کینیڈا میں اسلاموفوبیا اور شیخوپورہ میں رواداری


گزشتہ دنوں دو نہایت افسوسناک واقعات نظر سے گزرے جنہوں نے ہر حساس دل رکھنے والے کی طرح مجھے بھی افسردہ کیا اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور بھی کیا۔

ایک واقعہ کینیڈا کے شہر لندن میں پیش آیا جہاں ایک لڑکے نے ایک مسلمان خاندان کے چار افراد کو اپنے ٹرک کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان کی تین نسلوں کو ایک ساتھ ختم کر دیا۔ نو سال کا ایک معصوم بچہ جو زندہ رہ گیا اس کی تنہائی کا سوچ کر دل اور کٹا جاتا ہے ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ معمول کی سیر پر جانے کے بعد اس کے والدین دادی اور بہن جو ادھورے کام گھر چھوڑ کر آئیں ہیں اب وہ کبھی ان کو مکمل کرنے گھر واپس نہیں آئیں گے۔

اپنے سہانے مستقبل کے خواب سجائے جو خاتون پی ایچ ڈی کی پڑھائی کر رہی تھی کتنا کچھ سوچتی ہوں گی لیکن ایک شدت پسند لڑکے نے جو جانے کہاں سے اپنے دل میں اتنی نفرت بھر کر لایا تھا کہ اس خاندان کے سارے خواب ملیا میٹ کر دیے۔ یہ واقعہ پیش آیا اور جیسے پورے ملک کو ہلا گیا۔ میں جو خود گزشتہ نو دس سال سے کینیڈا میں مقیم ہوں مجھے بھی اپنی شناخت کے حوالے سے اسلاموفوبیا کے حوالے سے تحفظات پیدا ہوئے۔ بچوں کا اکیلا باہر کھیلنے جانا تشویش میں مبتلا کرنے لگا کہ کہیں کوئی ویسا ہی شدت پسند ہمیں بھی نقصان پہنچانے کا نہ سوچ کر بیٹھا ہو۔ معمول کی سیر پر ملنے والے سب افراد کے چہرے نگاہوں میں پھرنے لگے کہ کیا ان میں سے کوئی شدت پسند یا اسلام دشمن لگتا ہے۔ لیکن جواب نفی میں آیا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ جب میڈیا اور خبریں دیکھیں۔ یہاں کے وزیر اعظم کے بیانات اس کی اس افسردہ خاندان کے لیے دکھائی گی ہمدردی اور سینکڑوں افراد کا اس واقعے کی مذمت کرنا یہ احساس بھی دلا کر گیا کہ لاکھوں کی آبادی میں کوئی ایک آدھا درندہ چھپا ہے ورنہ یہاں انسانیت ناصرف باقی ہے بلکہ حق کو حق کہنے میں کسی کے لیے مذہب، قومیت یا رنگ و نسل کی چنداں اہمیت نہیں ہے۔

یہ جذبہ یہ احساس ہی کسی ملک کی بقا کا ضامن ہوتا ہے۔ جہاں ہر مذہب، ہر قوم کا فرد اپنے آپ کو محفوظ سمجھے۔ ہر کسی کے لیے ملکی قوانین برابر ہوں۔ انصاف سب کو یکساں ملے۔ ایسے معاشرے میں انسان اگر کسی واقعہ سے وقتی پریشانی میں مبتلا ہو بھی تو مجرم کو قرار واقعی سزا ملتے دیکھ کر ایک اطمینان بھی ہوتا ہے کہ کوی دوسرا یہ کام کرتے ہوئے کم ازکم دس بار سوچے گا۔ اسے یہ سن کر ہیرو نہیں بنا دیا جائے گا کہ اس کو خواب میں یہ حکم ملا تھا اور اس نے اس کی تکمیل کی۔ اتنے دنوں میں کوئی ایک بھی فرد سامنے نہیں آیا جس نے یہ کہا ہو کہ اس لڑکے نے یہ کام ٹھیک کیا یا ہو سکتا ہے اس مسلمان خاندان نے اس کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا تھا۔ کہیں بھی مذہب کارڈ کو استعمال نہیں کیا گیا ہو۔ اس کے ہم مذہب اس کی قوم کے لوگ بھی کھلم کھلا اسے برا کہہ رہے ہیں اور اس کے لئے سخت سے سخت سزا چاہتے ہیں۔ یہ ہے وہ انصاف جس کا حکم ہمارے مذہب اسلام میں ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ایک دفعہ کسی معزز قبیلے کی کوئی خاتون چوری کرتی پکڑی گی تو ان کے لیے سزا میں نرمی کرنے کی درخواست آپ ﷺ کے سامنے پیش کی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا؛

تم سے پہلے جو امتیں گزریں وہ اسی وجہ سے تو تباہ ہوئیں۔ وہ کیا کرتے تھے کم ذات (غریب آدمی) پرتو (شرعی) حد قائم کرتے تھے اور شریف کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم اس پروردگار کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہؓ (میری بیٹی) بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔ (صحیح بخاری)

ہم جن کو کافر کافر کہتے ہیں ان کے انصاف اور رواداری کا یہ عالم ہے۔ اور دوسری طرف بات کرتی ہوں دوسرے واقعے کی جہاں اس ملک میں جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ جہاں جھنڈے میں سفید رنگ اس لیے رکھا گیا کہ اقلیتوں کو بھی رہنے کا برابر کا حق حاصل ہوگا۔ وہاں ایک احمدی خاتون کی تدفین نہ ہونے دی گئی۔ ان کے لواحقین جو اپنے عزیزہ کی ابدی جدائی سے پہلے ہی صدمے سے نڈھال تھے ان کو مزید مار پیٹ کر کے زخمی کیا گیا۔ اور جو بات سب سے زیادہ تشویش ناک ہے کہ کوئی پولیس کوئی سرکاری عہدے دار کوئی انصاف پسند ادارے کوئی بھی حرکت میں نہیں آیا۔ اس بات کو اتنا معمولی عمل قرار دیا گیا کہ کسی اخبار نے ایک چھوٹی سی خبر لگانا بھی گوارا بھی نہ کیا۔ کسی نیوز چینل نے اس خبر کو بریکنگ نیوز تو کیا سرسری ذکر کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔

صاحب اقتدار کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ہاں لیکن کینیڈا کے حکومت کو ان کی کوتاہی کا احساس دلانے کے لیے پیغامات آئے۔ مزید ایسے واقعات نہ ہونے کی تلقین بھی کی گئی۔

تو اہل اقتدار سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ کینیڈا کی حکومت تو اپنی اقلیتوں سے وہ بہترین سلوک کرتی ہے کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ایسے واقعات مشکل سے کبھی کہیں رونما ہوتے ہیں اور اس کے بعد بھی اس قدر شدت سے ان کی مخالف ہوتی ہے احتجاج ہوتا ہے ہر کوئی کھل کر ایسے افراد کو برا بھلا کہتا ہے اور مجرم کے لیے یہاں بہت کڑی سزائیں ہیں۔ کینیڈا کی اقلیتوں کو تو ان کے بنیادی حقوق سے بھی زیادہ حق دیے جا رہے ہیں۔ خدارا آپ اپنے ملک کے معاملات پر نظر ڈالیے۔ جہاں اقلیتوں کے حقوق جس کا دل چاہے پیروں تلے روندھ کر چلا جاتا ہے۔ بغیر کسی خوف کسی سزا کے ڈر سے بے نیاز۔

بقول زہرا نگار صاحبہ کے، ”سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے“

تو صاحب اقتدار کیا ہمارا وطن جنگل سے بھی گیا گزرا ہے جہاں انسانوں کی بجائے مذہبی جنونیوں اور وحشی درندوں سے بھی گئے گزرے ایک ہجوم نے ایک خاتون کے جنازے کی بے حرمتی کی۔ اس کے لواحقین کو زد کوب کیا اور کیا بھی مذہب کے نام پر۔ خدارا ان وحشی درندوں سے کوئی ان کا مذہب تو پوچھے وہ کون سے مذہب کے پیروکار ہیں۔ اسلام میں مشرکین کا جنازہ نہ پڑھنے کا حکم ہے۔ کیا اس خاتون کے اہل خانہ نے ان افراد سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کے ساتھ جنازہ پڑھیں؟

اگر وہ قبرستان کسی خاص فرقے کے لیے مخصوص تھا تب بھی یہ بات آرام سے معاملہ فہمی سے حل کی جا سکتی تھی۔ یا ایک احمدی فوت شدہ عورت سے قبرستان کے مردوں کو اتنا خوف تھا کہ کہیں ان کو اپنے فرقے کی تبلیغ نہ کر دیں۔ اس قدر شرمناک واقعہ ہے کہ شرم و ندامت کے سارے الفاظ ختم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے سب کے سب نے امن و آتشی اور محبت بھائی چارے کا درس دیا۔ یہ نفرتیں پھیلانے والے کس مذہب کے پیروکار ہیں۔ اس مذہب کے جس کا نام کا مطلب ہی سلامتی ہے۔ جس میں جب بھی کسی سے ملو تو اس پر سلامتی بھیجنے کا حکم ہے۔ تو ایسی خود ساختہ سزائیں ایجاد کرنے یہ کون ہیں؟

ریاست مدینہ کے بانی سے میرا سوال ہے کہ اگر آپ اپنے ملک کے ہندو، عیسائی، یہودی، پارسی اور دیگر اقلیتوں کی حفاظت نہیں کر سکتے تو انہیں ملک بدر کر دیں اور اپنے جھنڈے کے سفید رنگ کو لال رنگ میں رنگ لیجیے وہی لال رنگ جو آپ کی ریاست میں افراد ان اقلیتوں کا بہا کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اور اگر کسی دوسرے ملک میں پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی برا ہوتا ہے تو آپ اپنی ہمدردی کے دو بول بولنے اور کسی کی مشکل گھڑی میں ساتھ دینے والے پیغامات لکھنے والے کو بھی پکی پکی چھٹی دے دیں۔

اور پھر اس قہر کا انتظار کریں جو ظالموں کو مل کر رہنا ہے۔ کسی کا صبر اتنا مت آزمائیے کہ دکھی دلوں کی صدا عرش کو ہلا کر رکھ دے۔ ایک امن پسند فرقے کو آزادی سے جینے نہیں دیتے کم ازکم بعد از وفات سکون سے تدفین کا حق تو دیں۔ اتنا تو حق ہر انسان کا ہے۔ چاہے وہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو چاہے ملحد ہو چاہے منکر ہو۔ سارے فیصلے بعد از مرگ تو خدا پر چھوڑ دیں وہ بہتر سمجھتا ہے کہ اب اس نے کیا سلوک کرنا ہے۔ سارے احکامات سارے قوانین صرف زندہ لوگوں کے لیے ہیں۔ مردہ لوگوں کی سزا جزا کا اختیار کیوں نہ خالق حقیقی کو دے دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments