تمغہ حسن کارکردگی اور 8 نگار ایوارڈ حاصل کرنے والے اداکار غلام محی الدین


1970 کی دہائی کے شروع کے سال ہوں گے جب میں نے جامعہ کراچی میں بی اے آنرز میں داخلہ لیا۔ اس زمانے میں میرے ہی شعبے کے ایک سینئر، کاظم حسن رضا پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے انگریزی میں خبریں پڑھتے تھے۔ پھر ہم سے ایک سال سینئر شیرین رحمن بھی تھیں جو آگے چل کر سیاست میں نامور ہوئیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی ممبر قومی اسمبلی فوزیہ وہاب (م) میرے ساتھ کی تھیں اور ان کے شوہر وہاب صدیقی (م) تو میرے ہی شعبے میں ایک سال سینئر تھے۔

یہ اس زمانے میں ٹی وی کے حالات حاضرہ کے پروگراموں میں آتے تھے۔ نامور فلمی اور ادبی شخصیت جناب حمایت ؔعلی شاعر کے بیٹے روشن خیال ہمارے ہی ساتھ کے تھے۔ انہوں نے بعد میں پاکستان بحریہ کے شعبہ تعلقات عامہ سے منسلک ہو کر کافی ترقی کی۔ یہیں شعبہ اردو میں نامور فلمی گیت نگار جناب سرورؔ بارہ بنکوی صاحب کے بیٹے اور بیٹی پڑھتے تھے۔ اسی شعبہ اردو میں صدفؔ اقبال المعروف صدف ؔ کیمبلپوری بھی تھے جو ریڈیو پاکستان کی ’بزم طلباء‘ میں بہت فعال تھے اور بعد میں روزنامہ نوائے وقت کراچی سے منسلک ہو گئے۔ پھر غالباً سال بھر بعد ٹیلی وژن فنکارہ منور سلطانہ بھی دکھائی دیں۔ معلوم ہوا کہ یہ ٹیلی وژن اداکار غلام محی الدین کی منگیتر ہیں۔ کبھی کبھار غلام محی الدین بھی جامعہ کی آرٹس لابی کی

مشہور زمانہ ’مکو‘ کی کینٹین کے پاس نظر آتے تھے۔ بہت سے لڑکے لڑکیاں ان سے آٹوگراف لیتے اور بات چیت کرتے ان میں، مجھ سمیت میرے احباب بھی ہوتے۔ وہ ہمیشہ بہت خوش مزاجی سے سب سے بات چیت کرتے تھے۔ پھر کچھ عرصہ میں ہم نے دیکھا کہ ان کی فلم ”میرا نام ہے محبت“ نے کامیاب ہو کر ان کو سپر اسٹار بنا دیا۔ اور غلام محی الدین کی شادی منور سلطانہ سے ہو گئی۔ ماشاء اللہ خوشگوار زندگی گزر رہی ہے۔

وقت نے چھلانگ لگائی جامعہ کے ساتھی بھی عملی زندگی میں داخل ہو گئے۔ کچھ یہیں رہ گئے تو کچھ بیرون ملک! میں بھی پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام سے منسلک ہو گیا۔ غلام محی الدین کا نام فلم کے حوالے سے معتبر ہو گیا۔ لیکن فلمی دنیا میں جانے کے بعد ان سے میری کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ وقت نے اور چھلانگ لگائی اور مجھے نگار ویکلی میں لکھنے کا موقع ملا۔ ابھی پچھلے دنوں لاہور میں گلو بھائی ( پیار سے ان کو فلمی حلقے میں گلو بھائی کہا جاتا ہے ) سے ملاقات ہوئی۔ پھر محمد علی صاحب کی برسی کے موقع پر ان کے تاثرات نگار ویکلی کے لئے ریکارڈ کیے ۔ یہ وہ تمہید ہے جو نگار کے قارئین کے لئے 8 نگار ایوارڈ اور صدارتی تمغہ حسن کارکردگی یافتہ غلام محی الدین صاحب سے انٹرویو کرنے کا باعث بنی۔

” میرے دادا اور والد صاحب حیدر آباد دکن سے تعلق رکھتے تھے جب کہ میری والدہ بمبئی کی رہنے والی تھیں۔ میرے والد صاحب وہاں محکمہ پولیس میں تھے۔ ہم لوگوں نے حیدرآباد دکن سے پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں رہائش پذیر ہو گئے۔ میں نے بی اے تک تعلیم بھی کراچی میں حاصل کی اور آہستہ آہستہ ریڈیو اور شو بز میں داخل ہو گیا۔ شروع شروع میں ریڈیو پاکستان کراچی کے پروگرام ’بزم طلباء‘ میں شرکت کی پھر 1971 کی پاک بھارت جنگ کے بعد پروگرام ’فوجی بھائیوں کے لئے‘ میں حصہ لیا۔ اس کے بعد 1972 سے باقاعدہ ریڈیو پاکستان سے کام کرنا شروع کر دیا۔ میں نے وائس آف امریکہ کے لئے بھی کام کیا“ ۔

” پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے ڈرامہ پروڈیوسر قاسم جلالی صاحب کا ریڈیو پاکستان کراچی آنا جانا تھا۔ انہیں میری آواز پسند آئی اور اپنے ڈرامے“ کتنی آنکھیں کتنے خواب ”کے لئے مجھے میری آواز کی وجہ سے منتخب کیا۔ اس کے بعد میں نے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں قاسم جلالی صاحب کے علاوہ کنور آفتاب صاحب، بختیار احمد صاحب اور امیر امام صاحب جیسے پروڈیوسروں کے ساتھ بھی کافی کام کیا۔ میں نے کمال احمد رضوی صاحب کے ساتھ بھی کام کیا“ ۔

” جلالی صاحب کا ڈرامہ ’کتنی آنکھیں کتنے خواب‘ شبابؔ کیرانوی صاحب نے دیکھا اور مجھے فلم میں کام کرنے پیشکش کی۔ پھر وہ کراچی آئے اور مجھ سے ملاقات کی۔ میں اس وقت ہچکچاہٹ کا شکار تھا کیوں کہ اس زمانے میں نئے آرٹسٹ کی فلم چلنا بڑا مشکل تھا۔ اس وقت محمد علی صاحب، ندیم صاحب، وحید مراد صاحب اور شاہد صاحب جیسے اداکار اردو فلموں میں چھائے ہوئے تھے۔ نئے اداکار کی فلم نہیں چلتی تھی۔ اس کے علاوہ میں اس وقت امریکہ جانا چاہتا تھا کیوں کہ میرے زیادہ تر دوست احباب وہیں تھے۔ شبابؔ صاحب نے مجھے حوصلہ دیا کہ آپ فلم کے لئے موزوں آرٹسٹ ہیں اور ضرور کامیاب ہوں گے۔ اللہ کا شکر ہے کہ پھر ایسا ہی ہوا“ ۔

یہ فلم ”میرا نام ہے محبت“ ( 1975 ) تھی جو سپر ہٹ ہوئی اور وہ راتوں رات ہیرو بن گئے۔ اس فلم کو چینی زبان میں ڈب کر کے وہاں ریلیز کیا گیا۔ روایت کی جاتی ہے کی چینی لوگ ہمارے گانے یاد کر کے گاتے بھی تھے۔ یہ فلم عوامی جمہوری چین میں مسلسل 18 سال چلی۔

” میرے اس شعبے میں جانے کی میرے خاندان میں کوئی مخالفت نہیں ہوئی۔ ہوتی بھی تو کس وجہ سے ہوتی! میرے والد صاحب کہتے تھے کہ کوئی فرد اور کوئی ادارہ خراب نہیں ہوتا بلکہ یہ تو لوگوں کے افعال ہوتے ہیں۔ تمہیں شوق ہے تو اس میدان میں ضرور جاؤ لیکن ان باتوں سے احتراز کرنا جو یہاں ہوتی رہتی ہیں!“

” ٹیلی وژن کے مقابلے میں فلم کیمرے کا سامنا کیسا لگا؟“ ۔

” مجھے کوئی فرق نہیں محسوس ہوا! میں ان چیزوں کو ذہن میں نہیں رکھتا کہ ٹیلی وژن میں تین کیمرے اور فلم میں صرف ایک کیمرہ ہوتا ہے۔ میرا تعلق تو صرف اپنے کام سے ہوتا تھا۔ اداکاری کے دوران اداکار کو دیکھنا کیمرہ اور کیمرہ مین کا کام ہے میں اس طرف دھیان نہیں دیتا تھا۔ ٹی وی ریکارڈنگ میں بغیر رکے پورا سین کرنا ہوتا تھا۔ کیمرے تو خود آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔ اب فلم کے علاوہ ٹی وی پروڈکشن ہاؤس والے بھی محض ایک کیمرہ استعمال کرتے ہیں“ ۔

” کبھی کبھار فلموں میں ایک ہی منظر میں اکثر کرداروں کے لباس، ہیر اسٹائل بدل جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں ان کی نشاندہی کرنا میرا دلچسپ مشغلہ تھا۔ کیا کبھی آپ نے ایسی صورت حال کا سامنا کیا؟“ ۔

” ویسے یہ ذمہ داری ڈائریکشن کے شعبے کی ہے۔ باقاعدہ ’کنٹی نیوئٹی‘ یا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے اسٹل تصاویر کی مدد لی جاتی ہے۔ پھر ہدایتکار کے معاون باقاعدہ اس کو رجسٹر میں نوٹ بھی کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی بھول چوک ہو ہی جاتی ہے۔“

” گلو بھائی ذرا تھیٹر میں اپنے کام کے بارے میں بتائیے“ ۔
” اب پہلے والے تھیٹر تو رہے نہیں۔ ویسے میں نے ظہور احمد صاحب کا تاریخی تھیٹر کیا تھا“ ۔
” کیا آپ کو شروع میں گانوں کی فلم بندی میں الجھن یا دقت پیش آئی؟“ ۔
” نہیں! کبھی کوئی الجھن یا دقت پیش نہیں آئی“ ۔
” آپ پر فلمایا گیا پہلا گانا کون سا ہے؟“ ۔
” وہ ظفر شباب صاحب کی فلم“ شکوہ ”کا تھا“ ۔

واضح ہو کہ اداکار غلام محی الدین کی نمائش کے لئے پیش ہونے والی پہلی فلم ”شکوہ“ تھی جو پورے پاکستان میں جمعہ 13 جون 1975 کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اس نے کراچی سرکٹ میں سلور جوبلی کی۔ پھر جمعہ یکم اگست 1975 کو ہدایتکار ایس سلیمان (م) کی ڈائمنڈ جوبلی فلم ”اناڑی“ کی نمائش ہوئی۔ وہ فلم جس سے غلام محی الدین راتوں رات سپر اسٹار بنے وہ ”میرا نام ہے محبت“ تھی۔ یہ جمعہ 8 اگست 1975 کو نمائش کی گئی۔

” ٹیلی وژن میں تو ہاتھ کے ہاتھ علم ہو جاتا تھا کہ کام کیسا ہوا۔ جب شروع میں آپ نے فلم میں شارٹ دیے تو کبھی یہ سوچا کہ ہمارا کام اللہ جانے کیسا ہوا ہو گا۔“ ۔

” نہیں ایسا خیال کبھی نہیں آیا۔ ہاں یہ البتہ ضرور ہوتا تھا کہ ڈائریکٹر نے اگر ’او کے‘ بھی کر دیا لیکن میں مطمئن نہیں تو کہہ دیتا تھا کہ مجھے اطمینان نہیں۔ شارٹ ایک مرتبہ اور کر لیں۔ اور پھر وہ میری بات مانتے بھی تھے“ ۔

” کبھی سامنے والا مکالمے بھول گیا تو ایسے میں کوئی مشکل پیش آئی؟“ ۔

” ایسا ضرور ہوا ہو گا لیکن الحمدللہ میرا تین چار سال کا ابتدائی ریڈیو، وائس آف امریکہ، پاکستان ٹیلی وژن اور تھیٹر کا تجربہ بہت کام آیا۔ مجھے اس نے بہت اعتماد دیا جس کی بدولت کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی“ ۔

” اسی وجہ سے فلم کی ڈبنگ میں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی ہو گی!“ ۔

” جی ہاں کبھی نہیں! میں نے تو دوسری فلموں کی بھی ڈبنگ کی ہے جیسے ہالی وڈ کی فلم۔“ جناح ”( 1998 ) کی اردو ڈبنگ میں قائد اعظم ؒ رحمت اللہ علیہ کے کردار میں میری آواز ہے“ ۔

بلا شبہ یہ گلو بھائی کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے کہ فلم میں قائد اعظم ؒ رحمت اللہ علیہ کے کردار ادا کرنے والے ’کرسٹوفر لی‘ کے مکالموں کی اردو ڈبنگ ان کے حصے میں آئی۔ اس فلم کے فلمساز اور ہدایت کار جمیل دہلوی صاحب تھے۔ منظر نامہ جمیل دہلوی صاحب اور ابرار ایس احمد نے مل کر لکھا۔

” ابھی ایک انیمیٹڈ فلم“ ٹک ٹاک ”( 2018 ) میں بنی تھی۔ اس میں میری آواز ہے۔ پھر ایک اور انیمیٹڈ فلم“ دی ڈونکی کنگ ”( 2018 ) میں بھی میری آواز ہے“ ۔

جن لوگوں نے ”دی ڈونکی کنگ“ دیکھی ہے ان کو آزاد نگر کے شہنشاہ بادشاہ خان ( شیر ) کے کردار میں غلام محی الدین صاحب سنائی دیے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے گلو بھائی نے بتایا : ”ان کے علاوہ اور بھی کئی ایک فلموں میں میں نے ’وائس اوور‘ کیا۔ ریڈیو پاکستان اور وائس آف امریکہ میں کام کا تجربہ بے حد کام آیا“ ۔

” آپ نے اپنے وقت کے سب ہی نامور ہدایتکاروں کے ساتھ کام کیا۔ کون سے مشکل لگے“ ؟

” دیکھیں میرے لئے تو کوئی ہدایتکار بھی مشکل نہیں تھا کیوں کہ میرے اور ان کے مابین ذہنی مطابقت بہت جلدی ہو جاتی تھی۔ پہلے تو میں ہدایت کار کے ساتھ بیٹھ کر کہانی یا اپنے کردار پر بات کرتا تھا۔ کہانی نگار مل جائے تو ان کے ساتھ بھی۔ دیکھیں نا! جب ہماری باہمی افہام و تفہیم اچھی ہو گی تو اس کے نتیجے میں کام بھی بہتر ہو گا۔ یوں کوئی ’انا‘ کا مسئلہ نہیں بن سکے گا“ ۔

” کبھی ساتھی سینئر فنکاروں کی جانب سے کوئی مشکل پیش آئی“ ؟

” نہیں! ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔ سب بہت اچھے تھے۔ اس وقت بہت اچھے طریقے اور خوشگوار ماحول میں کام ہوتا تھا۔ انہوں نے مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں یہاں نیا ہوں!“ ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا: ”لاہور کی سردیوں کا آپ کو علم ہو گا۔ مجھے صبح چھ بجے کال ٹائم دیا گیا تھا جب کہ اس وقت عملاً اندھیرا ہی ہوتا ہے۔ کہا گیا کہ ساڑھے چھ اور پونے سات بجے شوٹنگ شروع ہو جاتی ہے۔ میں نے سوچا کہ اتنی صبح شوٹنگ پر کون آئے گا؟“ ۔

” وہ میرا لاہور کے نگار خانے میں پہلا دن تھا جو میرے لئے ایک بالکل ہی نیا تجربہ ثابت ہوا۔ صبح کی اس شفٹ کا نام ’ٹیڈی شفٹ‘ تھا۔ شبابؔ صاحب نے تو گاڑی وقت پر بھجوا دی تھی۔ میری جانب سے ہی پندرہ بیس منٹ کی تاخیر ہوئی۔ شبابؔ صاحب کے بھیجے ہوئے شکور صاحب سے میں نے پوچھا کہ اتنی سردی میں صبح صبح کون آئے گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ چل کر تو دیکھیں! جب وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ علی بھائی لان پر ٹہل رہے ہیں۔

وہ علی بھائی کی مصروفیت کے ایام تھے۔ میرے لئے یہ حیران کن بات تھی کہ صبح سات بجے شوٹنگ شروع بھی ہو جاتی تھی یعنی سات بجے شاٹ ہو جاتا تھا۔ یوں صبح سے رات دو بجے تک کام ہوتا۔ علی بھائی نے دیر کرنے کا سبب پوچھا تو میں نے کہا کہ میں تو سمجھ رہا تھا کہ سات بجے کون آئے گا؟ انہوں نے پیار سے کہا کہ سب آ جاتے ہیں۔ اس کے بعد تو وقت پر پہنچتا تھا بلکہ پہلے بھی پہنچنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے۔ وہاں اور بھی آرٹسٹ تھے جن میں علا الدین صاحب بھی تھے۔ تمام ہی فنکار وقت کے بہت پابند تھے“ ۔

” فلمی دنیا میں آنے سے پہلے بھی میری علی بھائی کے ساتھ ملاقات تھی۔ ہماری ایک ڈرامیٹک سوسائٹی تھی اور ہم نے امریکن کونسلیٹ میں ایک تھیٹر کرنا تھا۔ مشورہ ہوا کہ اس میں اداکار محمد علی صاحب کو مہمان خصوصی بلوایا جائے۔ اس سلسلے میں ان کے بڑے بھائی ارشاد علی صاحب کی مدد لی گئی۔ پھر جب میں لاہور آیا تو پہلی فلم، ظفر شباب صاحب کی“ شکوہ ”( 1975 ) کی۔ اس فلم میں علی بھائی نے میرے بڑے بھائی کا کردار ادا کیا وہ نہایت خوبصورت انسان تھے۔

خوش لباس اور اچھی گفتگو کرنے، شائستگی، وقت کی پابندی اور کام کے ساتھ انصاف کرنے والے تھے۔ ان کے ساتھ میں نے غیر ممالک میں فلموں کے سلسلے میں سفر بھی کیے ۔ علی بھائی نے غیر ممالک میں سفیر کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ پاکستانی فلموں میں ڈرامائی اداکاری کا آغاز علی بھائی کی آواز سے ہوا۔ فلم“ خاموش رہو ”( 1964 ) میں ریاض شاہد صاحب کے مکالمے تھے۔ یہاں سے پھر ان دونوں کا میل ہوا۔ انہوں نے 1985 / 1986 میں فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا تھا لیکن میرا علی بھائی کے ہاں آنا جانا مستقل رہا۔ اسٹوڈیو کے ہنر مند، کارکن، مزدور الغرض تمام شعبوں کے افراد سے علی بھائی کا سلوک بہت اچھا تھا۔ وہ بہت انسان دوست واقع ہوئے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد فلم سے ہٹ کر بھی بہت سے ایسے لوگ سامنے آئے جن کے انہوں نے باقاعدہ وظائف باندھے ہوئے تھے“ ۔

” یہ 1979 کی بات ہے میرے نانا کا بمبئی میں انتقال ہو گیا۔ میری امی نے بمبئی جانے کی خواہش ظاہر کی۔ میں امی کا پاسپورٹ لے کر اسلام آباد پہنچ گیا اور ایک معروف ہوٹل میں کمرہ بک کروا لیا۔ کام ہونے کے بعد جب استقبالیہ پر اپنا بل ادا کرنے پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ تو ادا کر دیا گیا۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ تو مجھے بتلایا گیا کہ اداکار محمد علی بھی یہاں رات کو ٹھہرنے آئے تو ہم نے انہیں آپ کا بتایا۔ انہوں نے ہی آپ کے پیسے ادا کیے ہیں۔ میں ان کے کمرے میں گیا اور پوچھا کہ یہ آپ نے کیوں کیا تو کہنے لگے تم میرے چھوٹے بھائی ہو۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کو میں بھول نہیں سکتا“ ۔

” آپ کی پہلی بیرون ملک بننے والی فلم کون سی تھی؟“ ۔

” میری پہلی بیرون ملک فلم“ آگ اور شعلے ”( 1987 ) ہے۔ وہ پاکستان اور تھائی لینڈ کی مشترکہ کاوش تھی۔ میرے ساتھ تھائی لینڈ کی ایک بڑی ہیروئن نے کام کیا“ ۔

” بیرون ملک فلم بندی کے دوران اداکاروں سمیت تمام ہی یونٹ پر خاصا دباؤ ہوتا ہے۔ آپ کو کیسا لگا؟“ ۔

” بیرون ملک کام کا پروگرام ایسا بنایا جاتا تھا کہ مجوزہ فلم بندی سے دو چار دن اوپر ہی دیے جائیں۔ کیوں کہ ہم کو وہاں کا کام مکمل ختم کر کے آنا ہوتا تھا“ ۔

” بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ دباؤ میں کام زیادہ اچھا ہوتا ہے! آپ کا کیا خیال ہے؟“ ۔

” ہر قسم کا دباؤ برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ اس سے نبٹنے کی طاقت ہونا چاہیے۔ اکثر وقت کی کمی کے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے کہ صاحب شام سات بجے سے رات کے دو بجے کے اندر کام ختم کرنا ہے۔ لیکن اگر کام زیادہ ہے یا کام کے دوران کوئی مسئلہ ہو جاتا ہے تو ایسے میں صبح تک کام کرنا پڑتا ہے۔ جو ہم نے کیا! پھر صبح چند گھنٹوں کے بعد نیا کام۔ یہ قربانی تو پھر دینا پڑتی ہے!“ ۔

” ایسا بھی ہوا کہ بیرونی فلم بندی میں موسم آڑے آ گیا، کوئی چھوٹا موٹا نا خوشگوار حادثہ پیش آ گیا تو اس کا قابل عمل حل نکال لیا جاتا تھا۔ کسی فلمساز کا کام ہو رہا ہے بارش ہو گئی جب کہ پورے دن کا کام ابھی باقی تھا۔ اب یہ کام آنے والی کل پر جا پڑا۔ یوں اگلے فلمساز کا کام متاثر ہو گیا۔ اس وقت تمام فلمساز اور ہدایتکار اپنے کام سے سنجیدہ تھے اور ایسے مسائل میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے“ ۔

” اس دور میں بہت فلمیں بنتی تھیں اور ایک دن میں کئی کئی فلموں میں کام کرنا ہوتا تھا۔ گلو بھائی آپ اس کا انتظام یا اہتمام کیسے کرتے تھے؟“ ۔

” اس کا انتظام گھنٹوں کے حساب سے کیا جاتا تھا۔ ہم نے ایک دن میں چھ چھ آٹھ آٹھ فلم بندی بھی کی ہے۔ دو دو گھنٹے دیتے تھے۔ صبح سات سے دس اس کی فلم بندی ہو گئی پھر ساڑھے دس سے لے کے ساڑھے بارہ اس کی ہو گئی۔ ایک سے تین اس کی ہو گئی۔ ایک اور دوسری فلم بندی میں، میک اپ اور کپڑے بدلنے کے لئے پونے گھنٹے کا وقفہ بھی ہوتا تھا۔ اس کے با وجود وقت کے اوپر نیچے ہو جانے کا بھی انتظام ہو جاتا تھا۔ سب ہی لوگوں کو کام کی لگن تھی اور فقید المثل تعاون دیکھنے کو ملتا تھا“ ۔

” پندرہ بیس سال میں نے ایسے ہی کام کیا۔ میں صرف دو تین گھنٹے کے لئے گھر آتا تھا۔ رات کو تین بجے گھر آیا اور صبح ساڑھے چھ بجے پھر نکل گیا۔ الحمدللہ 300 سے زیادہ فلموں میں کام کیا تو پھر وقت تو اسی طرح دینا پڑا!“ ۔

” ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بیرونی فلم بندی میں آٹھ دن میرا کام ہوا تو ایک آدھ دن آرام بھی مل جاتا تھا۔ کچھ تفریح، خریداری کر لی اور آرام کر لیا“ ۔

” ایک کانفرنس میں چندی گڑھ، مشرقی پنجاب، بھارت جانے کا اتفاق ہوا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں فخر زمان صاحب پیپلز پارٹی پنجاب کے چیر مین تھے وہ مجھے پاکستانی فلموں میں سکھوں کے کردار ادا کرنے کی وجہ سے اپنے ساتھ اس کانفرنس میں لے گئے۔ خاص طور پر فلم“ مٹھی بھر چاول ”( 1978 ) سکھوں میں خاصی مقبول تھی۔ بہرحال اس کانفرنس میں بھارتی اداکار بھی آئے ہوئے تھے یہ اچھا تجربہ رہا“ ۔

اتفاق سے ابھی ابھی زرین پنا سے میری فون پر بات ہوئی۔ فخر زمان صاحب کے ساتھ اسی سفر کی بات ہوئی جس میں وہ خود بھی شریک ہوئی تھیں۔ انہوں نے بتایا: ”یہ ’ورلڈ پنجابی کانگریس‘ کا انعقاد تھا۔ پاکستان سے 300 افراد بسوں میں مشرقی پنجاب گئے تھے۔ زرین پنا نے اس کی بہت دل چسپ روداد اور واپسی کے سفر سے متعلق بتایا جو پھر کبھی سہی۔“ ۔

بہر حال بات گلو بھائی کی ہو رہی ہے : ”میں نے اپنے بیرون ملک فلم بندی میں محسوس کیا کہ وہاں کے رہنے والے پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی، سری لنکن، پاکستانی اداکاروں اور فلموں سے واقفیت رکھتے تھے۔ میں نے سری لنکا اور پاکستان کی مشترکہ فلم میں کام بھی کیا ہے۔ ان ممالک کے عام آدمی ہماری فلموں کو پسند کرتے ہیں“ ۔

” آپ نے ہدایتکار شمیم آرا (م) کے ساتھ بھی کام کیا؟“ ۔

” جی ہاں! میں نے ان کی فلم“ جیو اور جینے دو ”( 1976 ) میں کام کیا۔ وہ بہت میٹھی خاتون تھیں۔ بہت اطمینان کے ساتھ کام کرتی تھیں“ ۔

منور ظریف سے پہلی ملاقات:
” عظیم اداکار منور ظریف سے پہلی ملاقات کیسے ہوئی؟“ ۔

” مجھے ابھی لاہور میں آئے کچھ ہی روز ہوئے تھے میرے پاس گاڑی بھی نہیں تھی۔ ظفر شباب صاحب مجھے اپنے ساتھ اسٹوڈیو لے گئے جہاں گانا ریکارڈ ہونا تھا۔ مجھے وہاں سے میڈم شمیم آرا کے گھر گلبرگ جانا تھا۔ ان کی فلم“ جیو اور جینے دو ”شروع ہونے والی تھی۔ میں نے ظفر صاحب سے کہا کہ مجھے میڈم کے ہاں بھجوا دیں۔ انہوں نے کہا کہ کام ختم ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ لگے گا۔ لیکن میں نے چوں کہ میڈم کو وقت دے رکھا تھا لہٰذا مناسب سمجھا کہ ٹیکسی میں چلا جاؤں۔ میں اسٹوڈیو سے باہر گیٹ پر کھڑا ہی ہوا تھا کہ میرے

قریب اسٹوڈیو سے باہر آتی ہوئی ایک ’مرسیڈیز‘ کار رکی۔ ڈرائیور کی نشست پر منور ظریف صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے اشارے سے بلایا اور اپنے ساتھ بیٹھ جانے کو کہا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔

” آپ غلام محی الدین ہیں؟“ ۔
” آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟“ ۔ میں نے حیران ہو کر کہا۔
” میں نے ٹی وی پر آپ کے ڈرامے دیکھے ہیں“ ۔

” پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ میں نے بتایا کہ گلبرگ۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ کا کہاں کا قصد ہے؟ مسکراتے ہوئے جواب گول کر دیا اور کہا کہ چلیں میں آپ کو وہاں چھوڑ آتا ہوں۔ اور پھر منور ظریف صاحب نے مجھے میڈم شمیم آرا کے گھر تک پہنچایا۔ یہ ان کی بہت بڑی اچھائی تھی جو میں ہمیشہ لوگوں کو بتاتا ہوں۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ میں نے بعد میں ایس سلیمان صاحب کی فلم“ شرارت ”( 1975 ) میں ان کے ساتھ کام بھی کیا“ ۔

ایک سوال کے جواب میں گلو بھائی نے بتایا: ”میرے بیٹے علی محی الدین نے جمشید جان محمد کی فلم“ سوال سات سو کروڑ ڈالر کا ”( 2016 ) میں ہیرو کا کردار ادا کیا۔ میرے بیٹے کو اس کے بعد کچھ اور فلموں کی پیشکش ہوئی مگر بعض وجوہات کی بنا پر اس نے انکار کر دیا۔ پھر کچھ اچھے منصوبے بھی اس کے سامنے ہیں لیکن کرونا کی وجہ سے فی الحال پیش رفت نہیں ہے“ ۔

” ماضی قریب کے یا حالیہ نئے فنکاروں کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟“ ۔

” یہ سب بہت با صلاحیت فنکار ہیں۔ یہ اچھا کام کر رہے ہیں جب ہی تو لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔ خاص طور پر دو آرٹسٹ بہت اچھے ہیں : ایک فہد مصطفے ٰ اور دوسرے ہمایوں سعید۔ پھر علی ظفر نے بھی بہت اچھا کام کیا ہے“ ۔

” ابھی حال میں لاہور میں ڈاکٹر زی نے اپنی آنے والی فلم“ گڑوی ”کا اعلان ایک تقریب میں کیا جہاں آپ بھی موجود تھے۔ کیا آپ اس فلم میں کام کریں گے؟“ ۔

” میں دیکھوں گا! اگر اسکرپٹ اور کردار صحیح ہوا تو ضرور کروں گا“ ۔
صدارتی تمغہ حسن کارکردگی:

ریڈیو پاکستان کراچی سے غلام محی الدین نے جو صدا کاری کا سفر شروع کیا وہ انہیں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز لے آیا۔ یہاں سے ان کی محنت اور قسمت کی یاوری فلمی دنیا تک لے آئی۔ فلم نگر میں 45 سال کی ریاضتوں نے انہیں 2020 میں بالآخر صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کا حق دار ٹھہرا دیا۔

نگار ایوارڈ:
اداکار غلام محی الدین کو ملنے والے 8 نگار ایوارڈوں کی تفصیل کچھ یوں ہے :
1۔ خصوصی ایوارڈ۔ فلم ”میرا نام ہے محبت“ ۔ 1975
2۔ خصوصی ایوارڈ۔ فلم ”مٹھی بھر چاول“ ۔ 1978
3۔ بہترین معاون اداکار۔ فلم ”لازوال“ ۔ 1984
4۔ بہترین اداکار پنجابی۔ فلم ”وڈیرا“ ۔ 1985
5۔ بہترین معاون اداکار پنجابی۔ فلم ”ضد“ ۔ 1991
6۔ بہترین اداکار۔ فلم ”سر کٹا انسان“ ۔ 1994
7۔ بہترین معاون اداکار پنجابی۔ فلم ”قرض“ ۔ 1997
8۔ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ۔ 2002

غلام محی الدین پر ہمیشہ اللہ کی رحمت رہی ہے۔ ان کا شوق فن کار بننا تھا۔ عملی زندگی کی شروعات بھی اسی میدان سے کی۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب وہ سنیما میں پاکستانی فلمیں بہت شوق سے دیکھتے اور دل میں خواب سجاتے تھے کہ اے کاش۔ پھر اس سفر کا پہلا قدم ریڈیو میں صدا کاری۔ انتہائی لگن اور اخلاص سے اٹھایا۔ وہ اپنے کام سے مخلص تھے۔ محنت اور اخلاص ہی بڑی کامیابیوں کی کنجی ہے۔ پھر ان کی طبیعت میں قناعت پسندی، دھیما پن، ٹھہراؤ، چھوٹے بڑے معاملات میں بیچ کا راستہ نکالنا۔ ان پر خدا کا فضل ہے۔ وہ اداکار کیسے ہیں یہ ثانوی بات ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ غلام محی الدین انسان کیسے ہیں؟ اور وہ بہترین انسان ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments