بحریہ ٹاؤن، احتجاج اور پیپلز پارٹی


بحریہ ٹاؤن کا آغاز 1997 میں اسلام آباد سے کیا گیا، راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے بڑے پروجیکٹ جبکہ دیگر چھوٹے شہروں میں چھوٹے پروجیکٹ ہیں، بحریہ ٹاؤن راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور کو جدید ترین شہروں کا درجہ دیا گیا، بڑے بڑے انویسٹرز جن میں سیاست دان، بیوروکریٹ اور جنرلز نے بھاری انویسٹمنٹ کی، مگر بحریہ ٹاؤن کراچی پر شروع دن سے یہ تنقید کی گئی کہ یہ پروجیکٹ قبضہ اور زور زبردستی سے چھینی گئی زمینوں پر بنایا گیا ہے، یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔

مگر قصہ یوں ہے کہ چونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف ووٹ جو کہ آخری سانسیں لے رہا ہے کو بحریہ ٹاؤن کے پیچھے پیپلز پارٹی کو ٹارگٹ کرنا تھا، انہوں نے بحریہ ٹاؤن والے معاملے کو پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب سے جوڑنا شروع کیا، بحریہ ٹاؤن کے پیچھے اصلی ہاتھوں کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب کو برا بھلا کہنے لگے، وہ تحریک جو گڈاپ اور ملیر کے اصلی رہائشیوں کی پرامن تحریک تھی کو یرغمال بنا کر چھ جون کو دھرنے کا اعلان کیا، اس دھرنے میں کیا ہوا یہ تمام میڈیا میں رپورٹ ہو چکا، اب وہ تحریک جو کئی سالوں سے چل رہی تھی ان چند سیاسی نابالغ لوگوں کی وجہ سے پس پشت چلی گئی۔

بحریہ ٹاؤن کے خلاف ہونے والے اس دھرنے کو سندھ کے کچھ نیشنلسٹ، جی ڈی اے (جو پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ وفاق میں اتحادی ہے ) اور دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی، یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ اس وقت سندھ میں پانی کی شدید قلت ہے، سندھ کو این ایف سی کے تحت ملنے والے فنڈز میں کٹوتی ہو رہی، سندھ جو پاکستان کی خزانے میں ستر فیصد ریونیو جمع کرتا ہے کے لئے اس سال کے بجٹ میں صرف دو بڑے منصوبے رکھے گئے، جبکہ پنجاب، بلوچستان، کے لئے بلترتیب 14، 28 اور خیبر پختونخوا کے لئے دس بڑے منصوبے رکھے گئے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جی ڈی اے اور دیگر جماعتوں کو پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے ہو کر اس ناجائزی پر بھرپور احتجاج کیا جاتا، مگر جان بوجھ کر سندھ کے ساتھ ہونے والی ان نا انصافیوں کو جان بوجھ کر پیچھے دھکیلا، اور ایک پرامن تحریک جو متاثرین بحریہ ٹاؤن کے خلاف تھی کو یرغمال بنایا، جو اب پس پست چلی گئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد سندھ کے ساتھ مسلسل نا انصافیاں ہو رہی ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ نے کئی بار خطوط لکھے، ہر فورم پر احتجاج کیا، مگر وزیراعلیٰ سندھ یا سندھ حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے، سندھ حکومت کا ساتھ دینے کے بجائے سندھ حکومت کو دو رائے پر کھڑا کر دیا گیا، کہ سندھ حکومت اپنے صوبے میں امن امان قائم کرے، یا احتجاجیوں کے ساتھ کھڑی ہو جائے جنہوں نے مبینہ طور پر بحریہ میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کیا۔

تاریخی طور پر پیپلز پارٹی نے سندھ بالخصوص کراچی میں رہنے والے تمام قدیمی رہائشیوں کے حقوق کا خیال رکھا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے 1972 میں کراچی ضلع کو پہلے تین اضلاع اور بعد میں چار اضلاع پر مشتمل پیپلز میونسپل کمیٹیاں بنائی گئیں، بعد میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے ملیر ضلع بنایا، ملیر کے سندھی، بلوچ و دیگر آبادیوں کو گھر اور مالکانہ حقوق دینے کے لئے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی بنائی گئی، مشرف نے آتے ساتھ ہی نہ صرف کراچی کے اضلاع کو ختم کیا بلکہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو بھی ختم کر دیا۔

کراچی میں جب متحدہ کا ناظم آیا تو انہوں نے ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو بحال کر کے اس کے حوالے کر دیا گیا۔ جس نے ملیر کی زمینوں کی بندر بانٹ کی، 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے آنے کے بعد پیپلز پارٹی نے نہ صرف کراچی کے پرانے اضلاع کو نہ صرف بحال کیا بلکہ کورنگی اور کیماڑی کے نہیں اضلاع بنا کر کراچی کے اصل رہائشیوں کو ان کے حقوق اور نمائندگی دی گئی۔ اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو بھی دوبارہ منظم کیا گیا۔

کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے قبضے اور چھینی گئی زمینوں کے خلاف چلنے والی تحریک کی وجہ سے کیس عدالت میں پہنچا جہاں عدالت نے سروے آف پاکستان کے ذریعے بحریہ کا سروے کروایا، بحریہ کی کل زمین کے بدلے 456 ارب روپے کا جرمانہ کیا گیا اور بحریہ کو کہا گیا یہ جرمانہ قسطوں میں ادا کرے اور بحریہ ٹاؤن کی تمام زمینوں کو ریگیولرائز کیا گیا، سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کو متعدد بار خطوط لکھے کہ بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی رقم صوبے کی ملکیت ہے، سپریم کورٹ اپنی نگرانی میں یہ تمام فنڈز سندھ میں خرچ کرے، مگر وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت نے سپریم کورٹ میں خط لکھا کہ بحریہ سے ملنے والے فنڈز وفاق کو دیے جائیں، جی ڈی اے اور دیگر کو اس نا انصافی پر سندھ حکومت کا ساتھ دینا چاہیے تھا مگر تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں۔

سندھ حکومت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ سندھ حکومت نے بحریہ کو زمینیں الاٹ کی ہیں، جبکہ بحریہ ٹاؤن سوموٹو کیس میں یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پابندی عائد کر رکھی ہے کہ کوئی بھی سرکاری زمین کسی نجی کمپنی یا ادارے کو الاٹ نہیں ہو سکتی، بحریہ کی تمام نجی زمینیں ہیں جو بحریہ ٹاؤن نے یا تو خریدی ہیں، یا پھر ایکسچینج کی ہیں، مگر ہمیشہ پیپلز پارٹی پر نزلہ گرایا جاتا ہے، اور اس سارے معاملے کو پولیٹی سائز کیا گیا، اب اس وقت بحریہ ٹاؤن کے قبضے اور تاریخی گاؤں کی مسماری کا معاملہ کہیں پیچھے چلا گیا ہے۔

رب نواز بلوچ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رب نواز بلوچ

رب نواز بلوچ سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں، عوامی مسائل کو مسلسل اٹھاتے رہتے ہیں، پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ٹویٹر پر @RabnBaloch اور فیس بک پر www.facebook/RabDino اور واٹس ایپ نمبر 03006316499 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

rab-nawaz-baloch has 30 posts and counting.See all posts by rab-nawaz-baloch

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments