خالی گھونسلے کی بیماری


گھونسلے کو پنجابی زبان میں ”آلنا“ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آلنے سے گرا چڑیا کا بچہ (بوٹ) وہ چڑیا واپس اپنے گھونسلے میں نہیں رکھتی ”۔ شاید اسے چونچ سے اٹھانا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس کے نازک جسم پر ضرب یا تکلیف سے ڈرتی ہے۔ شاید اس بچے کا اپنی ماں سے معاہدہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنا ٹھکانا چھوڑ کر گیا تو واپس نہیں آ سکے گا۔ بالعموم جو لڑکیاں گھر چھوڑ کر بھاگ جاتیں، ان میں سے بھی اکثر کا مقدر چڑیا کے اس بچے“ بوٹ ”والا ہوتا۔ ماں باپ، بہن بھائی اس گھونسلے سے گرے بوٹ کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے۔ ہم نے بہت سی لڑکیوں کو ساری عمر ماں باپ کی تصویر سے لپٹ کر انہیں محسوس کرتے دیکھا ہے۔

اولاد کسی محل میں پیدا ہو یا سرکنڈے کی جھونپڑی، والدین کی توجہ کا مرکز ہوتی ہے۔ یہاں بھی چڑیا کی طرح ہوتا ہے۔ چڑیا کے بچے کی طرح ہی پلتی ہے۔ چڑیا اڑ کر جاتی ہے، منہ، چونچ میں پانی بھرتی ہے۔ خود پیاسی بھی ہو مگر پانی کی وہ بوند گھونسلے میں بیٹھے بچوں کے منہ میں انڈیل دیتی ہے۔ وہ بچے چڑیا کی آمد محسوس کرتے ہیں۔ بچے چیختے ہیں۔ واضح چہچہاہٹ سنائی دیتی ہے۔ اسی طرح چند دانے، سنڈی، بیج چونچ میں لئے وہ چڑیا واپس پلٹتی ہے۔

انسان بھی اسی طرح بچے کے آرام، کھانا پینا، صحت، سلامتی سب کو سامنے رکھ کر اس کا خیال رکھتا ہے۔ ماں بچے کی مالش کرتی ہے۔ صفائی کرتی ہے۔ ماتھے کے کنارے، کان کے پاس، گال کے اوپر سرمے کا کالا نشان لگاتی ہے۔ نظر بد سے بچانے کی مہر محبت ثبت کرتی ہے۔ گرمی سردی سے بچاتے اسے سکول تک پہنچا دیتی ہے۔ سکول سے کالج اور پھر ملازمت، کاروبار، گاؤں، شہر سے نکل مکانی، عارضی ہجرت اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ پہلے ایک بچہ، پھر دوسرا۔ بیٹی ہو تو پڑھائی کے بعد شادی ہو جاتی ہے۔ بالآخر گھر خالی ہو جاتا ہے۔

جونہی گھر خالی ہوتا ہے تو والدین، بالخصوص والدہ نفسیاتی طور پر الجھ جاتے ہیں۔ باقاعدہ خوف، پریشانی، الجھن نظر آتی ہے۔ بچوں سے رابطہ کریں تو ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ کھانے کے وقت فکر لاحق ہوتی ہے کہ بچے نے کچھ کھایا بھی کہ نہیں۔ آرام کے وقت تکیہ، بیڈ، چارپائی والدین کو تکلیف دیتی ہے۔ بچوں کا آرام، تکلیف دہ سوچ کی صورت گھیرے رکھتا ہے۔ سامنے سجا اچھا کھانا خیالات کی کشتی کا رخ پردیسی بچوں کی طرف موڑ دیتا ہے۔

کھانا بالکل اچھا نہیں لگتا۔ اپنے بچوں کے ہمراہ کھانا ہی اچھا لگتا ہے۔ پیسوں کی فکر کہ کہیں میرے بچے معاشی مسائل کا شکار نہ ہوں۔ یہ سب تقریباً سب والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔ بچوں کے پرانے کپڑے اٹھا کر خوش بو اور لمس محسوس کرتی ہیں۔ اس کی چھوڑ جانے والی کتابوں کو جھاڑتی ہیں۔ ویسے ہی اس کے کمرے کا چکر لگانے چلی جاتی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ بچے لا ابالی کا شکار نہ ہوں۔ کہیں لاپرواہی کے سبب اپنا نقصان نہ کر لیں۔

والدین سے جڑی اس تمام کیفیت، صورتحال کو ماہر نفسیات ”خالی گھونسلے کی تفکراتی بیماری“ Empty Nest Syndrome کہتے ہیں۔ یہ اس وقت جنم لیتا ہے جب والدین اکیلے ہو جاتے ہیں۔ اولاد کو یاد کرتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں۔ تفکرات و پریشانی کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اولاد کا کھانا پینا، آرام سکون سب یاد آتا ہے۔

میں جب بھی گھر سے نکلنا چاہتا ہوں تو میری والدہ میرے سامان میں گڑ، چاول، آٹا، مصالحے، گھر آیا ہوا فروٹ، اچار رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ گاڑی میں رکھوا کر کہتی ہیں کہ فلاں چیز رکھوا دی ہے۔ گھر آ کر چیک کریں تو چار چیزیں ہوتی ہیں۔ ہم غصے کا اظہار بھی کریں تو پرواہ نہیں۔ سامان کے کسی کونے سے، کسی بیگ کی جیب سے کھانے پینے کی کوئی چیز نکل آتی ہے۔

سردیوں کا ساگ گرمیوں میں بھی میرے گھر آنے پر فریزر میں جما ہوا منتظر ہوتا ہے۔ امی جان کو لگتا ہے کہ مجھے ساگ بہت پسند ہے۔ جی یہ بھی درست ہے، مگر اب اتنا بھی نہیں کہ گندلوں کا ساگ کئی مہینے سے فریزر میں رکھا رہے اور صرف میرا ہی منتظر ہو۔ جی ہاں میں اسے کھا بھی لیتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ بہت پسند ہوتا ہے، اس لیے بھی کہ ماں نے اسے چاؤ سے سنبھال سنبھال کر رکھا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں Empty Nest Syndrome کی مالک ماں کو کیسے سمجھایا جا سکتا ہے۔

اللہ نے جب ماں کو تخلیق کیا تو خالی گھونسلے کی تفکراتی بیماری اس کے ساتھ جوڑی۔ اسے اس کے پیار کا حصہ بنایا۔ ہم ہی ہیں جو گھونسلے کو چھوڑتے ہیں تو چڑیا کے بچے کی طرح نیا ٹھکانا ڈھونڈتے ہیں۔ ورنہ چڑیا اور چڑا کی طرح ہم، بچوں سے جڑے دونوں انسان بس اپنے بچوں کی ہی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ یہی تو سچی محبت ہے جو والدین کو ”خالی گھونسلے“ کی تفکراتی بیماری کا شکار کر دیتی ہے۔ اور ہاں یہ بیماری بھی دائمی ہے۔ ہمیشہ رہنے والی، ناقابل علاج۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments