ماں باپ کبھی بوڑھے نہیں ہوتے


دو لوگ، دو مختلف اجناس کے انسان، مختلف رویوں اور سوچوں کے حامل انسان جب رشتہ ازدواج میں باندھ دیے جاتے ہیں تو قدرت ایک مٹھاس اور الگ قسم کے جذبات اس رشتے میں مقید لوگوں کا مقدر بنا دیتی ہے۔ مگر قدرت کے ان تمام احسانات کے باوجود بھی رہتے وہ دو لوگ عام انسان ہی ہیں۔ ان کے جذبات، ان کی عمر کا ڈھلنے کا تسلسل بالکل باقی عام انسانوں کی طرح ہی چل رہا ہوتا ہے۔ لیکن قدرت اس رشتے کو ایک نیا رخ تب دیتی ہے جب اس رشتے میں اولاد جیسی نعمت کی ملاوٹ کر دی جاتی ہے۔ یہ نعمت ان دو لوگوں کی ترجیحات اور زاویہ نظر کو یکسر تبدیل کر دیتی ہے کیونکہ اب وہ دو لوگ محض دو مختلف اجناس نہیں رہتے ایک ماں اور ایک باپ کا روپ دھار لیتے ہیں اور ان دو الگ شناختوں کو ملانے والا پوائنٹ اولاد ہی ہوتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ماں اور باپ دونوں کے بالوں میں چاندی اترنے لگتی ہے، جب نزدیک کا چشمہ موٹا سے موٹا ہونے لگتا ہے تو یہ دو لوگ بظاہر دنیا کو بوڑھے ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ماں اور باپ دونوں کبھی بھی بوڑھے نہیں ہوتے۔ باطن کی دنیا میں ان دو لوگوں کی زندگی کے دن اولاد کے قد کے ساتھ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بظاہر باپ کی کمر جھکی ہوئی نظر آ رہی ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے بیٹا جوان ہو رہا ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی اس باپ کو اپنی کمر اور کاندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ ہلکا ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہوتا ہے، ایک ماں اولاد کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں دیکھ کر دن بہ دن مزید جوان ہو رہی ہوتی ہے۔

جیسے جیسے اولاد کی عمر بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے ماں باپ پھر سے جوان ہونے لگتے ہیں۔ لیکن کچھ بدنصیب ماں باپ بہت جلد دوبارہ وہی مرد عورت، وہی دو مختلف اجناس کے دائرے میں داخل کر دیے جاتے ہیں، ان کی آنکھیں سدا کے لئے چشموں کی محتاج ہی رہتی ہیں، ان کی کمر جیسے ظاہری طور پر پر جھکی ہوئی ہوتی ہے باطن کی دنیا میں بھی بالکل ویسے ہی جھکی رہتی ہے۔ پتہ ہے یہ کون سے ماں باپ ہوتے ہیں؟ جن کی اولادیں ان کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں پھر وہ بے شک اس دنیا میں کہیں کھو گئی ہوں یا ان سے پہلے اگلے جہاں کو کوچ کر گئی ہوں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔

میں ہمیشہ سے ماں باپ اور اولاد کی مشترکہ عمر کی بڑھوتری کی اس تھیوری کا قائل رہا ہوں۔ مگر جیسے ہی کسی جوان لاشے کا جنازہ دیکھتا ہوں جس کے ساتھ ساتھ باپ کی خالی اور ویران آنکھیں نظر آتی ہیں وہ باپ جسے چند منٹ پہلے ہی واپس مرد بنا دیا گیا ہو، جس کے کندھے اترے ہوئے ہوں اور جس کی کمر معمول سے زیادہ جھکی ہوئی دکھائی دیتی ہو تو میری ساری سوچیں خالی گھڑے میں جا گرتی ہیں اور اندر سے ایک آواز آتی ہے کہ ماں باپ بوڑھے نہیں ہوتے لیکن وہ مرد اور وہ عورت ضرور بوڑھے ہوتے ہیں اور معمول سے زیادہ جلدی ہوتے ہیں جو ماضی میں کبھی ماں اور باپ رہ چکے ہوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments