موسیقار ایس بی جون


جب اللہ تعالیٰ کی عنایات ہو تو وہ راتوں رات اپنے بندے کو شہرت کے آسمان کا تارہ بنا دیتا ہے۔ فلمی دنیا کے کئی ایک فنکاروں کے ساتھ ایسا ہوا۔ ایسی ہی عنایات ایس بی جون پر بھی ہوئیں جب فلم ’سویرا‘ کا گیت مقبول زدعام ہو کر ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا۔ آج یہ گیت کلاسیک کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ 1959 میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’سویرا‘ کا ماسٹر منظور حسین شاہ عالمی والے کی موسیقی میں فیاضؔ ہاشمی صاحب کا لکھا ہوا لا زوال گیت یہ ہے :

تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے

آج 62 سال بعد بھی جون بھائی کی آواز میں یہ گیت روز اول کی طرح مقبول ہے۔ اس گیت کو بعد کے آنے والے فنکاروں نے بھی ٹیلی وژن چینلوں پر پیش کیا۔ لیکن جون بھائی کے گائے ہوئے گیت کی نقل کوئی نہ کر سکا۔ انٹر نیٹ پر جہاں کوئی ’ری مکس‘ ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی اصل گیت بھی موجود ہوتا ہے اور سننے والا ”فرق“ صاف محسوس کر لیتا ہے۔

پاکستان ٹیلی وژن کا میں ہمیشہ احسان مند رہوں گا کہ اس کی بدولت خاکسار کو اس عظیم فنکار کے پاس بیٹھنے کا کئی مرتبہ اعزاز حاصل ہوا۔ میرا جون بھائی سے 1980 کی دہائی سے تعلق ہے۔ ان کے بیٹے روبن جون کے ساتھ میں نے پاکستان ٹیلی وژن کے کئی موسیقی کے پروگرام کیے۔ جون بھائی سے بھی اکثر ملاقات رہتی تھی۔ پھر کچھ عرصہ رابطہ کم ہو گیا۔ 2021 کی دوسری دہائی میں تجدید ملاقات ہوئی۔ میں تقریباً ہر سال راولپنڈی ( اپنی موجودہ رہائش ) سے کراچی جاتا اور جون بھائی سے ضرور ملاقات کرتا تھا۔ ایک مرتبہ باقاعدہ انٹرویو بھی کیا۔ اس کے علاوہ ہر ملاقات میں کوئی نہ کوئی نئی بات سننے کو ملتی تو میں وہ بھی نوٹ کر لیتا۔ ہماری آخری ملاقات دسمبر 2019 میں ہوئی۔ ان تمام ملاقاتوں کا خلاصہ قارئین کی نظر ہے :

جون بھائی کی گلوکاری کا سفر 20 مئی 1950 کو ریڈیو پاکستان کراچی سے سیف ؔالدین سیف صاحب کے لکھے ہوئے گیت سے ہوا۔ پھر جلد ہی شہر کے موسیقی کے فنکشنوں اور محفلوں میں شرکت کرنے لگے۔ ”ریڈیو میرا اسکول اور دوسرا گھر تھا۔ وہاں شاعر ارمؔ لکھنوی، بہزاد ؔ لکھنوی وغیرہ اور موسیقاروں میں رفیق غزنوی، مہدی ظہیر اور بہت سے دوسرے لو گوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اس زمانے میں ایک پروگرام ’سنی ہوئی دھنیں‘ ریڈیو پاکستان کراچی سے نشر ہو تا تھا، میں بھی اس میں حصہ لیتا تھا۔ اس پروگرام میں معشوق سلطان، نہال عبد اللہ اور مہدی ظہیر بھی آتے تھے۔ مہدی حسن میرے پانچ چھ سال بعد ریڈیو پر آئے“ ۔

جون بھائی 1950 سے 1990 کی دہائی تک موسیقی کی دنیا میں فعال رہے۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے 1942 یا 1943 میں پنڈت رام چندرا تریویدی کے ہاں طبلہ سیکھتے تھے۔ کراچی کے موجودہ سول اسپتال کے سامنے پنڈت جی کا اسکول ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ طبلہ سیکھنے کے دوران گنگنا نے لگے تو پنڈت صاحب نے کہا گانا کیوں نہیں گاتے؟ یوں طبلے کے ساتھ گائیکی کے اسرار و رموز بھی حاصل کرنے لگے۔ ”بس یہی میرے ایک استاد ہیں“ ۔

” بچے تو پالنے تھے، گھر بھی چلانا تھا لہٰذا ’گرینڈ لیز بینک‘ میں ٹیکنیکل اور مینٹینینس کے شعبے میں ملازمت کی۔ شام اور رات کو موسیقی کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ کراچی کے ایک معروف فلم اسٹوڈیو کے چیف ساؤنڈ انجنیئر اقبال شہزاد صاحب کے اسسٹنٹ، ہاشم قریشی سے میرا دوستانہ تھا۔ ایک دن انہوں نے کہا کہ رفیق رضوی صاحب کی ایک آنے والی فلم کے موسیقار، ماسٹر منظور نئے گلوکاروں کے آڈیشن لے رہے ہیں تم بھی قسمت آزمائی کرو۔ اس سے پہلے مجھے اکثر یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا تھا کہ میری آواز فلم کے لئے موزوں نہیں لہٰذا میں جانے سے ہچکچایا لیکن پھر چلا ہی گیا“ ۔

یہاں جون بھائی نے ایک بہت پیاری اور دل کو لگتی بات کہی۔ وہ کہتے ہیں : ”بائیبل مقدس کی ایک آیت ہے :“ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا، یہ خدا کی طرف سے ہوا جو ہماری نظر میں عجیب ہے۔ ”یہ میری زندگی پر پورا اترتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ اس دن مجھے خاصا ’فلو‘ تھا۔ ماسٹر صاحب نے کہا کچھ سناؤ میں نے فلو کے ہونے کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ میرا تجربہ ہے کہ فلو میں آواز اور زیادہ اچھی ہو جاتی ہے۔ مجھے سننے کے بعد ماسٹر صاحب پیار سے بولے کہ تو پہلے کہاں تھا؟

ا ور میرا انتخاب ہو گیا۔ جس شخص کو یہ کہا جاتا رہا تھا کہ اس کی آواز فلموں کے لئے مناسب نہیں اس کا پہلا گیت ہی اس کی پہچان بن گیا۔ لہٰذا میں ”وہی سرے کا پتھر بن گیا“ جس کو معماروں نے مسترد کر دیا تھا اور یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہی ہوا ”۔

اس فلم کے موسیقار ماسٹر منظور، شاہ عالمی والے ( لاہور کے مشہور علاقہ شاہ عالمی کی نسبت سے ) تھے۔ ایس بی جون اور فلم ’سویرا‘ کے حوالے سے ایک بہت بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ میں بھی یہی سمجھتا رہا اور انٹرنیٹ پر موجود مواد میں بھی یہی درج ہے کہ فلم سویرا کے مذکورہ گیت کے موسیقار منظور اشرف تھے۔ پھر اس فلم کی ریلیز کے دس سال بعد 1967 میں منظور اشرف صاحبان کی جوڑی ٹوٹ گئی اور اشرف صاحب، ایم اشرف کے نام سے اپنی وفات تک موسیقی ترتیب دیتے رہے۔

میری جون بھائی سے اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا : ”بے شک اس گیت کے موسیقار ماسٹر منظور ہی تھے لیکن ان کا منظور اشرف صاحبان یا موسیقار ایم اشرف سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی اپنی شناخت“ ماسٹر منظور، شاہ عالمی والے ”کی حیثیت سے ہے اور اس گیت کے ساتھ اسی نام سے ان کی پہچان ہونا چاہیے۔ تم ضرور اس غلطی کو اپنے کالم کے ذریعے درست کرو“ ۔

جون بھائی نے کہا: ”جس طرح ہر پڑھا لکھا شخص مصنف نہیں ہوتا اسی طرح موسیقی جاننے والا کمپوزر نہیں ہوتا۔ پاکستان اور ہندوستان میں ہلکی پھلکی موسیقی / لائٹ میوزک کو جب بھی عروج ملا وہ Amature یا ان کی وجہ سے ملا جن میں موسیقی کی خدا داد صلاحیت موجود تھی اور انہوں نے اپنی محنت سے موسیقی کے اسرار و رموز بھی حاصل کیے پھر انہیں استعمال کرتے ہوئے لاجواب کام انجام دیے۔ مثلاً مدن موہن صاحب، شنکر اور جے کشن صاحبان، لکشمی کانت اور پیارے لال صاحبان، خواجہ خورشید انور صاحب، نثار بزمی صاحب وغیرہ۔ اسی طرح فلمی گلوکاروں میں لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے صاحبہ، مکیش، طلعت محمود اور محمد رفیع صاحبان“ ۔

ایک دلچسپ واقعہ:

ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے کہا: ”یہ 60 کی دہائی کا ذکر ہے۔ سی ارجن نام کے ہمارے ایک پیر بھائی تھے جن کی پاکستان چوک میں گھڑیوں کی دکان تھی۔ ہم دونوں کے ایک اور پیر بھائی، سی لکشمی چند، بمبئی میں رہا کرتے تھے۔ میرا بمبئی جانے کا ارادہ ہوا۔ ارجن صاحب بھی ساتھ چلے۔ وہاں میں نے لتا جی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ ادھر جس نے بھی اس بات کو سنا اس نے کہا کہ وہ کب کسی سے ملتی ہیں۔ میں نے کہا کوشش کر دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ اس طرح میں اور سی ارجن لتا جی کے گھر پہنچ گئے۔ اس

زمانے میں وزٹنگ کارڈ کہاں ہوتے تھے لہٰذا ایک پرچہ پر ایس بی جون، پاکستان سے، لکھ کر ملازم کو دروازہ پر دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اسی ملازم نے ہم دونوں کو ایک بڑی سی بیٹھک میں پہنچا دیا۔ اس وسیع کمرے میں ایک بھی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس سے اندازہ ہوتا کہ یہ کسی گلوکارہ کی بیٹھک ہے۔ کمرے میں ”گرنڈک“ کا ریڈیو گرام رکھا ہوا تھا۔ اس کے اوپر فریم میں امریکی پیانسٹ اور گلوکار نیٹ کنگ کول Nat King Cole کی تصویر رکھی ہوئی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑے خوش دلی کے ساتھ لتا جی نمودار ہوئیں اور کہا: ”آپ کا نام بہت سنا اب مل کر بہت اچھا لگ رہا ہے“ ۔ ”اس ملاقات میں پاکستان کی فلموں اور موسیقاروں، گلوکاروں پر کافی باتیں ہوئیں۔ پھر میں اور ارجن لتا جی سے اجازت لے کر اوشا کھنا سے ملنے ایک ریکارڈنگ اسٹوڈیو چلے گئے۔

موسیقار اوشا کھنہ ( 7 0 اکتوبر 1941 سے جولائی 2016 ) :

مجھے اتنا تو پتا ہی تھا کہ اوشا کھنہ بھارت کی ایک مشہور خاتون موسیقار ہیں۔ ان کے بعض گیت مجھے زبانی یاد بھی تھے لیکن ان کے بارے میں مزید جاننے کا شوق مجھے پلے بیک سنگر ایس بی جون صاحب نے دلایا۔ انہوں نے ایک مرتبہ اوشا کھنہ کا ذکر کیا تو میں نے بے اختیار ان سے تفصیل پوچھی۔ پاک و ہند میں اس موسیقار کو جتنی اہمیت ملنا چاہیے تھی وہ انہیں کبھی بھی نہیں دی گئی۔ میں موصوفہ کے بارے میں بہت شوق سے تحقیق کر تا تھا۔

کیوں نہ کرتا پاکستان کی اولین خاتون موسیقار شمیم نازلی کی طرح یہ بھارت کی سب سے زیادہ کامیاب پہلی خاتون موسیقار جو ہیں۔ میں نے جون بھائی سے اوشا کھنہ کے بارے میں اور جاننے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ان کے فیملی فرینڈ ہیں۔ کچھ ان سے، کچھ دیگر ذرائع سے معلومات حاصل ہوئیں جس سے اوشا کھنہ کی کہانی بہت دل چسپ ہو گئی۔ اوشا کھنہ گوالیار میں 7 اکتوبر 1941 کو پیدا ہوئیں۔ گوالیار کی مٹی موسیقی کے معاملے میں نہایت ہی زرخیز واقع ہوئی ہے۔

دور کیوں جائیں! میاں تان سین کا نام ہی کافی ہے! یہ یہاں پیدا ہوئے اور یہیں ان کی قبر بھی ہے۔ اب بھی بہت سے لوگ ’سر‘ کو پکا کرنے اور آواز میں تاثیر حاصل کرنے میاں صاحب کی قبر پر لگی بیری کے پتوں سے فیض اٹھانے جاتے ہیں۔ روایت کی جاتی ہے کہ یہ بیری میاں تان سین کے ہاتھ کی لگائی ہوئی بیری کا ہی تسلسل ہے۔ اوشا کے شاعر اور گلوکار والد، منوہر کھنہ ریاست گوالیار کے واٹر اینڈ ورکس ڈپارٹمنٹ میں ملازم تھے۔

کسی کام سے 1946 میں بمبئی آئے تو اداکارہ نرگس کی والدہ ’جدن بائی‘ سے ملاقات ہوئی جو بھارتی فلمی صنعت کی دوسری خاتون موسیقار ہیں۔ یہ 1930 کی دہائی میں فعال تھیں۔ پہلی خاتون موسیقار خاتون ’سرس وتی‘ ہیں جن کا کام 1930 سے 1950 تک گاہے بگاہے منظر پر آتا رہا۔ جدن بائی کی فلم کمپنی ’نرگس آرٹ پروڈکشن‘ نے منوہر صاحب کو گیت نگاری کی پیشکش کی۔ فلم ”رومیو اینڈ جولیٹ ’‘ کے لئے انہوں نے 3 غزلیں ’جاوید انور‘ کے قلمی نام سے لکھیں جس کا انہیں 800 روپے معاوضہ ملا۔

اس وقت ریاست سے ان کو 250 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ یوں شاعری اور موسیقی میں ننھی اوشا نے ہوش سنبھالا۔ ایک کہاوت یہاں صادر آ رہی ہے“ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ”۔ شروع سے ہی اوشا کا لگاؤ موسیقی ترتیب دینے کی طرف تھا۔ والد سے ہارمونیم پر چند بنیادی باتیں جیسے سبتک اور سرگرم وغیرہ سمجھ کر خوب مشق کی البتہ راگ راگنیاں اور کلاسیکل موسیقی کا کسی سے کوئی درس نہیں لیا۔ اسکول اور ہائی اسکول کے زمانے میں اوشا نے غزلوں اور گیتوں کی دھنیں بنانا شروع کر دیں۔ جہاں اس کے والد نے کوئی نیا گیت یا غزل لکھی وہیں اوشا نے اس کی طرز بنائی۔ اوشا جب مستند فلمی موسیقار بن چکی تھی تب ان کے والد نے کسی سوال کا یہ یادگار جواب دیا :“ اوشا کو موسیقی تو نہیں صرف کمپوزیشن آتی ہے ”۔ بے شک یہ ایک خدائی عطیہ تھا۔

جس طرح کبھی گیت نگار ’اندیور‘ نے اوشا کھنہ کو فلموں میں متعارف کروایا تھا اسی طرح اوشا نے بھی ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں بلکہ 6 گلوکاروں کو متعارف کروایا: پنکج اداس، ہیم لتا، محمد عزیز، شبیر کمار، ادت نرائن اور سونو نگم۔ ان سب کو اوشا نے ہی سب سے پہلے گانے کا موقع دیا۔

عجیب معاملہ:

بہرحال ذکر ہو رہا تھا جون بھائی کے اوشا کھنہ کی ریکارڈنگ اسٹوڈیو جانے کا۔ وہاں ایک عجیب معاملہ ہوا۔ ملتے ہی اوشا نے پوچھا :

” اصلی ایس بی جون ہو یا جعلی؟“ ۔
اس پر جون بھائی بڑے حیران ہوئے تب اوشا نے کہا :
” پہلے اپنا گیت گا کر سنائیے“ ۔ استھائی سن کر کہنے لگیں :
” ہاں یقین آ گیا“ ۔
” کیا معاملہ ہے؟“ ۔ جون بھائی نے پوچھا۔

” ایک صاحب پاکستان کے فلمی گلوکار سلیم رضا بن کر بمبئی میں گھومتے رہے ہیں۔ یہ جعلی سلیم رضا بن کر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اسی لئے میں نے تسلی چاہی۔“ ۔ تو اوشا نے کہا۔

جون بھائی نے بتایا کہ پھر اس واقعہ کے بعد ہم اوشا کے فیملی فرینڈ ہو گئے۔

اوشا کے ہاں آشا بھوسلے کے کسی فلمی گیت کی صدا بندی ہو رہی تھی۔ اتنے میں گلوکار سریش واڈیکر آ گئے۔ اوشا نے جب تعارف کرایا کہ یہ ایس بی جون ہیں۔ پاکستان سے آئے ہیں تو انہوں نے رواج کے مطابق پاؤں چھوئے ”۔

آج کل کی موسیقی کے معیار پر بات ہوئی تو جون بھائی نے کہا: ”پہلے گانا سنا جاتا تھا اب دیکھا جاتا ہے۔ اب فنکار، فنکار نہیں بلکہ Entertainer یا تفریح مہیا کرنے والا بن گیا“ ۔

جون بھائی نے اپنا مقام بنا نے کے لئے ان تھک محنت کی ہے۔ ان کی کامیابی کئی میدانوں میں ہے۔ موسیقی اور گلوکاری میں ریڈیو، اسٹیج، فلم اور ٹیلی وژن۔ اپنے گھر میں بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت۔ رزق حلال کے لئے ملازمت کی کیوں کہ موسیقی اور گلوکاری ان کا معاش نہیں تھا۔ منطق کے لحاظ سے پہلے ہی فلمی گیت کی کامیابی کے بعد ان کا اگلا قدم لاہور جانے کا ہونا چاہیے تھا جہاں کامیابی ان کی منتظر ہوتی۔ حالات کے اشارے بھی یہی کہہ رہے تھے۔ لیکن اپنی زندگی کے اس قدر اہم موڑ پر جون بھائی نے اپنے خاندان، گھر اور شہر کو ترجیح دی۔ وہ ایک بنا بنایا سیٹ اپ چھوڑ کر نئی جگہ کا خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ ان کا یہ فیصلہ بالکل ٹھیک ثابت ہوا اور اللہ نے اسی شہر میں جون بھائی کو عزت اور مقام عطا کیا۔

باتوں باتوں میں ذکر آیا کہ ایک مرتبہ ہندوستان کے نامور ہدایت کار مہیش بھٹ، ڈیفنس کراچی میں کسی کے ہاں مہمان ٹھہرے۔ اگلی صبح انہوں نے فرمائش کی کہ ایس بی جون کا گایا ہوا گراموفون ریکارڈ ”تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے“ درکار ہے۔ وہاں پر صدف آڈیو ویڈیو والے خالد موجود تھے۔ وہ جون بھائی کے مداح تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان سے ملاقات ہی کروا دیں تو؟ اس پر مہیش بھٹ بہت پرجوش ہو گئے اور جون بھائی سے ملنے اور ان کو سننے کی درخواست کی۔ اس طرح اسی شام جون بھائی اپنے بیٹے گلین جون Glenn John کے ساتھ ڈیفنس میں موجود تھے۔ اس ملاقات کے بارے میں جون بھائی نے بتایا :

” مہیش بھٹ نے کہا کہ میری امی آپ کا گایا ہوا فلم سویرا کا گیت اکثر گنگنایا کرتی تھیں۔ پھر کہیں سے ہمارے ہاں وہ گراموفون ریکارڈ بھی آ گیا اور میں بھی وہ گیت سنا کرتا تھا۔ آج آپ کو دیکھ رہا ہوں تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں! پھر جب گیت اور غزلوں کا دور چلا تو اس دوران کچھ نغمات گلین نے بھی سنائے اس پر بے ساختہ مہیش بھٹ صاحب نے اس سے کہا کہ تم اپنے والد کا گایا ہوا گیت : تو جو نہیں ہے۔ سنا سکتے ہو؟ جب اس نے سنایا تو ایک دم انہوں نے کہا کہ میں ایک فلم بنا رہا ہوں“ وہ لمحے ”! اگر آپ اجازت دیں تو گلین کی آواز میں آپ کا گیت ریکارڈ کروا کر فلم میں شامل کر لوں؟ یوں وہ گیت فلم کے لئے ریکارڈ ہوا“ ۔

مہیش بھٹ نے، مصنف اور فلمساز کی حیثیت سے فلم ’وہ لمحے‘ بنائی جو 29 ستمبر 2006 کو ہندوستان میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔

یہ درست ہے کہ جون بھائی نے پلے بیک سنگنگ نہیں کی لیکن گائیکی اور دھنیں مرتب کرنے میں اپنا ایک نام بنایا۔ 1960 کی دہائی میں ہمارے ملک کے نامور موسیقار سہیل رعنا نے اپنے والد، رعنا اکبر آبادی کی لکھی ہوئی غزل : ’اڑے ہوش اس در پہ جانے سے پہلے۔‘ EMI گراموفون کمپنی آف پاکستان میں ایس بی جون کی آواز میں ریکارڈ کروائی۔

ریڈیو پاکستان سے ابن انشاء کی غزل: ’کل چودھویں کی رات تھی۔‘ جون بھائی کی آواز میں اکثر نشر ہوتی ہے۔ اس کی دھن انہوں نے خود مرتب کی۔ میں بھی کبھی کبھار محفلوں میں ان ہی کی طرز والی سناتا ہوں۔ آج موسیقار زیڈ ایچ فہیم صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا : ”یہ گیت میری موجودگی میں جون بھائی نے اپنے گھر میں کمپوز کیا“ ۔

” میں پہلے پاکستانی، پھر عقیدہ کے لحاظ سے کرسچن ہوں۔ مجھے اکثر یہ شکایت سننے کو ملتی تھی کہ ہم کرسچن لوگوں کو آگے بڑھنے کے مواقع کم ملتے ہیں۔ میں ہمیشہ انہیں کہتا کہ اقلیت کو اکثریت کا مقابلہ کرنے کے لئے سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی حقیقت ہے! فنکار کی صلاحیت اور اہلیت اسے آگے بڑھاتی ہے۔ فنکار کو اس کے مذہب اور نام سے نہیں اس کے کام سے واہ واہ یا ستائش ملتی ہے۔ مجھے بھی میری عمر بھر کی محنت اور کاوشوں کا صلہ 2011 میں ملا جب صد ر پاکستان نے مجھے تمغہ حسن کارکردگی دیا“ ۔

جون بھائی کا تعلق ایک با عزت کر سچن گھرانے سے تھا۔ اتنی شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے پیسے کو اوڑھنا بچھونا نہیں بنایا۔ گانے کو شوق کی حد تک رکھا اور قناعت کے ساتھ اپنے بچوں کی پرورش کی۔ اس کے نتیجے میں ان کی اولاد سعادت مند اور فرماں بردار نکلی۔ گزشتہ کئی سالوں سے جون بھائی ریٹائرڈ زندگی کا لطف لے رہے تھے۔ آنا جانا کم ہو گیا تھا لیکن ان کی محبت، خلوص اور مہمان نوازی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ سنی بینجمن جون المعروف ایس بی جون پاکستان کا ایک قابل فخر اثاثہ ہیں۔

1965 اور 1971 کی جنگیں او ر ایس بی جون:

ریڈیو پاکستان کراچی کے لائبریرین آفتاب بھائی (م) نے مجھے 1984 میں بتایا تھا کہ جون بھائی نے جنگ ستمبر 1965 میں 8 گیت ریکارڈ کروائے۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں کا ذکر ہوا تو ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ”ادھر شاعر گیت لکھتے ادھر موسیقار فنکاروں کو ریہرسل کروانے لگتے اور کم سے کم وقت میں ریکارڈ کرنے کی کوشش کرتے“ ۔

” جون بھائی 71 کی جنگ میں آپ نے بھی کچھ جنگی گیت ریکارڈ کروائے تھے۔ ان کے بارے میں کچھ بتائیں؟“ ۔ میں نے ان سے سوال کیا۔

” اس جنگ کے دوران ساقی جا وید کے لکھے ہوئے ایک گیت کی بہت تاریخی حیثیت ہے۔ جس کو میں نے کمپوز کیا اور اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا : اے ارض وطن تو ہی بتا تیری صدا پر

کیا ہم نے کبھی فرض سے انکار کیا ہے
اس نغمے کے ذکر میں ایک دلچسپ بات بتلائی۔

” بھٹو صاحب کا بالکل ابتدائی دور تھا جب اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر ایک مینارٹی کانفرنس Minority منعقد ہوئی۔ بھٹو صاحب اور کوثر نیازی کے بعد مجھے روسٹرم پر بلوایا گیا۔ میں نے وہاں یہی ملی نغمہ سنایا۔ ابھی پہلا شعر ہی ادا کیا تھا کہ بھٹو صاحب نے اور دیگر حاضرین نے خوشی کا اظہار کیا اور حوصلہ بڑھایا۔ نغمہ ختم ہوا تو بھٹو صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کس کا لکھا ہوا ہے؟ میں نے ساقیؔ جاوید کا نام لیا۔ پھر پوچھا کہ کس نے دھن بنائی تھی۔ جب میں نے کہا کہ میں نے بنائی تو اپنے پاس بلوایا اور کہا کہ شام کے سیشن میں بھی یہ نغمہ سنانا“ ۔

پھر جون بھائی نے شام کو بھی یہ نغمہ سنایا۔ گویا پاکستان کی اقلیتیں کہہ رہی ہیں کہ جنگ ہو یا امن! ہم نے اپنے فرائض نہایت ذمہ داری سے ادا کیے اور جنگوں میں اپنے وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا! ”۔

جون بھائی نے بیشک صحیح کہا۔ اسکوارڈن لیڈر ( میجر) پیٹر کرسٹی Peter Christy جنہوں نے جنگ ستمبر میں حصہ لیا اور 6 دسمبر 1971 کو بھارتی ائر فورس کے بیس جام نگر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر واپسی پر ملک اور قوم کی خاطر شہید ہو گئے۔ انہیں تمغہ جرات ( 1965 ) ، ستارہ جرات ( 1971 ) سے نوازا گیا۔ پھر سسل چوہدری کا نام بھلا کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ یہ 1965 کی جنگ میں لاہور شہر کے اوپر ڈاگ فائٹ اور 6 ستمبر ہلواڑہ ایر بیس کے ”رن وے“ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ’ہلواڑہ پیٹنے‘ والے معرکے کے ہیرو ہیں۔

ہم ان کے یوں بھی شکر گزار ہیں کہ ان کے وجہ سے نیا محاورہ ”ہلواڑہ پیٹنا“ وجود میں آیا۔ سسل چوہدری نے 1971 کی جنگ میں اسکوارڈن لیڈر کی حیثیت سے بھی حصہ لیا۔ انہیں 1965 کے معرکہ میں ستارہ جرت اور 1971 کی جنگ میں تمغہ جرات دیا گیا۔ جون بھائی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ سسل چوہدری ان کی بیٹی کے چچا سسر تھے۔ ہم ان پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ اور یقیناً یہ کرسچن برادری کے لئے بھی ایک اعزاز ہیں۔

ایس بی جون صاحب کے انتقال پر ان کے ساتھیوں کے تاثرات:
زیڈ ایچ فہیم:

” ہماری فیلڈ میں بے شمار لوگ آتے اور جاتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کے چلے جانے کا بہت دکھ ہوتا ہے۔ جون بھائی چلے گئے۔ بہت دکھ او ر افسوس ہے جو بیان نہیں کر سکتا۔ ان کے ساتھ ہمارا بہت اچھا وقت گزرا۔ ہم نے وہ زمانہ بھی دیکھا کہ ریڈیو پاکستان کے باہر گھاس پر بیٹھے ہیں کہ کب کوئی آواز دے گا تو اندر جائیں گے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب ماسٹر منظور حسین صاحب نے ان کو منتخب کیا اور فلم“ سویرا۔ ”کے لئے فیاضؔ ہاشمی کا گیت ریکارڈ ہوا جو امر ہو گیا۔

میں نے ایس بی جون سے پوچھا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ اور کچھ کیوں نہیں گایا تو انہوں نے جواب دیا :“ مجھے اللہ نے ایک گانے سے اتنی عزت دے دی ہے جو لوگ دو سو گانے گا کر بھی حاصل نہیں کر سکتے ”۔ ابھی حال ہی میں موسیقی کے کسی پروگرام میں وہ ہمارے ساتھ بطور جج بیٹھے تھے۔ اس میں ایک خاتون نے بہت اچھا گایا لیکن ایک جگہ خاصی بے سری ہو کے نکلیں۔ جون نے فوراً کہہ دیا کی میں انہیں مسترد کرتا ہوں۔ میں نے کہا کہ تھوڑی سی رعایت۔ کہنے لگے کہ نہیں انصاف تو انصاف ہے۔ یہ ہی جج کا کام ہے!“ ۔

” پھر وہ بھی کیا وقت تھا جب سلیم رضا کینیڈا جا رہے تھے۔ اس روز رات کے تین بجے تک ایس بی جون، میں اور اے نیر بھی موجود تھے۔ ہم لوگ گاتے بجاتے رہے۔ جب سلیم رضا کی پرواز کا وقت ہوا تو انہوں نے ایس بی جون کو مخاطب کر کے کہا :“ جون! پتا نہیں اب دنیا میں ہماری دوبارہ ملاقات ہوتی بھی ہے یا نہیں! ”۔ اور وہی ہوا۔ کینیڈا سے ان کی میت ہی یہاں آئی۔ اب آج کل کے لوگوں کو یہ باتیں معلوم نہیں۔ انٹر نیٹ پر آپ کو کئی لوگ فلم ’سویرا‘ میں ان کا گانا توڑ مروڑ کر گاتے ملیں گے۔ ایک زمانہ بیت گیا لیکن اس گانے میں اتنی دلکشی ہے کہ لوگ اب بھی وہ گیت گانا اور سننا چاہتے ہیں“ ۔

” ہم دونوں نے اسٹیج پر بھی ایک ساتھ بہت کام کیا۔ جون بھائی کو اس وقت مقبولیت ملی جب مہدی حسن منظر میں نہیں تھے۔ بعد میں پھر ان میں بہت گہری دوستی بھی ہوئی۔ ان کی زندگی کے آخری چھ سال بہت کٹھن گزرے۔ انہوں نے کبھی اپنا ذاتی دکھ یا پریشانی ہم سے نہیں کہی۔ ہم سے ہماری مصروفیات پوچھتے لیکن ا پنی بات کو چھپا جاتے تھے۔ ہم سمجھ جاتے کہ یہ بتانا نہیں چاہتے۔ ہم نے کراچی میں کروڑ اور ارب پتی لوگ بھی دیکھے ہیں لیکن انہوں نے جون کے ہاتھ پر ’چونی‘ نہیں رکھی۔ بہت بے حس لوگ ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے اسی قبیل کے ایک شخص نے مجھ سے بات کی کہ ایس بی جون کو لے کر آؤ۔ میں نے کہا کہ تم ان کی کیا مدد کرو گے؟ تو وہ اس بات کو پی گئے اور جواب ہی نہیں دیا“ ۔

سلامت حسین بانسری نواز:

” جون میرے پرانے زمانے کے دوست تھے۔ میں ان کی محبت اور اخلاق کی کیا تعریف کروں! میری ان سے پہلی ملاقات ریڈیو پاکستان میں ہوئی۔ میں نے ان کے بڑے فنکشن کیے ۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ فلم اسٹوڈیو پہنچے۔ ماسٹر منظور ان کو سن کر بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ اس سے گانا کروا لیں گے۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ جون کو گانا ملا تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اس زمانے میں کراچی فلم انڈسٹری میں بڑی گہما گہمی ہوتی تھی۔

کوئی اسٹوڈیو جا رہا ہے تو کوئی ریڈیو جا رہا ہے! یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ جون کے گانے میں ماسٹر منظور نے مجھے بانسری کا کوئی ’پیس‘ نہیں دیا تھا۔ مجھے انہوں نے کچھ دیر سنا اور پھر رکارڈنگ کے وقت کہا کہ وائلن والوں کے ساتھ بیٹھ کر بولوں پر بانسری بجاؤں۔ پھر میں نے بولوں پر بانسری پر بجائی۔ ماسٹر صاحب بڑے خوش ہوئے“ ۔

” جون کے بیٹے روبن سے مجھے بڑا پیار تھا۔ وہ میری ریکارڈنگ میں کی بورڈ بجانے لگا تھا۔ میں نے جب بھی اپنے آئٹموں کے لئے روبن کو بلوایا۔ وہ ہمیشہ کہتا :“ انکل میں آ جاؤں گا! ”۔ اب اللہ نے اسے کینیڈا میں بہت اچھا مقام دے دیا“ ۔

سلمان علوی:

نامور ادبی شخصیت، محقق، مترجم اور شاعر جناب شان الحق حقی صاحب کے فرزند عدنان الحق حقی، بچپن کے میرے پڑوسی سید نجیب احمد کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ عدنان کو دیکھ کر ہی مجھے ہارمونیم بجانے کا شوق ہوا۔ یہ بہت اچھا گاتے بھی ہیں۔ نامور ٹیلی وژن گلوکار سلمان علوی ان کے بھتیجے ہیں اس لئے نجیب اور عدنان کی وجہ سے میری ان سے بھی سلام دعا ہے۔ یہ ایس بی جون صاحب کے قریب رہے ہیں۔ ان سے جون بھائی کے انتقال پر کچھ بات چیت ہوئی:

” ہم تو جون بھائی کو تب سے دیکھ رہے ہیں جب ریڈیو سے پروگرام کرتے تھے۔ اس وقت بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتنے بڑے آدمی ہیں! ان کا گانا ’تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ مجھ سمیت، پوپ اور غزل گانے والے ہر ایک فنکار نے ان کا یہ گانا کبھی نا کبھی ضرور گایا ہو گا۔ جون بھائی سے بچپن کی ملاقاتیں یاد نہیں مگر ٹیلی وژن پر بہت ملاقاتیں ہوئیں۔ لیکن حد ادب ہمیشہ سامنے رہا اور بات رسمی دعا سلام سے آگے نہ بڑھی۔

ہاں! البتہ ان کے بیٹے، روبن سے بہت اچھی دوستی ہو گئی کیوں کہ وہ بھی میوزک انڈسٹری سے تعلق رکھتا اور بہت اچھا کی بورڈ میوزیشن اور ہمارا ہم عمر تھا۔ اس وقت ہمارا بھی ایک بینڈ ’رین ڈراپس‘ تھا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں، اس میں آپ بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ روبن نے تو فلموں کے لئے بھی بجایا ہے۔ پھر اس کا بھائی ’ببلو‘ بیس گٹار بہت ہی عمدہ بجاتا تھا۔ ان دونوں سے ہماری ملاقات جون بھائی کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ لیکن وہ جب بھی ملتے بہت شفقت سے ملتے“ ۔

” جب میں نے غزل گانا شروع کی تب ان سے زیادہ ملاقاتیں ہوئیں۔ پھر اس میں کچھ میری عمر کی پختگی بھی شامل ہو گئی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ ملے ہوں اور ہمیں پاس بٹھا کر نہ پوچھا ہو کہ میاں آج کل کیا بنا رہے ہو؟ کرتے رہا کرو! اس کو جاری رکھو۔ وغیرہ۔ پھر کوئی آٹھ دس سال قبل یہ حالیہ دور شروع ہوا جس میں ان سے زیادہ ملاقاتیں ہوئیں۔ ہر سال پروگرام“ ابھرتے ستارے ”ہوتا تھا۔ جس میں اسکول اور کالج کے بچوں کے درمیان موسیقی کے مقابلے منعقد ہوتے اور اس سے نئے باصلاحیت فنکار سامنے آتے۔

اس پروگرام میں چار پانچ جج ہوتے ہیں۔ جون بھائی کے ساتھ ان میں ٹینا ثانی، اظہر حسین کی بورڈ میوزیشن اور میں بھی ہوتا تھا۔ وہ کافی با خبر تھے۔ کسی بھی صحیح گانے والے کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے۔ مجھے کہا کرتے کہ فلاں آرٹسٹ آیا ہے بہت سر میں گاتا ہے۔ تم بھی سنو! ۔ مجھے اس بات کا ہمیشہ افسوس رہے گا کہ انہوں نے مجھے کئی ایک مرتبہ کہا کہ میاں کبھی میرے گھر آؤ یا ہمیں اپنے ہاں بلاؤ۔ کچھ بیٹھیں

گے۔ یہ میری ہی کوتاہی ہے۔ مجھے ان کے پاس چلے جانا چاہیے تھا۔ وہ کچھ تنہا بھی تو ہو گئے تھے۔ تین بیٹے سمندر پار ممالک میں چلے گئے۔ ایک ہی یہاں رہ گیا۔ ”۔

میں نے 2019 میں آرٹس کونسل کراچی میں جون بھائی اور سلامت بھائی کے ساتھ بہت خوشگوار وقت گزارا۔ اس وقت کی تصاویر اب میرا خزانہ ہیں! میری باقاعدگی سے جون بھائی کے ساتھ فون پر بات چیت ہوتی تھی۔ وہ مزاج کے بڑے دھیمے واقع ہوئے تھے۔ شستہ مذاق کرتے تھے۔ یقیناً جون بھائی ایک پر خلوص اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ نومبر 2017 میں میرے بڑے بھائی فاروق لطیف صاحب کے دل کا آپریشن ہوا۔ میں کراچی میں ہی تھا۔ حسب معمول جون بھائی سے رابطہ تھا۔ آپریشن سے پہلے جو اتوار آیا تو جون بھائی نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آج میں نے اپنے چرچ میں تمہارے بھائی کے لئے خصوصی دعا کروائی ہے۔ اور جب تک تمہارے بھائی اسپتال میں ہیں میں ہر سروس میں ان کے لئے دعا کرواؤں گا۔

اب ایسے پرخلوص لوگ کہاں!
۔ ۔
اختتام

ش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments