ہم جنس پرست لڑکی کی محبت کی کہانی: ’لڑکی ہوں اور لڑکی سے شادی کر لی تو کیا قیامت ٹوٹ پڑی؟‘

سشیلا سنگھ - بی بی سی


انڈیا
انڈیا میں بھی ’گے پرائڈ‘ کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں (فائل فوٹو)

’اگر ہم دونوں نے شادی کر لی ہے تو کیا قیامت ٹوٹ پڑی‘

’لوگ ہم سے ناراض کیوں ہیں؟ گاؤں والے گالیاں دیتے ہیں۔۔ آخر انھیں کیا مسئلہ ہے؟‘

یہ کہتے ہوئے پریا (شناخت چھپانے کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے) مجھ سے پوچھتی ہیں ’کیا آپ ہماری مدد کریں گی؟‘

میں نے رک کر کہا کہ پریا آپ کی شادی قانونی نہیں ہے۔

فون پر کچھ سیکنڈ خاموشی رہی، پھر مجھ سے بہت سارے سوالات کرنے کے بعد پریا نے کہا کہ ’ہم نے پیار کیا کیا۔۔ زندگی ہی برباد ہوگئی۔‘

پریا کو لتا (شناخت چھپانے کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے) سے پیار ہے۔ جو ان کے گاؤں سے تھوڑی دور رہتی ہیں۔

پریا کو بیلاری یا ایم این آر ای جی اے پروگرام کے تحت جو کام ملتا ہے وہ اس سے اپنا خرچ چلاتی ہیں۔ پریا کے والدین اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور وہ اپنی بہنوں، بھائیوں اور بھابیوں کے ساتھ رہتی ہیں۔

پریا کہتی ہیں ’مجھے پہلی نظر میں اس سے پیار ہو گیا تھا۔ ہم نے پہلی جماعت سے ہی مل کر تعلیم حاصل کی ہے۔ یہاں تک کہ سکول میں جب کوئی لڑکا یا لڑکی اسے تنگ کرتی تھی، تو میں ان سے لڑ پڑتی تھی۔‘

پریا گفتگو میں خود کو لڑکوں کی طرح مخاطب کرتی ہیں۔ ان دونوں کے ساتھ گفتگو میں جتنی پریا دبنگ لگتی ہیں، لتا اتنی ہی خوفزدہ نظر آتی ہیں۔

لتا، فون پر نہایت دبے ہوئے لہجے میں مجھے بتاتی ہیں کہ ’میرے ارد گرد گھر والے ہیں، میں کھل کر بات نہیں کرسکتی۔‘

’ہمیں بچپن میں ہی پیار ہو گیا‘

فائل فوٹو

انڈیا کی سپریم کورٹ ہم جنس پرست تعلقات کو غیر قانونی قعرار دینے والی دفعہ 377 کو خارج کر چکی ہے۔ (فائل فوٹو)

لتا کہتی ہیں ’ہمیں پہلی جماعت سے ہی پیار ہو گیا تھا، لیکن ساتویں جماعت سے جب ہم نے سمجھنا شروع کیا تو ہم ایک دوسرے کے لیے ایک الگ پیار محسوس کرنے لگیں۔ سکول میں ایک ساتھ رہنا، پڑوس یا بازار میں ایک ساتھ جانا۔ پریا آٹھویں سے ہی بیلاری کے ذریعے ملنے والا کام کرتی تھی اور کبھی کبھی اس رقم سے میرے لیے کپڑے، کاپیاں اور مٹھائیاں لاتی تھی۔‘

’اگر وہ کہیں جاتی تو ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ لے جاتی۔ وہ مجھ سے دور نہیں رہ سکتی تھی۔ ہم جتنا دور رہتے، اتنا ہی زیادہ ملنے کا دل کرتا۔ ہماری محبت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ ہم سکول کے بعد بھی روزانہ ملتے تھے۔‘

پریا کا کہنا ہے کہ آٹھویں تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن آٹھویں کے بعد انھیں مختلف سکولوں میں داخلہ ملا۔

پریا لتا سے ناراض ہو گئیں کہ انھوں نے اپنے والدین سے پریا والے سکول میں داخلہ لینے کے لیے کیوں نہیں کہا۔ درمیان میں دونوں کی بات چیت کچھ دن کے لیے رک گئی اور اسی دوران پریا کے مطابق ایک لڑکے نے لتا کو چھیڑنا شروع کیا۔ پریا کو اس بارے میں پتہ چلا لیکن اس لڑکے نے لتا کے خلاف الزامات لگائے اور اس کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی۔

گھر میں لتا کی شادی کی باتیں بھی ہونے لگیں۔

دونوں نے دو سال مختلف سکولوں میں تعلیم حاصل کی لیکن لتا دسویں جماعت میں فیل ہو گئی۔ پریا کا کہنا ہے کہ اس دوران ہم زیادہ تر لڑتے رہتے تھے لیکن پھر اس نے گھر والوں کو راضی کیا۔

لتا نے دسویں جماعت میں اور پریا نے اسی سکول میں بارہویں میں داخلہ لیا۔ لیکن دسویں کے بعد پریا نے لتا کو مزید تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کا کہنا تھا کہ ماحول اچھا نہیں۔ میں اس کے لیے کس کس سے لڑتی؟

لتا نے بتایا ’گھر میں میری شادی کی باتیں ہو رہی تھیں۔ میں نے اس کے بارے میں پریا کو بتایا اور اس کے بعد ہم نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے کسی قسم کا خوف نہیں۔ وہ جو بھی کہے گی میں کرنے کو تیار ہوں۔‘

جب گھر والوں کو پتہ چلا

فائل فوٹو

فائل فوٹو

لتا کا کہنا ہے ’میں نے گھر کے کپڑے، شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور اس نے پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی۔ ہم نے مندر میں شادی کر لی لیکن گھر میں کچھ نہیں بتایا۔ اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئیں۔‘

پریا کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ خبر کہاں سے اخبار میں شائع ہوئی اور پھر پورے گاؤں میں پھیل گئی۔

لتا کے مطابق ’جب گھر والوں کو پتہ چلا تو وہ بہت ناراض ہوئے۔ ماں سے بھی لڑائی ہوئی۔ انھوں نے کہا ’لڑکی لڑکی کی شادی تھوڑی نہ ہوتی ہے‘ اس (پریا) نے اس پر کچھ جادو ٹونا کروا دیا ہے۔ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔‘

یہی سوال پریا کے گھر میں پوچھا گیا کہ ’کیا لڑکی اور لڑکی کے درمیان شادی ہوتی ہے؟‘ وہ کہتی ہیں کہ اس کے تین دن بعد پولیس گھر پہنچ گئی اور ’میرے دس بھائی بہن ایسا سلوک کر رہے تھے جیسے پتا نہیں کیا قیامت آ گئی ہے، پھر پولیس نے بھی مجھے ہی سمجھایا۔‘

لتا بتاتی ہیں کہ وہ ڈر گئی تھی۔ اس کے بعد پریا نے معلومات حاصل کیں اور ایک وکیل کی مدد سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس کے لیے سارا خرچ خود پریا نے اٹھایا۔

’میں جو کہوں گی، لتا وہ کرے گی‘

ان کے وکیل بھیم سین کا کہنا ہے کہ پریا اور لتا نے ’لِو ان ریلیشن شپ‘، ایک ساتھ رہنے والے تعلق کا حلف نامہ داخل کر کے ہائی کورٹ، جے پور میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ انھوں نے 20 دسمبر 2018 کو مندر میں شادی کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے خاندان کے افراد کو شادی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا لیکن پتہ چلنے کے بعد گھر والے اور رشتے دار ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘

عدالت نے کہا کہ دونوں درخواست دہندگان ایک ہی جنس کی ہیں اور وہ ایک ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔ ہائی کورٹ نے جوڑے کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی تاکہ انھیں نقصان نہ پہنچے۔

لیکن عدالت نے ان کی شادی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

انڈیا کی سپریم کورٹ ہم جنس پرست تعلقات کو غیر قانونی قعرار دینے والی دفعہ 377 کو خارج کر چکی ہے۔

’چھوری کو ہاتھ بھی لگایا تو دیکھ لوں گی‘

پریا ہنس کر کہتی ہیں ’اگر میں لتا کو کنویں میں کودنے کو کہوں تو وہ کود جائے گی۔ اسے گلاب جامن اور برفی پسند ہے۔ میں اس کے اخراجات کے لیے پیسے بھی دیتی ہوں۔ میں اس کے پاپا سے کہہ چکی ہو ’چھوری کو ہاتھ بھی لگایا تو دیکھ لوں گی۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ وہ آگے کیا کریں گے؟ پریا کا جواب تھا ’اب میں تھک گئی ہوں، میں لتا کی شادی کر رہی ہوں۔ میں اس کے لیے لڑکا ڈھونڈ کر اس کی شادی کر دوں گی۔‘

یہ کہہ کر پریا کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئی۔

’شادی میں جہیز بن کر چلی جاؤں گی‘

پریا کہتی ہیں کہ ’اگر میں اسے اپنے گھر لے آؤں تو خاندان کے افراد پھانسی لگانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ میں کیا کر سکتی ہوں؟‘

میں نے پوچھا کہ لتا کی شادی کے بعد وہ کیا کریں گی اور اس محبت کا کیا ہوگا؟ وہ کہتی ہیں ’میں جہیز میں اس کے ساتھ جاؤں گی۔ میں کہوں گی کماتی تو ہوں بس مجھے صرف دو وقت کی روٹی چاہیے۔‘

جب میں نے لتا سے پوچھا کہ وہ کیا کریں گی تو انھوں نے کہا ’میں وہی کروں گی جو پریا کہے گی۔ جون کو ’پرائڈ منتھ‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ’پرائڈ منتھ‘ کا مقصد ہم جنس پرست افراد کے حقوق سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔

راجستھان میں رہنے والی یہ دو دلت لڑکیاں اس ’پرائڈ منتھ‘ کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں اور شاید انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کی زندگی کی واحد خواہش یہ ہے کہ وہ اکٹھی رہیں جو اب ممکن نہیں لگ رہا۔

’30 سال کا بے مثال ساتھ‘

समलैंगिकता

لیکن احمد آباد میں گذشتہ تین دہائیوں سے ایک ساتھ رہ رہے دبیونڈو گنگولی اور سمیر سیٹھ اپنے تیس سال کے سفر کو بے مثال قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اتنے برسوں میں بہت سارے لوگوں کی شادیاں ٹوٹ جاتی ہیں، رشتوں میں تلخی یا بے حسی آ جاتی ہے لیکن وہ ساتھ ہیں۔ دیبینڈو بتاتے ہیں کہ ان کے اور سمیر کے درمیان عمر کا فرق ہے لیکن یہ ان کے درمیان کبھی بھی مسئلہ نہیں بنا۔

دبیونڈو کا تعلق کولکتہ سے ہے اور سمیر کا تعلق گجرات سے ہے۔ ملازمت کے سلسلے میں دبیونڈو احمد آباد آئے اور پھر یہیں بس گئے۔ دونوں اپنی پہلی ملاقات کو پہلی نظر میں محبت سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس تاریخ کو یاد کرتے ہوئے ان کی آواز میں ایک مٹھاس سنائی دیتی ہے۔

تو کیا انھیں اپنی شناخت کو لے کر کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی؟

شناخت کا مسئلہ

دیبینیڈو کا کہنا ہے کہ ’میں نے 12ویں کے بعد تعلیم حاصل کرنے کے لیے کولکتہ چھوڑ دیا تھا۔ میں 14-15 سال کا تھا جب مجھے اپنی خواہشات کے بارے میں پتا چلا لیکن میں الجھ گیا تھا۔ ان دنوں میں نہ تو انٹرنیٹ تھا اور نہ ہی جنسی تعلیم۔ آپ اندھیرے میں تیر چلا رہے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں ’میں نے ایک خاتون ساتھی سے تعلقات رکھے، لیکن پھر یہ بات مجھ پر واضح ہوگئی کہ میں صرف لڑکوں کے ساتھ رشتے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ چونکہ میں 12ویں کے بعد ہی مزید تعلیم کے لیے کولکتہ سے باہر آگیا تھا لہذا والدین سے اس بارے میں بات نہیں کی۔ احمد آباد میں سمیر سے ملا اور ہم ساتھ رہنے لگے۔ پھر والد کی وفات کے بعد والدہ مجھ سے ملنے احمد آباد آئیں۔ وہ سمجھ گئیں اور کہا سمیر ٹھیک ہے اور آپ کا بہت خیال رکھتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ کوئی میرا مذاق اڑا رہا ہے یا مجھے طعنے دے رہا ہے۔‘

سمیر بھی ایسے ہی تجربات سے گزرے۔ وہ کہتے ہیں کہ’ مجھے اپنے والدین کو راضی کرنے میں کچھ وقت لگا۔ پاپا نے کچھ نہیں کہا لیکن والدہ چپ تھیں لیکن میں ان کی خاموشی کو سمجھ گیا۔‘

میں ان سے بس اتنا کہتا تھا ’ماں، سوچیے اگر آپ کی بیٹی ہوتی اور اس کی شادی مجھ جیسے آدمی سے ہوتی، تو کیا وہ خوش رہتی یا آپ سکون سے جی پاتیں؟ میں صرف ایک لڑکے کے ساتھ خوش رہ سکتا ہوں اور لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا، اگر آپ ایسا کرتی ہیں تو دو زندگیاں برباد ہوں گی۔ وہ آہستہ آہستہ میری بات کو سمجھ گئیں اور اب ہم اتنے برسوں سے ساتھ رہ رہے ہیں اور میرے والدین بھی ہمارے پاس آتے رہتے ہیں۔‘

دیبینڈو اور سمیر کہتے ہیں کہ انھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ سوسائٹی کیا کہتی ہے۔ ’ہم جانتے ہیں کہ ہم ساتھ ہیں، خوش ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘

دیبیونڈو اور سمیر جیسی بہت سی کہانیوں کو منزل مل گئی ہے، لیکن لتا اور پریا جیسی بہت سی کہانیاں ابھی بھی کنارہ تلاش کر رہی ہیں یا ادھوری رہ گئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32193 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp