نسوانی الوہیت


منزل کی تلاش میں جویا حق برسوں سرگرداں پھرا تھا۔ اس کے پاؤں پورے ہندوستان کی دھول سے اٹے ہوئے تھے۔ چودہ سال بیت گئے تھے۔ تقدیر اسے کھینچ کر کشمیر لے آئی تھی۔ راستے میں اسے بہت سے لوگ ملے۔ پیدل بھی اور گاڑیوں، گھوڑوں، خچروں پر سوار بھی۔ گھیروے رنگوں کی چادروں میں ملبوس ہندو اپنے متبرک مقامات کی یاترا کرنے جا رہے تھے۔ وہ سب مارتنڈ سوریا تیرتھ، کھیر بھوانی اور امرناتھ کے مندروں کی طرف رواں دواں تھے۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد شکتی فرقہ کے ان ہندوؤں کی تھی جو اپنی دیوی ماں کو بہ حیثیت خدا مانتے ہیں۔

ان کی اصل منزل تھی وشنو دیوی، شاردہ دیوی، اور پھر ہری پربت پر واقع شاریکا بھاگوتی مندر جس میں شکتی دیوی کی پوجا ہوتی ہے۔ وہ شکتی ماں جو پوری کائنات کے ذریعے قدیم کائناتی قوت کی نمائندگی کرتی ہے۔ ’شکتی مت‘ کے ماننے والوں مطابق شکتی ہی وہ پہلا مادہ ہے، وہ جوہر ہے جس نے روح کے ساتھ مل کر پوری کائنات کو جنم دیا۔ وہ سرو شکتی مان (قادر مطلق) ہے، مادر الٰہی ہے۔ براہما، وشنو، شیوا، مہیسیورا اور سدا شیوا جیسے دیوتا اس کے استھان کے زیر سایہ تپسیا کرتے ہیں۔

پہاڑوں کا سینہ چیرتے، برفشانوں کو کھوندتے، کشمیر کی طرف رواں ان قافلوں میں سفید کرتے اور تہبند میں ملبوس بہت سے مسلمان بھی تھے، صرف ایک خدا کو ماننے والے، درگاہ بل شریف میں موئے مبارک کی زیارت کے خواہش مند۔ خشوع و خضوع کے ساتھ آیات کا ورد کرتے وہ بھی سر جھکائے اسی بھیڑ کا حصہ تھے۔ یہ ہندوستانی مختلف رنگوں کے، نسلوں کے اور مختلف مذاہب کے پیرو کار، سب کی ایک ہی منزل تھی۔ پنڈت کی پوجا اور مولوی کا سجدہ سب محبوب حقیقی کی خوشی کے لئے تھا۔

جویا حق کشمیر پہنچ کر درگاہ حضرت بل پر چلہ کش ہو گیا۔ وہ کس چیز کی تلاش میں تھا، خود اسے علم نہیں تھا۔

وہ ایک اعلیٰ حکومتی عہدے پر فائز، مغربی تعلیم یافتہ نوجوان تھا۔ کسی جگہ بھی اس کی اپنے افسران سے نہیں بنتی تھی۔ وہ تنہا اپنی ہی دھن میں مگن رہنے والا ایماندار افسر تھا۔ اسی لیے کچھ دیر بعد اس کا تبادلہ کروا دیا جاتا۔ اب اسے کشمیر بھیج دیا گیا تھا۔

وہ خود بھی کسی ایک جگہ پر ٹک کر کام نہیں کرنا چاہتا تھا۔ نگر نگر بیتاب تمنا لے کر گھوم رہا تھا۔ بار بار کے تبادلے اس کی تلاش میں مددگار تھے۔ اس کے آبا و اجداد اسی علاقے کے تھے۔ خوشی خوشی ادھر آیا تھا کہ شاید اسے بزرگوں کی سرزمین میں سکون مل جائے۔ ادھر آ کر اسے محسوس ہوا کہ دل سیماب کی الجھن بڑھ گئی ہے اور ولولہ جنوں ترقی پذیر ہو گیا ہے۔

چمن ہائے زعفران کی سرد ہوا کے جھونکے سرسراتے اس کو چھو کر گزرتے تو اس کے دل کے الاؤ بھڑک اٹھتے۔ دیو قامت چناروں کے کٹواں پتے پنجہ صیاد بن کر اس کے حلقوم کو جکڑ لینا چاہتے لیکن جویا شب و روز، برنگ صبا سرگشتہ، جا بہ جا گھومتا رہتا۔ کوئی خضر اس کا ہم راہ نہیں ہوا تھا۔ خضر جو شاید خود منزل کی تلاش میں در بدر بھٹکتا رہتا ہے، وہ اسے کیا منزل دکھاتا۔ اسے آب حیات کی تشنگی بھی نہیں تھی۔ وہ حیات جاودانی کی تلاش میں نہیں تھا۔ وہ صید بن کر کسی قفس میں اپنا مسکن ڈھونڈھ رہا تھا۔ وہ خود کو مٹا دینا چاہتا تھا۔ وہ نروان چاہتا تھا۔ وہ اس کشمکش سے آزادی چاہتا تھا۔ شاید وہ ان سب خواہشات سے بھی بالا تھا۔ وہ کیا چاہتا تھا؟ اسے کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔

دفتر سے واپس آ کر اس نے کچھ دیر قیلولہ کیا۔ نیند سے جاگا تو واماندگی و خستگی اس کے اعضاء سے عیاں تھی۔ وہ سر شام ہی زعفران کے وشال کھیتوں کی طرف چل نکلا۔ زعفران پر پھول آ چکے تھے۔ قطار اندر قطار کھلے لاکھوں پھولوں نے زمین کی دلہن پر کاسنی اوڑھنی اوڑھ دی تھی۔ سبک رو ہوا کے جھونکے چھیڑ خانی کرتے تو یہ چادر ڈھلکتی اور دلہن کا شرمایا ہوا چہرہ جھلک دکھا کر پتیوں کی اوٹ میں پھر چھپ جاتا۔ کنواریاں پھول چن رہی ہیں۔ بوڑھی عورتیں ان کو گانٹھوں میں باندھ رہی تھیں۔ ان میں ایک لڑکی تھی بالکل چاند کا ٹکڑا۔

وہ لڑکی تھی یا کوئی اپسرا جس کے اوپر ایک سرمئی بادل کا ٹکرا سایہ فگن تھا۔ اس مہر تمکین کے نور سے شرما کر سورج نے بھی پہاڑوں میں منہ چھپا لیا۔ ایسی مہ جبیں کہیں دیکھی نہ سنی۔

وہ نازنیں جدھر جاتی مہکتے پھول اپنا رخ اس طرف کر لیتے۔ وہ گنگنا رہی تھی۔ اس کی آواز میں لوچ تھا اور مٹھاس کانوں میں آب حیات کے قطرے انڈیل رہی تھی۔ آواز اور حسن نے اسے گھائل کر دیا۔

شام گہری ہو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ زعفران کے کھیت خالی ہو رہے تھے۔ لڑکیاں پھولوں بھری ٹوکریاں سروں پراٹھا کر واپس جانا شروع ہو گئیں۔ سب کے پیچھے پیچھے وہ بھی چل پڑی۔ بہشتی سرو آزاد جیسا قد، گھنگھریالی ناگن زلفوں کے نیچے شراب حسن سے بھرا مکھڑا، اس کی صورت زیبا دیکھ کر وہ مبہوت ہو گیا۔ وہ اس وضع سے پو قدمی چال چلتے ہوئے اس کے پاس سے گزری کہ جویا تسلیم کے واسطے جھک گیا۔ ایک لمحے کے لئے سندر ناری نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔ سرد ہوا کا جھونکا پاس سے گزرا اور اس کے تن سے اٹھتی مشک زعفران فضاؤں کو معطر کر گئی۔

ساری رات وہ اس کے سپنے دہکھتا رہا۔ اس کی چودہ سالہ تپسیا سپھل ہو گئی تھی۔ اگلے دن کام میں بالکل جی نہ لگا اور دفتر سے جلدی اٹھ آیا۔ وہ سورج ڈھلنے سے بہت پہلے ہی زعفران زار پہنچ چکا تھا۔ اس کا چہرہ دیدار کی خواہش میں گلنار ہوا جا رہا تھا۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ اٹھلاتی ہوئی کھیتوں میں گھوم رہی تھی۔ بوڑھی عورتوں نے جویا کو شک کی نظروں سے دیکھا۔ لڑکیاں اس کو خاطر میں نہ لائیں۔ اس پر کسی بات کا کوئی اثر نہ تھا۔ وہ ایک چنار کے نیچے چٹان پر بیٹھا رہا۔ سورج غروب ہوا تو سب عورتیں واپس چل پڑیں۔ وہ مہ جبیں ان کے ساتھ جانے کی بجائے جھرنے کی طرف چلی گئی اور جویا بھی اس کے پیچھے پیچھے۔

ندی کنارے وہ ایک لہروں سے دھلی چٹان کو تکیہ کیے بیٹھی تھی۔ چرخ نیلی فام کو چھوتے چنار اس کے گرد یوں کھڑے تھے جیسے رجال الغیب اس کی حفاظت پر معمور ہوں۔ موسم خریف کی خنک ہوا چلنا شروع ہو گئی تھی۔ چنار کے سرخ ہوتے پتوں سے ٹکرا کریہ ہوا جلترنگ بجا رہی تھی۔ اشجار کی ہر ڈالی اور ہر پتے پر عروسان خلد نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ وہ ندی میں اتر گئی اور پانی سے اٹکھیلیاں شروع کر دیں۔ جھک کر اوک بھر پانی سرخ یاقوتی ہونٹوں سے لگایا اور پھر سیدھی کھڑی ہو کر ہوا میں اچھال دیا۔ آسمان پر شفق پھوٹ پڑی۔

”اے شام کی شفق رنگ تتلی تو کون ہے؟ تو نار ہے یا کوئی اور ہی شے ہے؟
اے چرخ اطلس کی نیل پری تیرا نام کیا ہے؟ ”
”میں حریم ہوں۔“
نرم آواز کے گونجتے ہی شام کا ابھرتا ہوا ستارہ ٹوٹ کر حریم کے پاؤں میں گر پڑا۔
اس نے ایک انگڑائی لی، ندی بپھر گئی۔ لہریں شور مچانے لگیں۔ بادہ کبر و نخوت سے مست ساحرہ واپس چل پڑی۔
”کل پھر اسی جھرنے پر ملو گی؟“ اس نے آنکھوں کی زبان سے پوچھا۔
”شاہد باز! تم دو دن میں ہی بہت قریب آ گئے ہو۔“ وہ زیر لب مسکرائی۔

”چودہ سال کی ریاضت، حسن کی عظمت کے سامنے، دو لمحوں کی قدر بھی پا لے تو میں سمجھوں گا کہ دو جہاں پا لیے۔“ وہ یہ کہنے ہی لگا تھا کہ اپنی کم مائگی کا احساس ہو گیا۔ اس کی جبیں عرق آلود ہو گئی اور ندامت سے سر جھکا لیا۔

وہ چلی گئی۔ جویا ادھر ہی ڈھیر گیا۔ جب ہوش آئی تو نصف شب بیت چکی تھی۔ آسمان پر چاند تاروں کا جال اور فرش پر زعفران کی رنگین بہار جنت کا منظر پیش کر رہی تھی۔

شامیں ڈھلتی رہیں، دن لمبے ہونا اور سردیوں کی راتیں چھوٹی پڑنا شروع ہو گئیں۔ اس کا عشق تکمیل کے مراحل کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

ایک رات وہ عشوہ آگیں اس کے پہلو میں بیٹھی تھی۔ بولا، ”برسات کب ہوگی؟ برکھا کب برسے گی؟ کب پربت برف کی سفید چادر اوڑھیں گے؟ کوہ قاف کی پری کب میرے آنگن اترے گی؟“

حریم نے سر اٹھایا۔ اس کی آنکھیں میں جھانک کر کہنے لگی۔ ”تم مجھے پا سکتے ہو۔ میری کچھ شرائط ہیں۔ پورا کرو گے؟“

جویا کی بجھی ہوئی آنکھوں میں نور پھوٹ پڑا۔ ”ہاں! میں تمہارے الطاف جمال سے بہرہ ور ہونا چاہتا ہوں۔“ اس نے کھڑے ہو کر اپنی کمر خم کر لی۔

وہ فہمائش کرتے ہوئے بولی ”تم بہت بڑے افسر ہو لیکن تمہاری بارات تبلے نگاڑے، ڈھول تاشے بجاتی میری جھونپڑی میں آئے گی۔ تم میری چوکھٹ کی دہلیز پکڑ کر میرا ساتھ مانگو گے۔ یہ بھی سوچ لینا کہ میری رخصتی نہیں ہوگی۔ عروسی چھپر کھٹ میری جھونپڑی میں لگے گا۔“

وہ اٹھ کر چل پڑی۔ تمکنت سے بھرپور مغرور چال تھی۔ وہ اس کی طرف دیکھتا جا رہا تھا۔ وہ دور ہوتی گئی۔ رات کے اندھیرے میں دور بہت دور۔ اتنی دور کہ جہاں زمین و آسمان ملتے ہیں وہاں صرف ایک نقطہ بن کر رہ گئی۔ ایک روشن نقطہ جس کا وہ متلاشی تھا۔ وہ سوچ رہا تھا یہی وہ نقطہ ہے جو پھیلا تو بگ بینگ ہوا۔ اسرار کائنات اس پر وا ہو گئے۔ اسے پتا چل گیا کہ اسی نقطے سے اس کی کائنات وجود میں آئے گی۔ وہ چلایا

”مجھے قبول ہے۔ اس جمعرات کی شام سورج ڈھلنے سے پہلے میں بارات لے کر آ رہا ہوں۔“

حجلہ عروسی تیار تھا۔ کاسنی پھولوں سے سجی مسہری پر وہ کیسری چادر اوڑھے بیٹھی تھی۔ تنویر و تقدیس کے ماحول میں معصوم مورت نور بکھیر رہی تھی۔ کمر خم کر کے جویا حق نے دربار حسن میں سلام پیش کیا۔

اونچی کشادہ جبیں میں بے نظیر حسن خدائی شیشے کی طرح چمک رہا تھا۔ ناز گمان سے بھرے، پریت کے گوڑھے رنگ سے رنگے، متوارے خونی نین، مژگان کے بار لطیف سے بند ہوتے جا رہے تھے۔ مثل ہلال درخشاں ابرو چمک رہے تھے۔ رخساروں کا ابھار صاف بہشتی صفہ اور دونوں بھویں بہشتی طاق یا پھر مسجد کے محراب تھے۔ اس کا مکھڑا اونچے محرابوں والا بیت اللہ تھا جس کے چار چو فیرے عشاق نماز نیازاں ادا کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ٹھوڑی باغ ارم کا سیب اور گردن سرخ شراب سے بھری بلوری صراحی کی طرح چمک رہی تھی۔ چھاتی چاند کی تختی تھی جس پر چاندی کے دو پھول لوہے کی میخوں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ نازک جسم چنبے کے پھول جیسا سفید اور سردیوں کے مکھن جیسا سخت تھا۔ باقی حسن بیان سے باہر تھا کیونکہ حرمت والوں کا ستر نہیں کھولا جاتا۔ کنج کنواری کنیا کی طراوت بھری پاکی دیکھ کر حوریں رنجور ہو گئیں۔

جویا حق اس کے پاؤں میں گر گیا۔

صبح صادق کا چرخ پر ظہور ہو رہا تھا۔ طیور زمزمے کرنا شروع ہو گئے تھے۔ حریم نے اس کا بازو تھام کر اپنی طرف کھینچ لیا۔ نور تجلی سے جھونپڑی منور ہو گئی۔ ہر طرف نور ہی نور بکھر گیا۔ پھول ہی پھول کھل اٹھے۔ تتلیاں پھڑپھڑانے لگیں۔ پھر دن اور رات اکٹھے ہو گئے۔ چاند اور سورج نے مل کر رنگ برسانا شروع کر دیا۔

جویا اس کا ہاتھ تھامے پار اتر جاتا ہے۔

اب اس جہاں سے اس جہاں تک ہر طرف وہ ہی وہ نظر آ رہی تھی۔ وہی الوہی دانش، الوہی شکتی جو ابن عربی کو کعبہ کے طواف کے دوران اصفہانی دوشیزہ صوفیہ کی شکل میں نظر آئی تھی۔

سویرا ہوا تو جویا اکیلا مسہری پر سجدہ ریز پایا گیا۔
آخری پیرا گراف میں میاں محمد بخش کی کتاب ’سفر عشق‘ کی تشبیہات و استعارے استعمال کیے گئے۔

اچا متھا بہت کشادہ، شیشے ہار چمکدا
روپ انوپ خدائی دسے، اوس اندر جو تکدا
طاق بہشتی دو بھروٹے، یا محراب مسیتوں
خونی نین دسن متوارے، گوڑھے رنگ پریتوں
چہرہ صاف بہشتی صفہ، ابرو طاق بنائے
واہ نقاش محمد بخشا، جس او رنگ لگائے
مکھ محبوباں دا بیت اللہ، اوہ محراب اوچیرے
کرن نماز نیازاں عاشق، سجدے دین چوفیرے

میں پنجابی زبان و ادب کے نقاد ڈاکٹر یوسف رشید کا مشکور ہوں جنہوں نے اس افسانے کی تیاری میں میری مدد فرمائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments