے لکھا ’ایک بار پھر ایک کینیڈین خاندان کو صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے پیاروں کو دفنانا پڑا۔‘

ذیشان نامی صارف نے ٹویٹ کیا کہ ’پوری دنیا نفرت کی ایک ایسی آگ کی لپیٹ میں ہے جسے بجھانا بہت مشکل ہے کیونکہ اس آگ کو ہوا دینے والے بہت ہیں اور اس پر پانی ڈالنے والے بہت کم۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے موثر اقدامات کیے جائیں تاکہ اس نفرت کی آگ پر قابو پایا جا سکے۔

اونٹاریو کے کونسلر محمد صالح نے ٹویٹ کیا کہ ’میں ایمانداری سے بتانا چاہتا ہوں کہ میں غصے میں ہوں۔ میں پریشان ہوں۔ مجھے تکلیف پہنچی ہے اور میں مسلسل اس خاندان کے بارے میں سوچ رہا ہوں جسے ہم سے چھین لیا گیا۔‘

صوبہ اونٹاریو میں کام کرنے والی ایک وکیل زاہرہ نے ٹویٹ کیا کہ ’ہم میں سے بہت سارے افراد کی فیملیز شام کو چہل قدمی کے لیے نکلتی ہیں، میری والدہ نے اس دوران اکثر حجاب اور شلوار قمیض پہنی ہوتی ہے۔‘

’اور اب ہمیں یہ کرتے ہوئے بھی خوفزدہ ہونا پڑے گا؟ اور اپنے اردگرد موجود خطرات کے بارے میں ہر وقت آگاہ رہنا ہو گا؟ یہ خاندان ہمارا بھی ہے۔ مدیحہ ہم میں سے کسی کی ماں بھی ہو سکتی تھی۔ ہم بطور کمیونٹی افسردہ ہیں اور ہمارے دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔‘

یاد رہے ایک 20 سالہ شخص نے اپنی گاڑی اس خاندان پر اس وقت چڑھا دی تھی جب وہ اپنے گھر کے باہر چہل قدمی کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کینیڈا میں پاکستانی نژاد خاندان کی ہلاکت: ’یہ دہشت گردی کا واقعہ اور کینیڈین معاشرے کا امتحان ہے‘

فرانس کے سیکولرازم میں مسلمانوں کے لیے جگہ ہے یا نہیں؟

برطانیہ میں اسلاموفوبیا عروج پر؟

اونٹاریو سے ہی اسوا نے لکھا کہ انھوں نے پوری زندگی اسلاموفوبیا کا سامنا کیا ہے اور اسی لیے ان کی حجاب پہننے والی والدہ جب بھی گھر سے نکلتی ہیں وہ ان کے لیے فکر مند رہتی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ ملک مسلمانوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے۔‘

واٹرلو سے ایک خاتون نے لکھا کہ اس واقعے کے بعد اُن کے والد نے انھیں شلوار قمیض پہننے اور واک کے لیے باہر نکلنے سے منع کر دیا ہے۔

https://twitter.com/AmiraElghawaby/status/1402090537369411610

کینیڈا میں انسانی حقوق کی کارکن اور اخبار ٹورنٹو سٹار کی کالم نگار امیرا ایلغاوابی نے افضال فیملی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ شیئر کیا۔ اس اعلامیے میں لکھا ہے: جو لوگ سلمان، مدیحہ اور ان کے خاندان کو جانتے تھے انھیں معلوم ہے کہ وہ بطور فیملی مثالی مسلمان، کینیڈین اور پاکستانی تھے۔‘

’وہ اپنی شعبوں میں بھرپور محنت کر رہے تھے اور ترقی کر رہے تھے۔ ان کے بچے اپنے سکولوں میں بہترین طلبا میں سے تھے اور وہ اپنی روحانی شناخت سے مضبوطی سے جڑے ہوئے تھے۔ اللہ سلمان، مدیحہ، یمنیٰ اور بچوں کی دادی کو شہید کا درجہ عطا کرے اور جو بچی اِس وقت ہسپتال میں داخل ہے اسے صحتیاب کرے۔‘

اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس واقعے میں ایک پوری فیملی کی تباہی کے خلاف ہمیں کھڑا ہونا ہو گا۔ ہمیں نفرت اور اسلاموفوبیا کے خلاف کھڑا ہونا ہو گا اور اپنی کمیونٹی اور سیاسی حلقوں میں اس بارے میں آگاہی پیدا کرنی ہو گی۔‘

’اس نوجوان لڑکے نے جو دہشتگرد عمل کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ ایک ایسے گروہ کے ساتھ منسلک تھا جس نے اسے ایسا کرنے کے لیے متاثر کیا اور ہمیں اس کے خلاف بطور کمیونٹی کھڑا ہونا ہو گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp