کرپٹو کرنسی: کیا ڈیجیٹل کرنسی سیاست، اقتصادیات اور مالیات کی دنیا کو ہلا کر رکھ دے گی؟

سیسلیا باریا - بی بی سی ورلڈ نیوز


کرپٹو

نیو یارک یونیورسٹی کے ماہر معاشیات نورئیل روبینی نے کچھ عرصہ قبل دنیا کی سب سے بڑی ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے اسے ’ایک بہت بُرا سکہ‘ قرار دیا تھا۔

دنیا کے امیر ترین اشخاص میں سے ایک وارن بفیٹ نے اس حوالے سے تجزیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’کرپٹو کرنسی اب تک کے بدترین عارضی طور پر قائم رجحانات میں سے ایک ہے۔‘

بینک آف انگلینڈ کے گورنر اینڈریو بیلی نے کچھ ہفتوں پہلے متنبہ کیا تھا کہ ’اگر آپ اپنا سارا پیسہ کھونے کو تیار ہیں تو اسے (کرپٹو کرنسی کو) خرید لیں۔‘

اقتصادیات میں نوبل انعام یافتہ جوزف سٹگلیٹز، پال کروگمین اور رابرٹ شیلر بھی کرپٹو کرنسی کے ناقدین میں سے ہیں لیکن اب وہ یہ پیش گوئی نہیں کرتے کہ یہ کرنسیاں اچانک ایک دن ختم ہو جائیں گی۔

گذشتہ ایک سال میں کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ کا حجم تقریباً دو کھرب امریکی ڈالرز تک پہنچ چکا ہے اور تمام تر پابندیوں اور نگرانیوں سے قطع نظر کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ میں وسعت آتی جا رہی ہے۔

کرپٹو کرنسی پر کسی بھی ملک، کمپنی یا مرکزی بینک کا کنٹرول نہیں ہے۔ مرکزیت کم کرنے کے نظریے پر عمل پیرا کرپٹو کرنسی میں خرید و فروخت میں کسی بروکر کی ضرورت نہیں ہوتی اور کوئی ادارہ اس کی تصدیق بھی نہیں کرتا۔

کمپیوٹرز کے ایک بہت بڑے نیٹ ورک، جن کے نوڈز پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں‘ کی مدد سے رقم کی منتقلی سے متعلق معلومات کی حفاظت کی خفیہ نگرانی کی جاتی ہے۔

اس نظام میں لاکھوں ڈالرز گردش کر رہے ہوتے ہیں اور اس عمل پر نظر رکھنا حکومتوں، مرکزی بینکوں اور ریگولیٹری اداروں کے لیے تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

ہم ایک دوراہے پر ہیں

بٹ کوائن

ناقدین کے برعکس ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو کرپٹو کرنسی کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں اور انھیں یقین ہے کہ ان کی تحریک کا خاتمہ نہیں ہو گا۔

وہ کرپٹو کرنسی کو نہ صرف طویل المدتی منافع بخش سرمایہ کاری کے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں بلکہ بین الاقوامی مالیاتی نظام میں بڑی تبدیلی کے طور پر بھی۔

انھیں یقین ہے کہ یہ مارکیٹ سیاست، اقتصادیات اور مالیات کی دنیا کو ہلا کر رکھ دے گی۔

بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے تجارتی پلیٹ فارم ’بٹ ٹو می‘ کے کمرشل ڈائریکٹر شاویئر پاسٹر کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’کرپٹو کرنسیاں اسی طرح دنیا کو تبدیل کرنے والی ہیں جس طرح انٹرنیٹ نے کیا تھا۔‘ وہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم دولت کے ارتقا کی تاریخ میں ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’مرکزی بینکوں کی جانب سے جو لاتعداد نوٹ چھاپے جا رہے ہیں وہ کچھ ہی سالوں میں بے وقعت ہو جائیں گے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد ان پرانے طریقوں کی موت کے مترداف ہو گا۔‘

بٹ کوائن اور کرپٹو کرنسیوں کے مشہور ترین حامیوں میں سے ایک جیک ڈورسی ہیں جو ٹوئٹر اور سکوائر کے سی ای او ہیں۔

انھوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’بٹ کوائن سب کچھ تبدیل کرنے والا ہے اور یہ ہمارے اچھے کے لیے ہی ہو گا۔‘ ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ ’کیوں ادارہ یا شخص اس روک یا اس میں تبدیلی نہیں کر پائے گا۔‘

ڈورسی کو کرپٹو کرنسی پر اتنا یقین ہے کہ سنہ 2018 میں انھوں نے یہ پیشنگوئی کر دی تھی کہ ان کے بٹ کوائن اگلے 10 برسوں میں دنیا کی واحد کرنسی ہو گی۔

اور جب اس سال جنوری میں فنانشل کرائم کنٹرول نیٹ ورک (فنکن) نے ایک ایسا قانون لانے کی تجویز پیش کی جس کے ذریعے کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ان افراد کے نام اور پتہ بتائیں جو کرپٹو میں تین ہزار ڈالر سے زیادہ کا لین دین کرتے ہیں تو ڈورسی نے ایک خط میں اس تجویز پر اعتراض اٹھایا تھا۔

شینگپینگ ’سی زی‘ ژاؤ لین دین کے حجم کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے کرپٹو کرنسی تجارتی پلیٹ فارم ’بائنانس‘ کے سی ای او ہیں۔ انھوں نے کچھ روز قبل متنبہ کیا تھا کہ کوئی بھی ادارہ بٹ کوائن اور اس کی بنیادی ٹیکنالوجی یعنی ’بلاک چین‘ کو تباہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔

انھوں نے کوائن ڈیسک کنسینسز 2021 کی ورچوئل کانفرنس میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی اب اسے بند کر سکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی، یہ تصور، پانچ کروڑ افراد کے ذہنوں میں نقش ہے۔‘

ژاؤ نے مزید کہا کہ حکومتوں اور ریگولیٹرز کو بلاک چین ٹیکنالوجی اور کرپٹو کرنسیوں کو اپنانا چاہیے اور ان سے لڑنا سنہ 90 کی دہائی کے اوائل میں ایمازون کے بزنس ماڈل کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔

کرپٹو کرنسیاں روایتی مالیات یا حکومت کے تعاون سے چلنے والی کرنسیوں کو ختم کرنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ مزید ’مالیاتی آزادی کے لیے ہے۔‘

’وہ کسی بھی ملک کی مالیاتی خودمختاری کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں‘

امریکہ میں بین الاقوامی تجزیہ کرنے والی تنظیم اٹلانٹک کونسل کے جیو اکنامک سینٹر کے ڈائریکٹر جوش لیپسکی نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’کرپٹو کرنسی مارکیٹ میں بہت کم دولت ہے اور وہ ابھی عالمی مالیاتی نظام کے لیے خطرہ نہیں ہے۔‘

تاہم انھوں نے متنبہ کیا ہے کہ صرف چند مہینوں میں ان کی تیز رفتار ترقی نے کرپٹو کرنسی کو مزید اہم بنا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کرپٹو کوئین: وہ خاتون جس نے اربوں لوٹے اور غائب ہو گئی

کرپٹو کرنسی کی مائننگ کرنے والے اداروں کا چین میں کاروبار معطل کرنے کا اعلان

’میں نے کرپٹو کرنسی کی لت میں چوری کیے ہوئے لاکھوں پاؤنڈ 20 منٹ میں گنوا دیے‘

لیپسکی کا کہنا ہے کہ ’ایک سال میں ہم کرپٹو کرنسی مارکیٹ میں مزید توسیع دیکھ سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا بھر کے ریگولیٹرز اس بارے میں سوچ رہے ہیں کہ کس طرح کے نئے قواعد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‘

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سابقہ ڈائریکٹر اور سینیئر مشیر کرسٹین لاگارڈ کا کہنا ہے کہ کرپٹو کرنسیوں کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ’وہ کسی بھی ملک کی مالیاتی خودمختاری کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔‘

اگر آپ بطور مرکزی بینک یہ نہیں جانتے ہیں کہ آپ کے ملک میں کتنا پیسہ خرچ ہوا اور اسے کہاں منتقل کیا گیا ہے تو اس سے آپ کی مالیاتی پالیسی اور افراط زر، سود کی شرح کی پیمائش متاثر ہو گی اور اس کے بہت زیادہ مضمرات پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اراکینِ پارلیمان اور حکومتیں اپنی مالی پالیسی کیسے وضع کرتی ہیں یہ بھی متاثر ہو گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ تمام ممالک کو مالیاتی خودمختاری کو درپیش خطرے پر خدشات ہونے چاہییں۔ وہ اس پر قابو نہیں پا سکتے ہیں کہ کتنی رقم چھپی اور خرچ کی جاتی ہے۔

مستقبل کے منظر نامے کو پیش کرتے ہوئے لپسکی کا خیال ہے کہ حکومتیں اپنی ڈیجیٹل کرنسیوں کو تشکیل دیں گی اور یہ مارکیٹ میں کرپٹو کرنسیوں کے ساتھ مقابلہ کریں گی۔

اس تناظر میں محققین کا خیال ہے کہ لوگوں کو جعلسازوں سے بچانے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ڈیجیٹل کرنسی مارکیٹ کو منظم کیا جانا چاہیے تاکہ کرپٹو کرنسی کو قانونی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

حکومتوں اور مرکزی بینکوں کی مزاحمت

بٹ کوائن

امریکہ میں اس موضوع پر بحث جاری ہے۔

اپریل کے وسط میں امریکہ میں مرکزی بینک کی حیثیت رکھنے والے ادارے امریکی فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے کہا تھا کہ ’یہ صرف قیاس آرائیوں کے ذرائع ہیں۔‘

پاول نے کہا کہ ’ہماری معیشت کا موثر انداز میں کام کرنا اس بات پر منحصر ہے کہ لوگوں کو نہ صرف ڈالر پر بلکہ ادائیگی کے نیٹ ورکس، بینکوں اور دیگر ادائیگی کی خدمات فراہم کرنے والوں پر بھی اعتماد ہو۔‘

فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے کہا کہ وہ ڈیجیٹل ڈالر جاری کرنے کے امکان کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

اس سے قبل سیکریٹری خزانہ جینیٹ یلن نے اظہار خیال کرتے ہوئے بٹ کوائن کو ’قیاس آرائیوں پر مبنی اثاثہ‘ اور ’لین دین میں انتہائی غیرموزوں ذریعہ‘ قرار دیا تھا۔

اور کچھ دن پہلے امریکہ کے اعلیٰ مالیاتی ریگولیٹر ایس ای سی کے چیئرمین گیری گینسلر نے قانون سازوں کو یہ یقین دہانی کراتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ ڈیجیٹل کرنسیوں سے اہم پالیسی اور سرمایہ کاروں کے تحفظ سے متعلق مسائل سامنے آتے ہیں۔ اس بیان کو بائیڈن انتظامیہ کے دور میں نگرانی سخت کرنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔

گینسلر نے کہا کہ ’میں ان کرپٹو کرنسی مارکیٹوں میں سرمایہ کاروں کے تحفظ کے خلا کو پُر کرنے کے لیے دوسرے ریگولیٹرز اور کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘

عالمی سطح پر مرکزی بینکوں نے اس بارے میں بات کرنا شروع کر دی ہے۔

’مرکزی بینکوں کے بینک‘ کے نام سے مشہور سوئٹزرلینڈ میں قائم بینک برائے بین الاقوامی تصفیہ (بی آئی ایس) نے یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ کرپٹو کرنسیوں کے ساتھ جنگ ہے۔

بی آئی ایس کے جنرل مینیجر اگسٹن کارسٹنز نے جنوری کے آخر میں کہا ’سرمایہ کاروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ بٹ کوائن اپنی قدر مکمل طور پر کھو سکتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ بٹ کوائن فطری طور پر خطرناک ہے اور صرف مرکزی بینکوں کو ڈیجیٹل کرنسی جاری کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

وال سٹریٹ کے مؤقف میں تبدیلی

کرپٹو

اگرچہ کچھ افراد اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کرپٹو کرنسیوں کا اجرا صرف مجرموں کے استعمال کے لیے کیا گیا تھا جو غیر قانونی طور پر اسلحہ اور منشیات فروخت کرتے ہیں لیکن گذشتہ سال ان کے استعمال میں تیزی سے اضافے نے اسے سرمایہ کاری کے آلہ کار کی حیثیت سے وسیع پیمانے پر شناخت بخشی ہے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑی کمپنیاں اسے اپنا رہی ہیں جیسے انویسٹمنٹ بینکنگ میں معروف نام جیسے گولڈمین سیکس، جے پی مورگن یا مورگن سٹینلے نے کرپٹو کرنسی کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔

در حقیقت مورگن سٹینلے مارچ کے وسط میں اپنے صارفین کو بٹ کوائن فنڈز تک رسائی کی پیشکش کرنے والے بڑے امریکی بینکوں میں سے پہلا بینک بن گیا ہے۔

مئی کے آخر میں گولڈمین سیکس میں ڈیجیٹل اثاثوں کے سربراہ میتھیو میکڈرموٹ نے اعلان کیا کہ ’بٹ کوائن کو اب سرمایہ کاری کرنے کا اثاثہ سمجھا جائے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ہم ایک نئے ایسٹ کلاس کی ابتدا کا مشاہدہ کریں۔‘

جو افراد کرپٹو کرنسیوں کے بارے میں زیادہ پُرجوش نہیں ہیں ان میں دنیا کے سب سے بڑے وینچر کیپیٹل فنڈ برج واٹر ایسوسی ایٹس کے بانی ریمنڈ ڈیلیو بھی شامل ہیں۔

مئی کے آخر میں انھوں نے ایک بزنس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ان کے پاس ’کچھ‘ بٹ کوائن موجود ہیں لیکن ساتھ ہی انھوں نے متنبہ بھی کیا کہ حکومتوں کے پاس کرپٹو کرنسیوں کو ’کنٹرول کرنے کی صلاحیت‘ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’انھیں معلوم ہے کہ وہ کہاں ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔‘

دوسری طرف دیگر سرمایہ کار جیسا کہ آرک انویسٹمنٹ کے بانی کیتھی ووڈ کا اصرار ہے کہ حکام ’انھیں روک نہیں سکتے۔‘

کرپٹو کرنسی کے ناقدین میں سے ایک لیری فنک، دنیا کی سب سے بڑی اثاثہ مینیجمنٹ کمپنی بلیک آرک کے سی ای او ہیں۔

انھوں نے کہا ہے کہ ان کی فرم مارکیٹ کے ارتقا کی پیروی کر رہی ہے لیکن یہ معلوم کرنا ابھی قبل از وقت ہے کہ آیا یہ صرف ایک قیاس آرائی کا ذریعہ ہے۔

جو بات کسی کے لیے بھی راز نہیں ہے وہ یہ کہ وہ کمپنیاں جو کرپٹو کرنسی میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کر چکی ہیں انھوں نے اس مارکیٹ کے طرز عمل کا تجزیہ کرنے کے لیے خصوصی طور پر ٹیمیں تیار کی ہیں اور انھی کمپنیوں میں عالمی وبا کے دوران غیر معمولی نمو دیکھنے میں آئی۔

انتہائی اتار چڑھاؤ

بٹ کوائن

حقیقت یہ ہے کہ بٹ کوائن ایک طرف انتہائی غیر معمولی ہے تو دوسری جانب اس کا اُتار چڑھاؤ بھی خاصا اچانک ہے۔

گذشتہ ایک مہینے کے اندر ہی اس نے دو مرتبہ ہونے والی غیر معمولی گراوٹ کے باعث اپنی آدھی قیمت کھو دی۔

سب سے پہلے مئی کے وسط میں ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک کا پیغام اس کا سبب بنا جس میں انھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے خدشے کے سبب اپنی کاروں کی ادائیگی کے ذرائع کے طور پر بٹ کوائن وصول نہیں کریں گے۔

ان کے بیان کے پیچھے یہ دلیل موجود ہے کہ نئے بٹ کوائن کی نسل کو طاقتور کمپیوٹرز چلاتے ہیں اور انھیں چلانے کے لیے ایک بہت بڑی توانائی کی کھپت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اور مسئلہ یہ ہے کہ اس توانائی کا زیادہ تر حصہ فوسل فیولز کے ذرائع سے حاصل ہوتا ہے جو ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

دوسرا دھچکا کچھ دن بعد اس وقت لگا جب چینی حکومت نے اس کی لین دین پر نئے ضوابط عائد کیے۔

اس کی قیمت 30 ہزار ڈالر تک گر گئی مگر آنے والے دنوں میں اس کی قدر میں دوبارہ اضافہ ہوا۔

ایک نیا معاشی دور قریب ہے

قیاس آرائیوں اور کرپٹو کرنسیوں کے اتار چڑھاؤ کو اگر کچھ دیر کے لیے بھلا دیا جائے تو یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ان کرنسیوں کو حتمی طور پر اپنانے سے پیدا ہونے والی تبدیلی کتنی گہری ہو سکتی ہے۔

بٹ کوائن کے سب سے زیادہ سخت محافظوں میں جنھیں ’کرپٹو ایونجلسٹ‘ کہا جاتا ہے اُن میں مختلف سیاسی نظریات کے حامل افراد، انتہائی قدامت پسند سے لے کر سب سے سرکش اور اسٹیبلشمنٹ مخالف لوگ بھی موجود ہیں۔

فوربز میڈیا کے صدر اور مدیر اعلیٰ اور دو وقت کے ریپبلکن پرائمری امیدوار سٹیو فوربز اس حوالے سے خاصے پرجوش ہیں۔

انھوں نے ایک پوڈ کاسٹ میں کہا کہ ’ایک بہت بڑی کہانی بنی جا رہی ہے، جو سیاست، اقتصادیات اور مالیات کی دنیا کو ہلا کر رکھ دے گی۔ یعنی حکومتوں اور مرکزی بینکوں کی ٹیکسوں اور ضوابط سے ڈیجیٹل کرنسیوں کو کچلنے کی کوشش۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’سیاستدان اور مرکزی بینک اپنی معاشی اجارہ داریوں کے تحفظ کے لیے بھرپور جدوجہد کریں گے۔ آخر میں مالیاتی اجارہ داری مسلط کرنے والوں کو شکست ہو گی۔‘

’چاہے ہمارے اچھے کے لیے یا برے کے لیے ایک نیا معاشی دور قریب آ رہا ہے۔‘

مزید پڑھیے

بٹ کوائن: ’کسی نے مہنگی کار خریدی تو کوئی لُٹ گیا‘

کیا بجلی کا بے تحاشہ استعمال بٹ کوائن کو ڈبو سکتا ہے؟

ایران: گرمی، بلیک آؤٹ، کرپٹو مائننگ اور سیاسی حلقوں میں کشیدگی

وہ نیا دور اگر اس کا کبھی بھی آغاز ہوا، جدید مالیاتی نظاموں کو تبدیل کرنے کا سبب بنے گا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد بریٹن ووڈز کی جانب تیار کردہ ماڈل جس میں وہ سسٹم جس میں کرنسی کی مالیت سونے کے ذخائر مطابق رکھی جاتی تھی اور موجودہ نظام جو 1971 میں بنایا گیا تھا، جہاں زر مبادلہ کی مارکیٹ میں اتار چڑھاو کے ذریعہ ایکسچینج ریٹ کیا جاتا ہے۔

لیکن اس بات کو یقینی بنانا کہ کرپٹو کرنسیاں مالیاتی نظام کو تبدیل کر دیں گی جس نے گذشتہ نصف صدی سے دنیا پر حکمرانی کی ہے، بہت بڑا دعویٰ ہے۔

اگرچہ تبدیلیاں آ سکتی ہیں لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ موجودہ اقتصادی نظام دنیا کی طاقت کے نئے توازن (جیسے چینی معیشت کا عمودی عروج) اور تکنیکی جدت طرازی کے جواب میں تیار ہو گا جس میں بلاک چین ٹیکنالوجی بھی شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp