مدثر نارو کی گمشدگی کا معاملہ: 'یہ بچہ مجھ سے پوچھ رہا تھا دادو ہم یہاں کیا کرنے آئے ہیں، میں اس کو کیا جواب دوں؟'


'یہ بچہ مجھ سے سوال کر رہا تھا عدالت میں، دادو ہم یہاں کیا کرنے آئے ہیں۔ میں اس بچے کو کیا بتاؤں، کہ ہم کیا کرنے ادھر آئے ہیں۔ اگر اس کا باپ کوئی مجرم ہوتا تو چلو باپ سے نفرت کرے گا۔ اگر مجرم نہیں ہے، تو یہ ساری زندگی ملک سے نفرت کرے گا۔ یہ میں نہیں چاہتی۔ میں اپنے ملک سے پیار کرتی ہوں۔ اور میری آواز جہاں پہنچ رہی ہے، باجوہ صاحب، وزیر اعظم صاحب، شیریں مزاری صاحبہ، وہ میری مدد کریں۔'

یہ کہنا تھا صحافی، مصنف اور شاعر مدثر محمود نارور کی والدہ کا جو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے بیٹے کی گمشدگی کے بارے میں ہونے والی سماعت میں شرکت کے لیے اپنے تین سالہ پوتے کے ساتھ عدالت آئی تھیں۔

اپنی اہلیہ صدف اور اس وقت چھ ماہ کے بیٹے سچل کے ہمراہ ملک کے شمالی علاقوں میں گھومنے کی غرض سے گئے مدثر نارو کو اگست 2018 میں لاپتہ ہو گئے تھے اور اس کے بعد سے ان کی موجودگی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔

اس سال مئی میں ان کی اہلیہ صدف کی بھی وفات ہو گئی جب اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان مدثر نارو کی بازیابی کے حوالے سے سماعت کا سلسلہ جاری تھا۔

جمعرات 17 جون کو اس کیس کی پانچویں سماعت میں شرکت کے لیے مدثر کی والدہ اور بیٹا جب صبح عدالت پہنچے تو ان کو علم ہوا کہ جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں لگنے والے کیس کا آخری نمبر ہے۔

ساڑھے نو بجے جب عدالتی کارروائیاں شروع ہوئی تو سچل نے اپنی دادی سے پوچھا کہ وہ یہاں عدالت میں کیا کرنے آئے ہیں۔

اس پر عدالتی کارروائی میں خلل پڑنے کے خدشہ کے باعث ان دونوں سے درخواست کی گئی کہ وہ عدالت سے باہر چلے جائیں، جس کے بعد وہ باہر چلے گئے اور سوا دس بجے اپنے مقدمے کی سماعت شروع ہونے پر واپس آئے۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

لاپتہ صحافی کی اہلیہ ان کی راہ تکتی تکتی خود چل بسیں

’جس طرح میرا بھائی گھر لوٹا ہے کاش باقیوں کے رشتہ دار بھی ایسے ہی گھر پہنچ جائیں‘

’میری امی آدھی بیوہ کی طرح زندگی گزار رہی ہیں‘

’جس طرح میرا بھائی گھر لوٹا ہے کاش باقیوں کے رشتہ دار بھی ایسے ہی گھر پہنچ جائیں‘

عدالتی کارروائی میں کیا ہوا؟

مدثر نارو کی فیملی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کو فریق بنایا گیا ہے اور جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ہونے والی آج کی سماعت میں وزارت دفاع کی جانب سے بتایا گیا کہ مدثر نارو ان کے پاس نہیں ہیں۔

مدثر نارو کی جانب سے وکالت کرنے والے عثمان وڑائچ نے کہا کہ وزارت داخلہ کیس میں دوسرا فریق ہے، کسی ادارے پر تو ذمہ داری عائد کی جائے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ جبری گمشدگی کے لیے قائم کیے گئے کمیشن کے پاس ہے، جس پر عدالت نے ان سے تفصیل طلب کی کہ اب تک تفتیش کہاں تک پہنچی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے پیش کردہ ایک صفحے کی رپورٹ پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہ کہ ون پیجر نہ دیں بلکہ تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں۔

مدثر نارو کے وکیل نے ان کے خاندان کے لیے معاوضے کے بارے میں نکتہ اٹھایا جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ بچے کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اور ہدایت کی لاپتہ صحافی کے تین سالہ بچے کی کفالت کے لیے دیکھ بھال کے اخراجات کا آرڈر کرنے کے لیے مدور نارو کے قانونی ورثا کی فہرست جمع کرائی جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ

عدالت نے لاپتہ صحافی مدثر نارو کے بازیابی کیس میں وزارت داخلہ و دفاع کے ذمہ دار افسران طلب کیے ہیں اور اگلی سماعت 23 جون کو مقرر کی گئی ہے۔

سماعت کے بعد عدالتی کمرے کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مدثر نارو کی والدہ نے کہا کہ ‘میں اس بچے کے لیے پریشان ہوں۔ میں خود 60 برس کی ہو گئی ہوں، بونس میں جی رہی ہوں۔ اس کا باپ آ جائے تو فکر کم ہو جائے، اس لیے میں ہر دروازے پر دستخط دے رہی ہوں کہ پلیز میری کوئی مدد کرے۔’

انھوں نے بتایا کہ تین سال قبل ان کے گم ہو جانے کے بعد ان کے گھر لوگ آئے جنھوں نے اپنا تعارف ‘خفیہ ایجنسی’ سے کرایا اور کہ وہ یہ جاننے کے لیے آئے ہیں کہ کیا واقعہ ہوا ہے

‘پھر صدف کی وفات ہوئی تو اس دن دوبارہ فون آیا کہ ہمیں پیچھے سے آرڈر آیا ہے کہ اسے ڈھونڈیں تو ہمیں ایف آئی آر دیں اور شناختی کارڈ کا نمبر دیں جو ہم نے فوراً دے دیا۔ لیکن پھر اس کے بعد کسی نے ہم سے رابطہ نہیں کیا اور کچھ بتایا نہیں۔ ہم بے حد پریشان ہیں۔’

مدثر نارو کون ہیں؟

مدثر نارو لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی، مصنف اور شاعر تھے جو اگست 2018 میں شمالی علاقہ جات میں اپنے خاندان کے ساتھ سیر پر گئے تھے تاہم وہ لاپتہ ہو گئے اور تب سے ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔

مدثر نارو کی گمشدگی کے بارے میں اس سال عدالت میں جمع کرائی گئی پٹیشن کے مطابق 2018 کے انتخابات کے چند روز بعد ان کو فون پر کہا گیا کہ وہ انتخابات میں ہونے والی مبینہ بدعنوانی کے بارے میں سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنے سے گریز کریں۔

اس کے علاوہ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ گمشدگی سے چند ماہ قبل ان کی نوکری بھی چلی گئی تھی اور اس کی کوئی واضح وجہ بھی انھیں نہیں بتائی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp