یہ ہماری پارلیمنٹ ہے اور یہ ہماری پارٹی۔۔۔

محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار


کسی نے کہا یہ جمہوریت کا جنازہ ہے، کسی نے کہا کسی سکول کے گراؤنڈ میں یا گلی کی نکڑ پر ہونے والا لونڈوں کا پھڈا ہے۔ کوئی سوچ رہا ہے کہ کیا اب پارلیمان کے اجلاس کی نشریات سے بچوں کو دور رکھیں اور ’صرف بالغان کے لیے‘ کی ریٹنگ لگا دیں۔

کسی کو صدارتی نظام کے خواب دکھائی دے رہے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے سب کو توہین مذہب میں اندر کرو کیونکہ بجٹ کی دستاویز پر مقدس قرآنی آیت لکھی ہوئی تھی۔

کہیں سے یہ نعرہ لگا کہ اسمبلی کی عمارت کے باہر کلمہ لکھا ہوا ہے، یا کلمہ ہٹاؤ یا اسمبلی بند کرو۔ کوئی شہباز کو ممولے سے لڑا رہا ہے، کوئی ممولوں کے حوصلے بڑھا رہا ہے۔

کم ہیں لیکن کچھ ابھی بھی ہیں جنھیں ہماری اخلاقیات سے زیادہ معیشت کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ ہمارے کچھ موسمی قسم کے معاشی تجزیہ نگار ہیں وہ کونے میں بیٹھے پوچھ رہے ہیں کہ اوہ ساڈا بجٹ سی، اوہدا کیہ بنیا۔

تو یہ ہماری پارلیمنٹ ہے اور اس کے اندر یہ ہماری پارٹیاں ہو رہی ہیں۔

ہمارے سیانے تجزیہ نگار، پارلیمان کے اندر ہونے والی پارٹی کے ٹوٹے دکھا رہے ہیں اور سر ہلا ہلا کر پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو آزاد کروانے کے لیے اتنی قربانیاں اس لیے دی تھیں کہ یہ لچے لفنگے، ہتھ چھٹ ہمارے مقدس ایوان میں بیٹھ کر گالی گلوچ کریں، اور غنڈوں کی طرح ایک دوسرے پر پل پڑیں۔

پارلیمان کے اندر ہونے والی پارٹی کی جھلکیاں دکھاتے وقت کبھی گالی پر آواز بند کر دی جاتی ہے لیکن یہ قوم اتنی معصوم بھی نہیں کہ ہونٹ پڑھ کے نہ بتا سکے کہ گالی دینے والا ماں کہہ رہا ہے یا بہن۔

ہمارے تاریخ سے زیادہ واقف کار تبصرہ نگاروں نے (جن کا ہر جملہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ ہمارے زمانے میں تو) یہ بھی یاد دلایا کہ چونکہ اس پارٹی کے مناظر گھر گھر دیکھے گئے اس لیے قوم کچھ زیادہ ہی دہل گئی ہے ورنہ ماضی میں بھی پارلیمان ہمیشہ شرفا کا کلب نہیں رہی۔

کس نے کس کا نام آلو رکھا، کون کس کو ڈیزل، کس کو ٹرالی ٹریکٹر کہا، کون ِبلو کے گھر کا راستہ پوچھتا رہتا ہے۔ یہ مغلظات، یہ دلیل کا جواب مُکے سے دینے کی روایت اس بجٹ اجلاس میں شروع نہیں ہوئی۔ پارٹی کافی عرصے سے جاری تھی۔

تجربہ کار پارلیمانی رپورٹر بڑی حسرت سے ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں پارلیمان کے ارکان اختلافات کے باوجود شائستہ لہجے میں گفتگو کرتے تھے۔ لیکن ہمیں یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ان شائستہ سیاستدانوں نے ورثے میں قوانین اور روایات کے نام پر ہمارے لیے کیا چھوڑا ہے۔

پچھلے کئی برسوں سے سوشل میڈیا پر ایسی ایسی گالی پڑھنے کو ملتی ہے کہ میرے جیسے سنکی بڈھوں کے کان بھی سرخ ہو جاتے ہیں۔ وہی آوازیں جو کنٹینروں سے اٹھی تھیں سوشل میڈیا پر بلند آہنگ ہو کر اب پارلیمان میں گونج رہی ہیں اور ہم ہاتھ ملتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ایسے نہ تھے۔

میرے پنجابی بھائیوں نے اسے اپنے کلچر پر حملہ سمجھا ہے لیکن جب ن لیگ کے ایک رہنما نے کہا کہ یہ گالی گلوچ پنجابی کلچر کا حصہ ہے۔ لیکن میرا خیال ہے ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ پارلیمنٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قانون سازی نہیں ہے بلکہ اسے کلچر شو کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

اب ہمارا کلچر ہے کیا اس پر بھی بہت مباحث ہیں، کوئی اسے قدیم وادی سندھ سے جوڑتا ہے، کوئی اسے محمد بن قاسم کی کشتی میں کھوجتا ہے۔ ہم قوالی بھی سن لیتے ہیں اور مجرا بھی۔ دھمال بھی ڈالتے ہیں اور ان دھمال کرنے والوں پر خود کش حملہ کرنے والے بھی اپنے ہیں۔

کلچرل شو کا مقصد اپنی تہذیب کی نمائندگی تو ہوتا ہی ہے لیکن ایک مقصد انٹرٹینمنٹ بھی ہوتا ہے۔ تو کیا اس سے پہلے کسی پارلیمنٹ نے اپنے کلچرل شو سے آپ کو اتنا محظوظ کیا۔ بلکہ پہلے دن شو نے اتنا کھڑکی توڑ ہفتہ لیا کہ دو چار دن بس یہی شو چلنے دو۔

ہمارے تجربہ کار پارلیمانی تجزیہ نگار اس رونق کے دور رس اثرات کے بارے میں ہمیں اپنا گیان دیں گے، اللہ کرے ہمارے معاشی ماہرین کو بھی اپنے گراف وغیرہ دکھانے کا موقع ملے لیکن مجھے اس رونق میں دو ارکان پارلیمان یاد آئے۔

وزیرستان کا ایم این اے جو جیل میں بند ہے علی وزیر اور جسے اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں ملتی۔ وہ سوچتا ہو گا کہ پارلیمان کے نمائندوں کی نسبت اس کے ساتھی قیدی کہیں زیادہ شریف لوگ ہیں۔ شریف لوگوں سے یہ یاد آیا کہ شکر ہے فیصل واوڈا پارلیمان میں نہیں رہے کیونکہ اگر ہوتے تو لوگ مراد سعید کے تابڑ توڑ حملے بھول جاتے کیونکہ واوڈا صاحب نے اگلے بینچوں پر کھڑے ہو کر اپنا گلاک پستول نکالنا تھا اور ہوائی فائرنگ شروع کر دینی تھی۔

پھر کسی سیانے نے یہ بھی کہنا تھا کہ ہوائی فائرنگ ہمارے کلچر کا حصہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).