’میرا بیٹا ان کے شکنجے میں ہے۔ کیا آپ مدد کر سکتے ہیں؟‘ ایک ’کلٹ ڈی پروگرامر‘ نے سینکڑوں افراد کو خطرنا گروہوں کے چنگل سے کیسے نجات دلائی


ریاست ٹیکساس میں برانچ ڈیوڈیئن کے لیڈر ڈیوِڈ کُریش کا پتلا۔
ریاست ٹیکساس میں برانچ ڈیوڈیئن کے لیڈر ڈیوِڈ کُریش کا پتلا۔ رک راس نے 1990 کی دہائی میں ان کے بعض پیروکاروں ان کا فرقہ چھوڑنے پر آمادہ کیا تھا۔
ایسے لوگوں کو جن کے ذہن کسی خطرناک کلٹ یعنی فرقے نے بدل کر رکھ دیے ہوں اس بات کا قائل کیسے کریں گے کہ وہ ان باتوں کو جنھیں وہ سچا سمجھتے رہے ہیں بھول کر زندگی کی نئی شروعات کریں۔

رِک ایلن راس کے سامنے یہ ہی چیلنج تھا اور یہ ہی ان کا کام تھا۔

راس ایسے خطرناک فرقوں کی بیخ کنی کرنے اور ان کی حقیقت کو سامنے لانے کے لیے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ اپنے کام کی وجہ سے ماضی میں انھیں ’کلٹ ڈی پروگرامر‘ اور ’کلٹ بسٹر‘ بھی کہا جاتا تھا۔

وہ خطرناک، تباہ کن اور نفرت انگیز فرقوں اور گروہوں سے لوگوں کو نکلنے میں مدد دیتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے تمام گروہوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے اپنے راہنما کی اندھی تقلید اور پرستش، ان کی ذہن سازی کا عمل راہنما کو غیر معمولی اثر و رسوخ عطا کرتا ہے، اور پھر یہ گروہ تباہی پھیلاتے ہیں، لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‘

راس اپنی عمر کے چھٹے پیٹے میں ہیں اور دنیا بھر میں اب تک 500 مرتبہ ایسے فرقوں یا گروہوں کے کام میں حائل ہو چکے ہیں۔

رِک ایلن راس

Courtesy of Rick Alan Ross
راس 30 سال سے فرقوں اور نفرت پھیلانے والے گروہوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں

انھوں نے بتایا کہ ’میں ایف بی آئی اور یو ایس جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی نگرانی میں رہا ہوں، پرائویٹ سراغ رساں میرا تعاقب کرتے رہے ہیں، پانچ مرتبہ مقدمات کا سامنا رہا ۔۔۔ گروہوں نے میرے بارے میں جاننے کے لیے میرے گھر کا کچرا تک خریدا۔ اس عرصے میں مجھے خاصا ہراساں کیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ خطرناک گروہوں کا مسئلہ جتنا نظر آتا ہے اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔

’میرا بیٹا ان کے شکنجے میں ہے۔ کیا آپ مدد کر سکتے ہیں؟‘

گزشتہ صدی میں ان انتہا پسند فرقوں نے ایسے کئی بھیانک کام کیے جنھیں شہ سرخیوں میں جگہ ملی۔

1978 میں کرسچیئن کلٹ لیڈر جِم جونز کی وجہ سے 900 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ واقعہ جونزٹاؤن قتل عام کے نام سے مشہور ہے۔

گویانا میں نومبر 1978 میں پیپلز ٹیمپل کے پادری جِم جونز کے کہنے پر جونزکمپاؤنڈ میں لوگوں نے خودکشی کی۔

New York Times Co./Neal Boenzi/Getty Images
گویانا میں نومبر 1978 میں پیپلز ٹیمپل کے پادری جِم جونز کے کہنے پر جونزکمپاؤنڈ میں لوگوں نے خودکشی کی۔

ایسے اور بھی کئی اہم واقعات رونما ہوئے ہیں۔ مثلاً 1969 میں ’میسن فیملی‘ نامی فرقے کے ہاتھوں ہونے والے ٹیٹ قتل، یا پھر سیکس کلٹ نیکسیئم کے سربراہ کو سیکس ٹریفیکنگ کے لیے 120 برس قید کی سزا۔

راس نے انھیں سزا دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اکتوبر میں عدالت کے سامنے اس گروہ کے طریقۂ واردات کی وضاحت کی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم ان گروہوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ تو پاگل ہیں، مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے ارد گرد ہر چیز کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔‘

ایسے کلٹ یا فرقے لوگوں کی حقیقت کو جانچنے کی حس کو برباد کرکے انھیں ایک نیا زاویۂ نظر دیتے ہیں، اور اس طرح لوگ سچائی کے مقابلے میں اس بات کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں جو ان کا گروہ بیان کرتا ہے۔

راس کا اس کا تجربہ 30 کے پیٹے میں اس وقت ہوا جب وہ امریکی ریاست ایریزونا کے ایک کیئر ہوم میں اپنی دادی سے ملنے گئے۔ ان کی دادی نے بتایا کہ ایک نرس انھیں ایک ایسے متنازع فرقے کا رکن بننے کی ترغیب دے رہی تھی جو یہودیوں کو مذہب بدلنے کی طرف مائل کرتا ہے۔

سیکس کلٹ نیکسیئم کے سربراہ کیتھ رینیئر کا عدالتی خاکہ

سیکس کلٹ نیکسیئم کے سربراہ کیتھ رینیئر کو گزشتہ سال اکتوبر میں سزا سنائی گئی

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے بہت دکھ ہوا، میں انھیں بچانا چاہتا تھا۔ میں نرسنگ ہوم کے ڈائریکٹر کے پاس گیا جس کے بعد تحقیقات سے پتا چلا کہ ایک گروہ نے اپنے ارکان سے خفیہ طور پر کہا تھا کہ وہ نرسنگ ہوم میں ملازمت اختیار کرکے عمر رسیدہ لوگوں کو نشانہ بنائیں۔‘

اس کے بعد راس نے ایک ایسے منصوبے پر کام کیا جس کا مقصد ایسے یہودی قیدیوں کی مدد کرنا تھا جنھیں انتہا پسند اور نفرت انگیز گروہ اپنا ٹارگٹ بنانا چاہتے تھے۔

فل ٹائم ڈی پروگرامر بننے سے پہلے وہ پرانی گاڑیوں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ان کے پاس لوگوں کو بھیجا جاتا جو کہتے تھے کہ میرا بیٹا یا بیٹی کسی گروپ میں چلے گئے ہیں۔ کیا آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ میں ماہر نفسیات کے ساتھ بیٹھ کر ایسے لڑکوں اور لڑکیوں سے بات کرتا تھا۔

’اس سے ان کے گھروالوں کو اطمینان ہوا کیونکہ یہ گروہ بہت خطرناک تھے۔ بعض بچوں سے زیادتی کرتے تھے جبکہ بعض متشدد تھے۔ کئی گروہ بچوں کو نفسیاتی دباؤ میں مبتلا کرتے تھے اور وہ اپنے گھروالوں کے اجنبی بن جاتے تھے۔‘

کرسچیئن فرقے برانچ ڈیوڈیئن کے احاطے میں 1993 میں آگ لگ گئی تھی

Steven Reece/Sygma/Getty Images
کرسچیئن فرقے برانچ ڈیوڈیئن کے احاطے میں 1993 میں آگ لگ گئی تھی

مگر ڈی پروگرامنگ کی تیکنیک کس طرح کام کرتی ہے؟

راس کا کہنا ہے کہ ’اس کا بنیادی اصول تو وہی پرانا ہے مگر اس میں کچھ جدت آ چکی ہے۔‘

’اس میں کسی فرقے کے لوگوں کو اپنا رکن بنانے کے طریقۂ کو دیکھا جاتا ہے۔ کیا وہ دھوکے سے ایسا کرتے ہیں؟ کیا ایک بار ان سے ملنے کے بعد آپ اس میں پھنس جاتے ہیں؟

وہ کہتے ہیں کہ ’کوئی شخص اپنے فرقے کے پاس جا کر اس سے کہہ سکتا ہے کہ اس کے گھر والے اس سے بات کرنا چاہتے ہیں، تو اسے کیا کرنا چاہیے۔ فرقہ کہتا ہے کہ بات مت کرو۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’گھر والے اس شخص کو اپنے خدشات کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ میں وہاں موجود رہتا ہوں اور اپنی موجودگی کا سبب بیان کرتا ہوں۔ ہم دو تین روز تک بات کرتے ہیں۔ ‘ راس کا کہنا ہے کہ کامیابی کی شرح 10 میں سات ہے۔

لیڈر اور پرستاروں کا خاکہ

’گروپ کا لیڈر مطلق العنان ہوتا ہے جو اپنے پیروکاروں سے اپنی پرستش کرواتا ہے۔‘

جان سے مارنے کی دھمکیاں

1980 کی دہائی میں انتہا پسند گروہوں اور فرقوں کے بارے میں راس کے کام کی خبر میڈیا کو ہوگئی۔

جس کے بعد یہ گروپ ان کے دشمن بن گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے شیطان کا لقب دیا گیا اور ایسے لفظوں سے یاد کیا جانے لگا جو میں دہرا نہیں سکتا۔ ایسے گروپ ہیں جو مجھ سے ناراض ہیں اور نفرت کرتے ہیں۔

’مگر میں نے سوچا کہ اگر یہ گروہ مجھے پسند نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ میں جو کام کر رہا ہوں وہ لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے۔‘

اس کام کے دوران انھیں کئی بار قتل کر دینے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔

ان کے بقول ’شاید ہی کوئی ایسا مہینہ گزرا ہوگا جب مجھے کوئی دھمکی آمیز ای میل نہ ملی ہوں، یا محکمۂ انصاف نے مجھے خبردار نہ کیا ہوں کہ میں کسی گروہ کی ہِٹ لِسٹ پر ہوں۔‘

انھیں سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ کچھ لوگ ان پر مذہب سے نفرت اور مذہبی آزادیاں کم کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

بعض لوگوں کے خیال میں ڈی پروگرامنگ کا مقصد لوگوں کے خیالات کو بدلنے کی جبری کوشش ہے اور بعض اس برین واشنگ یا خفیہ ذہن سازی سے تعبیر کرتے ہیں۔

’دنیا کا خاتمہ قریب ہے‘ کا کتبہ

ڈی پروگرامنگ ایسے سلیقے سی کی جاتی ہے کہ گروہ کے دوسرے ارکان کو پتا نہ چلے

ان الزامات کے جواب میں راس کہتے ہیں کہ وہ صرف ان گروہوں کے خلاف ہیں جو اپنے پیروکاروں کو کسی طرح کے خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔

مرضی کے خلاف؟

بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ غیر رضاکارانہ طور پر ڈی پروگرامنگ کرتے ہیں اور بعض اوقات نقل حرکت بھی بند کر دیتے ہیں۔

امریکہ میں والدین یا سرپرست کی موجودگی میں کسی کم سن کی ڈی پروگرامنگ یا مثبت ذہن سازی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ لیکن بالغ شخص کا معاملہ کچھ پیچیدہ ہے۔

کوئی ڈی پروگرامر کسی کو اس کی مرضی کے بغیر کیسے روک سکتا ہے اور یہ کہ اس پر اغوا کا الزام بھی نہ آئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ میرا فیصلہ نہیں ہوتا، بلکہ گھروالوں کا فیصلہ ہوتا ہے۔

’گھر والے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کسی شخص کو بربادی سے بچانے کے لیے یہ ہی ایک متبادل ہے۔ اور یہ شاید ایک متنازع بات ہے کہ کسی کو اس کی مرضی کے بغیر آپ روکیں۔ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال میں یہ چھوٹی برائی ہے۔ اور ایسے میں، میں ان کی مدد کو تیار ہوتا ہوں۔‘

’بعض اوقات تو یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کو انسولین کی ضرورت تھی مگر گروپ نے کہا کہ انسولین لینا بند کر دو۔ تو ایسے میں کارروائی کرنا پڑتی ہے کیونکہ یہ زندگی کا سوال ہے۔‘

رِاک راس

Courtesy of Starz Entertainment
رِاک راس کو مرضی کے بغیر ڈی پروگرامنگ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ مذہبی آزادیوں پر قدغن لگاتے ہیں۔

راس کا کہنا ہے کہ ان کے 500 سے زیادہ کیسز میں سے ایک درجن ایسے تھے جن میں مرضی شامل نہیں تھی۔ ان کا آخری ایسا کیس 1991 میں جیسن سکاٹ کا تھا۔

جیسن کی ماں ایک متنازع گروپ سے متنفر ہو کر اپنے تین کم سن بچوں کے ہمراہ اس گروپ سے علیحدہ ہونا چاہتی تھی۔

راس کا کہنا ہے کہ ’ماں بہت زیادہ دکھی تھی۔ اس کے ایک بچے کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کی وجہ سے ہی وہ اس کلٹ سے نکل جانا چاہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس گروپ کی ایک لڑکی سے جیسن کی شادی طے کی گئی ہے۔‘

ماں نے راس سے رابطہ کیا جو ان کے دو چھوٹے بچوں کے خیالات بدلنے میں کامیاب ہو گئے، مگر جیسن نے، جو 18 سال کے ہو چکے تھے، یہ فرقہ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس نے اپنی ماں کے رکھے ہوئے سکیورٹی گارڈز سے ہاتھا پائی کی جس کے بعد اسے ایک سیف ہاؤس یعنی خفیہ جگہ پر لے جایا گیا۔

راس نے جیسن اور اس کے گھر والوں سے پانچ روز تک بات کی جس کے بعد بظاہر جیسن کی سمجھ میں بات آ گئی۔

کٹھ پتلیاں

ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی کو یہ بات سمجھانے میں کہ کوئی دوسرا انھیں استعمال کر رہا ہے گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔

مگر یہ کارروائی ناکام رہی۔ جیسن فرار ہو کر اپنے گروپ میں چلا گیا اور پولیس میں رپورٹ کروا دی۔ راس کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر حبسِ بیجا میں رکھنے کی فرد جرم عائد کر دی گئی جس سے وہ بری ہوگئے، مگر معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا۔

سنہ 1995 میں جیسن نے راس پر دیوانی مقدمہ دائر کر دیا۔ اس نے گواہی دی کہ اس ہتک آمیز سلوک کیا گیا، دھمکایا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کا ذہن بدلنے کے عمل کے دوران اس کی مسلسل نگرانی کی گئی۔

عدالت نے راس کو جیسن کے شہری حقوق اور مذہبی آزادیاں سلب کرنے کا مرتکب پایا۔ انھیں جیسن کو بیس لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم بطور ہرجانہ ادا کرنا پڑی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے دوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ وہ میرے لیے بہت مشکل وقت تھا۔‘

مگر پھر اچانک جیسن نے اپنے بھائیوں اور ماں سے صلح کر لی اور راس سے بھی بیس لاکھ ڈالر کی بجائے 5,000 ڈالر لے کر بات ختم کر دی۔

اور ساتھ ہی راس سے اس کی بیوی کو ڈی پروگرام کرنے میں مدد طلب کی اور اس وقت گروپ کی رکن تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ڈی پروگرام میں ایسا ہو جاتا ہے۔ کسی شخص کو بہت زیادہ معلومات حاصل ہو جاتی ہیں جس پر وہ فوری عمل کے لیے تیار نہیں ہوتے، مگر بعد میں وہ قائل ہو جاتے ہیں۔ جیسن نے بھی گروپ ان ہی وجوہات کی بنیاد پر اس گروہ سے علیحدگی اختیار کی جن کے بارے میں ہم بات کر چکے تھے۔ انھیں سمجھ میں آ گیا کہ اس کلٹ کو چھوڑنے میں ہی ان کی بھلائی ہے۔‘

Aerial view of a 22-meter-high figure of Saint Death during a ceremony at the International Sanctuary of Saint Death in Mexico

راس کا کہنا ہے کہ ’لوگ کئی طرح کے عقائد رکھتے ہیں جن سے انھیں اختلاف ہو سکتا ہے، مگر جب تک وہ کسی کے لیے خطرہ نہیں بن جاتے اس وقت تک انھیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

البتہ اس کیس نے ان کے بعض طریقوں پر سوالیہ نشان لگا دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے فیصلہ کر لیا کہ کیسے بھی حالات کیوں نہ ہوں، میں مرضی کے بغیر ڈی پروگرامنگ نہیں کروں گا۔‘

ان کے بعض کامیاب کیسز کے نتیجے میں دیرپا تعلقات قائم ہوئے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’کچھ لوگ ہمیشہ مجھ سے رابطے میں رہتے ہیں، کرسمس کارڈ بھیجتے ہیں، شادی پر بلاتے ہیں۔ میں واقعی اس کی قدر کرتا ہوں۔ ایک عورت نے، جسے میں نے ایک ایسے گروپ سے نکلنے میں مدد دی تھی جو اپنے ارکین کو بانجھ بناتا تھا، اپنے پہلے بچے کی پیدائش پر مجھے اس کی تصویر بھیجی۔

’کئی ہیں جو زندگی میں مشغول ہو کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور مجھے بھول جاتے ہیں۔ جو میرے خیال میں بالکل درست ہے کیونکہ میں ان کے ایک جبری گروپ سے وابستگی کی ناخوشگوار یادوں کا حصہ جو ٹھہرا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp