پانی کی سیاست اور فواد چوہدری کے فتوے


پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے حکومت کے ان الزامات کی تردید کردی جس میں بلاول بھٹو یا مراد علی شاہ کو قوم پرست کہا گیا تھا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پانی کی تقسیم ہو ترقیاتی منصوبوں کی بات، صوبے کی بات اگر وزیراعلیٰ نہیں کرے گا تو کیا وہ جرمنی اور جاپان کی بات کرے گا، پھر اور صوبے کا مقدمہ اگر وزیراعلی نہیں تو کیا ٹرمپ آ کر یہ مقدمہ لڑے گا؟

اصل میں بلاول بھٹو وفاقی وزیراطلاعات کی اس پریس کانفرنس پر رد عمل دے رہے تھے جس میں وزیر موصوف نے کہا تھا کہ بلاول پانی کی اور مراد علی شاہ ترقیاتی منصوبوں کی بات کر کے سندھ کارڈ کھیل رہے ہیں، وفاق کی نمائندہ پیپلز پارٹی قوم پرستی کر رہی ہے۔

میں نے پہلے ہی ایک مضموں میں لکھا تھا کہ قوم پرستی کوئی جرم، گناہ کوئی برائی نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز قوم پرست نہیں وفاق پرست جماعتیں ہیں اب تو دونوں جماعتوں کو اقتدار پرست جماعتیں ہی کہنا بہتر ہے کیوں کہ اب عوام کے نام پر سیاست کر کے ان ہی کو سیڑھی بنا کر اقتدار تک پہنچنا ان جماعتوں اولین مقصد ہے۔

سنتے آ رہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی پر ہوں گی، یہ لازمی نہیں کہ وہ جنگیں دشمن سمجھے جانے والے ممالک کے بیچ میں ہوں، ایسی جنگیں ایک ملک کی ریاستوں یا صوبوں کے مابین بھی ہو سکتی ہیں۔

پانی اس ملک کا حساس معاملہ رہا ہے، دریا بیچنے والے آمر کو اس بات کا احساس ہی نہیں تھا کہ وہ مستقبل کو صحراء کر رہا ہے، اپنی زمین کو بنجر کر رہا ہے، پانی بیچنے سے لے کر اپنے شہریوں کو بیچنے تک سب دھندے ہمارے آمروں نے کیے لینے اعزازات سے سلامی میں ان کی تدفین ہوئی۔ پانی جتنی حساس وزارت بھی جھوٹے حلف نامہ دینے والے ایک غیر سنجیدہ قسم کے وزیر کے حوالے کی گئی ہے، پانی کی تقسیم جس ادارے یعنی ارسا کو دے کر دودھ کی رکھوالی کے لئے بلے کو بٹھا دیا گیا ہے۔

فواد چوہدری کو صوبے کے حقوق کی بات کرنے والے لوگ وفاق سے تعصب کرنے والے نظر آتے ہیں، لیکن سرکاری میڈیا اور فورم پر بیٹھ کر ایسی باتیں کرنے والے سے زیادہ متعصب کون ہو سکتا ہے؟ شاید وزیر موصوف نے آج کل وزیر افواہ سازی، وزیر غلط فہمیات، وزیر غلط بیانی، وزیر جھوٹ کھسوٹ، وزیر بھڑک بازی اور وزیر نعرے بازی کی بھی چارج لے رکھی ہے، ہیلی کاپٹر 55 روپیہ فی کلومیٹر تیل پر چلانے کا سارا کریڈٹ ان اسی وزیر کو جاتا ہے، یہ کہاں لکھا ہوا ہے صوبے اس کے وسائل، مسائل اور حقوق کی بات کرنا قوم پرستی یا وفاق سے تعصب پرستی ہے، یہ سب اسلام آباد کو مضبوط بنا کر وسائل کے قبضہ برقرار رکھنے والے مفروضے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو وفاق پرست تھے، بینظیر بھٹو چاروں صوبوں کی زنجیر تھی آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، پیپلز پارٹی والے تو بس میں ہو تو سندھ کو بیچ کے بھی وہ وفاق کو بچانے کے چکر میں ہیں۔

وفاق کو چلانے کے لیے پانی سمیت تمام وسائل پر صوبوں سے اٹھنے والی آوازوں، شکوہ اور شکایات کو سننا اور حل کرنا پڑے گا۔ پانی کی تقسیم کا کردار ارسا اور سفید ہاتھی واپڈا ادا کرتے ہیں۔ پانی جیسے حساس معاملے پر بنائی گئی اتھارٹی کو اگر پنجاب کا ایریگیشن سیکریٹری، ارسا پنجاب کا ممبر، وفاق میں بیٹھا کوئی جوائنٹ سیکریٹری یا ایڈیشنل سیکریٹری چلائے گا، پھر چھوٹے صوبوں کی بات نہیں مانی جائے گی اور ان کے پانی کے حق کو پاؤں کے نیچے روندے گا تو لڑائی نہیں تو شادیانے بجائے جائیں گے؟

صوبوں میں پانی کی تقسیم کو شفاف بنانے کے لیے 1991 ع میں ایک معاہدہ ہوا، کس صوبے کو کتنا پانی ملے گا؟ وہ اس معاہدے کی پیرا نمبر دو میں درج ہے یعنی صوبوں کا حصہ طے ہے لیکن آج تک بڑے صوبے اور وفاق کی ملی بھگت سے نہ معاہدے پر عمل ہوا نہ ہی پانی کی شفاف تقسیم ہوئی۔

صوبوں اور وفاقی اداروں میں تنازعات کے حل کا آئینی فورم مشترکہ مفادات کی کونسل جب یہ معاملہ شاہد خاقان عباسی کے دور میں سی سی آئی میں آیا تو انہوں نے اٹارنی جنرل کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی صوبوں نے بھی ہاں کردی، وہ شاید ان کی صدارت میں ہونے والا آخری اجلاس تھا، پھر انتخابات کے نتیجے میں سلیکٹڈ حکومت آ گئی، وزیراعظم عمران خان نے یہ معاملہ اٹارنی جنرل انور منصور کے حوالے کر دیا۔

اس سے پہلے کہ اٹارنی جنرل کی رپورٹ پر بات کریں یہ بتانا ضروری ہے کہ ارسا نے پانی کے تقسیم کے لیے معاہدے میں دیے گئے فارمولا کو چھوڑ کر اتھارٹی کی منظوری سے پانی کی تقسیم کے لیے ایک سہ رخی ( تھری ٹئیر) فارمولا بنا ڈالا اور تقسیم اس پر شروع کی تھی جس پر سندھ اور بلوچستان نے آواز بلند کی۔

اٹارنی جنرل انور منصور صاحب نے اس پر اپنی رپورٹ تیار کر کے مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کردی اس رپورٹ کے مطابق ارسا کے بنائے گئے تھری ٹیئر فارمولا کا 91 ع کے معاہدے اور ارسا ایکٹ میں کوئی وجود ہی نہیں، انہوں نے سفارش کی کہ صوبوں میں معاہدہ 1991 ع کے پیرا دو کے تحت پانی تقسیم ہونا چاہیے۔

مشترکہ مفادات کے اس اجلاس میں فواد چوہدری اور عثمان بزدار نے اٹارنی جنرل کی اس رپورٹ پر عمل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس پر عمل ہوا تو ہم پنجاب میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ پھر وزیراعظم نے اس پر ایک اور ایکسپرٹ کمیٹی بٹھا دی معاملہ اب بھی لٹکا ہوا ہے۔

یعنی پانی کے معاملات کا حل سی سی آئی کے پاس ہے اس نے معاہدہ کیا اس پر عمل نہیں ہوا، جب اس کی تشریح کا وقت آیا تو سی سی آئی میں پنجاب کے ممبر فواد چوہدری اور عثمان بزدار رکاوٹ بنے۔ اس وقت کسی نے ان دونوں پر قوم پرستی کا الزام نہیں لگایا۔

فرصت ملے تو اپنا گریبان بھی دیکھ لے اے دوست،
یوں نہ کھیل میری بے بسی کے ساتھ

اوپر سے پنجاب حکومت نے اس پانی کے معاہدے کو کالاباغ ڈیم سے نتھی کر دیا ہے، یہ بیان اب پرانا ہو چکا ہے جس میں انہوں نے 1991 ع کے معاہدے کو اس لیے ناقابل عمل قرار دیا ہے کہ اس پر عمل تب ہوگا جب سسٹم میں پانی 114 ملین ایکڑ فٹ ہوگا، اس کا مطلب کہ جب تک اتنا پانی نہیں ہے تب تک تقسیم غیر قانونی انداز سے ہی چلے گی۔ اوپر سے یہ بھی فرما دیا کہ 114 ملین ایکڑ فٹ پانی تب آئے گا جب کالاباغ ڈیم بنے گا۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments