فادرز ڈے: میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے



مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

نومبر کے ایک روز سنہری دھوپ میں اسلام آباد سپورٹس کمپلیکس کے کشادہ گراؤنڈ میں ہر طرف بچے رنگ برنگے لباس میں اپنے اپنے سکولوں کی نمائندگی کرنے کے لیے موجود تھے۔ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے والدین اور دوسرے بہن بھائی بھی رونق کو بڑھا رہے تھے۔ اسی دوران ایک خوبصورت اور چمکتے دمکتے لباس میں ملبوس چھوٹی سے بچی بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ کی تلاش کرتی نظر آئی، اسے قریب ہی جگہ ملی۔ اس کے پیچھے اس کے بہن بھائی اور والدہ بھی آ گئے۔

یہ ایک خوبصورت اور خوش لباس فیملی تھی۔ اس دوران بچی نے با آواز بلند ہاتھ ہلاتے ہوئے مڑ کر آواز لگائی ”بابا ادھر آ جائیں، یہ آپ کی سیٹ ہے“ ۔ بے اختیار سب کی نظر بچی سے ہوتی ہوئی اس کے بابا پر جا کر ٹک گئی۔ وہ ایک سفید بالوں والا جوان شخص تھا۔ اس نے کالی پتلون پر قدرے پرانی آسمانی رنگ کی چیک والی شرٹ پہن رکھی تھی۔ جس کا رنگ کہیں کہیں سے مدھم پڑ چکا تھا۔ پیروں میں گھسے ہوئے بھورے رنگ کے بوٹ تھے۔ چہرے سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ جانے کتنی الجھنیں اور جنگیں اندر ہی اندر چل رہی ہیں لیکن چہرہ سپاٹ ہے۔

کنبے کی ظاہری حالت میں اس واضح فرق کو محسوس کرتے ہوئے جب اردگرد نظر دوڑائی تو اندازہ ہوا کہ یہ صرف اس گھر کی کہانی نہیں ہے۔ یہاں تو بالترتیب بچوں، ماں اور پھر باپ کی ظاہری حالت کا یہ فرق تو ہر طرف نظر آیا۔ مائیں شاید میک اپ کا سہارا لے لیتی ہیں لیکن باپ کو ایسا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

اس خیال نے سوچ کا ایک نیا در وا کر دیا۔ میری یادوں کے جھروکوں میں کئی دھندلے منظر ظاہر ہونے لگے۔ جب ایک روز میں پریشان سی سکول سے گھر آئی اور امی ابو کو بتایا کہ آج سکول میں میرے سر سے کلپ اتار لیا گیا کیونکہ میں نے سرخ رنگ کا کلپ نہیں لگایا تھا جو یونیفارم کے ساتھ لازمی تھا۔ سرخ کلپ صبح ہی بالوں میں ٹک نہیں رہا تھا اس لیے کالے رنگ کا لگا کر گئی تھی۔ امی نے پوچھا پھر بال کیسے باندھے؟ اگرچہ اس وقت میں چھٹی جماعت میں تھی لیکن لمبے اور گھنے بالوں کی مالک تھی۔

میں نے امی کو بتایا کہ کینٹین والی خالہ سے ایک ربڑ لے کر بالوں میں باندھ لی تھی کیونکہ ڈسپلن انچارج میرا کلپ واپس کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ ابو جی یہ سب خاموشی سے سن رہے تھے۔ وہ اسی خاموشی سے باہر چلے گئے اور میں اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ سہ پہر سے شام اور شام سے رات کا وقت ہو گیا۔ امی اور میں پریشان تھے کہ ابو کہاں چلے گئے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ گھر میں بتائے بغیر اتنی دیر تک باہر رہیں۔ رات دس بجے کے قریب دروازے پر دستک ہوئی۔

دیکھا تو ابو ہاتھ میں ایک شاپر لیے چلے آ رہے ہیں۔ جلدی سے انھیں پانی دیا گیا اور دیر ہونے کی وجہ پوچھی تو تھکن کے باوجود مسکراتے ہوئے شاپر میں سے سرخ رنگ کے نت نئے ڈیزائن کے آٹھ دس کلپ نکال کر میری طرف بڑھائے اور کہا ختم ہونے سے پہلے بتا دینا میں اور لے آؤں گا۔ کینٹ کے بازار سے نہیں ملے تھے اس لیے میں شہر چلا گیا تھا کہ خالی ہاتھ واپس نہیں جاؤں گا۔ میری اس وقت عجیب حالت تھی۔ ان خوبصورت کلپس کی خوشی باپ کی خاموش لیکن باعمل محبت میں اٹھائی گئی تکلیف کے احساس میں کہیں دب گئی تھی۔

اک بار کہیں سنا تھا کہ باپ کی بنیان میں اکثر سوراخ ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے بچپن میں ابو کو بہت کم اور ضرورت کے تحت ہی اپنے لیے خریداری کرتے دیکھا تھا جبکہ ہماری ضرورت یا خواہش کا پتہ چل جاتا تو اسے پورا کرنا خود پر ہمیشہ لازم سمجھا۔ یہاں سوال اٹھ سکتا ہے کہ ہر باپ ایسا کرتا ہے۔ اس میں کون سی نئی بات ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کم وسائل میں اکثر لوگوں کو کنی کتراتے بھی دیکھا ہے۔ ان کی ترجیحات تبدیل ہوتے بھی بارہا دیکھا ہے۔ وہ اولاد بہت خوش قسمت ہوتی ہے جو اپنے باپ کی ترجیحات میں شامل ہوتی ہے۔

والد سے اس بنا پر دوری اختیار کرنے والے کہ ”ابا بہت سخت مزاج ہیں“ دراصل وہم کا شکار ہیں۔ وہ باپ کے نرم اور ان کے لیے خلوص و محبت سے لبریز دل کی حقیقت سے نا آشنا ہیں۔ انھیں اندازہ نہیں کہ باپ ایک مرتبہ تنبیہ کرے گا لیکن آپ کو زمانے کے ڈھنگ سے نمٹنا سکھا دے گا۔ آپ کی ہر ممکن مدد کرے گا اور اس کی نیت بالکل صاف و شفاف ہو گی لیکن اگر باپ سے کتراؤ گے، حقیقت کو چھپاؤ گے تو پھر زمانہ ایسے لوگوں کو سکھانا جانتا ہے۔ بس اس کا ڈھب نرالا ہو گا۔ وہاں وار کرے گا کہ جہاں کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔ پھر کسی مخلص کی تلاش میں نظریں ادھر ادھر بھٹکیں گی۔ باپ کے خلوص اور بے لوث محبت پر شک کیا جائے تو یہ ان کے ساتھ بہت زیادتی ہے۔

پہلے دور کے اور نئی نسل کے والد میں ایک فرق ہے کہ پہلے دور کے والد اپنی محبت کا اظہار نہیں کر سکتے تھے جس کی وجہ اس وقت کے معاشرتی قاعدے تھے۔ جن کے مطابق باپ کو ایک بارعب شخصیت کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ آج کے دور میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ باپ اور بچوں کے درمیان فاصلے قدرے کم ہونے کا امکان ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فاصلہ کلی طور پر ختم ہو جائے گا، بس اس کی نوعیت قدرے بدل سکتی ہے۔

باپ کی اہمیت ان لوگوں سے پوچھیے جن کے سروں پر یہ سائبان نہیں رہے۔ انھیں زمانے نے کس طرح دہکتے کوئلوں پر چلایا ہے۔ کیسے گر گر کر اکیلے اٹھنا پڑا۔ باپ کڑی دھوپ میں کھڑے اس سایہ دار شجر کی مانند ہے جو خود تو موسم کی تمام شدتیں سہ کر بھی تن کر کھڑا رہتا ہے لیکن جو اس کی چھایا میں پناہ لیے ہوئے ہیں ان پر آنچ تک نہیں آنے دیتا۔ ایسے میں یہ کہنا کہ درخت تنا ہوا کھڑا ہے بہت مغرور اور اکھڑ ہے، کہاں کا انصاف ہے۔ یہ تو فطرت کا قانون ہے کہ اگر مصائب کے آگے تنے رہو گے، کھڑے رہو گے تب ہی بیڑہ پار ہو سکتا ہے۔

جس قدر اولاد کو خوشحال دیکھ کر ماں باپ کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے اس کا مقابلہ کسی دوسرے رشتے سے ممکن نہیں۔ باقی تمام رشتوں کا درجہ ثانوی ہو گا۔ اولاد کو کھلکھلاتا دیکھ کر باپ کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں، لبوں پر مسکراہٹ لیے آپ کی کامیابی پر حوصلہ افزائی کے ایک دو جملے ہی کہہ پائے گا لیکن دل اپنے رب کے سامنے حرف دعا بن جائے گا۔

رب کی یہ انمول نعمت اگر آپ کے درمیان موجود ہے تو اس کی قدر کیجیے۔ علم و تجربات کا خزانہ جب گھر میں موجود ہو تو در در بھٹکنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ”حیرت ہے، ماں باپ کی صورت میں پیر گھر میں موجود ہوتے ہیں اور لوگ ان سے دعائیں لینے کے بجائے پیروں فقیروں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔“ یہ حقیقت ہے کہ جس قدر محبت اور خلوص سے ماں باپ دعا دیتے ہیں ویسے کوئی اجنبی کیسے دے سکتا ہے۔

بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے ان خاص پیروں کو خوش رکھا جائے۔ ہم ان کی آنکھوں میں آنسو لانے کا سبب نہ بنیں۔ ان کی برسوں سے کمائی ہوئی عزت کی لاج رکھیں۔ ان کی ہمیں دی ہوئی محبتوں، ریاضتوں، کمائیوں اور خلوص کا خراج سود سمیت لوٹانے کا ظرف اپنے اندر پیدا کریں۔ احسان سمجھ کر نہیں بلکہ فرض اولین سمجھ کر، کیونکہ ہماری ترجیحات میں والدین ہی اصولی طور پر پہلی ترجیح کے حق دار ہیں۔

حنا ہمدانی
Latest posts by حنا ہمدانی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments