ہیر رانجھا کی 51ویں سالگرہ: جب لاہور کے سٹوڈیوز میں ’رانجھا‘ کا گاؤں تخت ہزارہ اور ’ہیر‘ کا علاقہ جھنگ سیال بسائے گئے

طاہر سرور میر - صحافی، لاہور


پاکستانی فلم ’ہیر رانجھا‘ کی نمائش تو 19 جون 1970 کو ہوئی لیکن آج 51 برس بعد بھی یہ ایک جنریشن کا ناسٹلجیا، دوسری کا نیشنل پرائڈ اور تیسری نسل کے لیے کلاسک کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔

فلم کی مرکزی کہانی 1776 میں سید وارث شاہ کی لکھی لوک عشقیہ داستان ‘ہیر رانجھا’ سے ماخوذ تھی جس کی ڈرامائی تشکیل احمد راہی نے کی تھی۔

سنہ ساٹھ کی دہائی کے آخر میں جب دو صدیاں پہلے کی اس عشقیہ لوک داستان کو فلم کے پردے پر منتقل کرنے کا خیال آیا تو ‘ہیر’ کے کردار کے لیے فردوس اور ‘رانجھا’ کے لیے اعجاز کا انتخاب کیا گیا۔

فلم کی کہانی اور کرداروں کی مناسبت سے جو دیگر فنکار کاسٹ کیے گئے ان میں اجمل خان، نجم الحسن، سلمیٰ ممتاز، زمرد، عقیل بٹ، رنگیلا اور منور ظریف شامل تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ‘ہیر رانجھا’ کی کاسٹ کرداروں کے لیے یوں موزوں رہی تھی جیسے انگوٹھی میں نگینہ فٹ بیٹھتا ہے۔

اس سے قبل ہدایتکار مسعود پرویز نے اعجاز اور فردوس کی جوڑی کے ساتھ ‘مرزا جٹ’ اور دیگر فلمیں بنائیں جنھوں نے باکس آفس پر دھوم مچائی۔ اعجاز، فردوس اور مسعود پرویز کے فلمی ٹرائیکا کا جادو چلا تو اعجاز کے ذہن میں آئیڈیا آیا کہ مرزا صاحبان کے بعد ہیر رانجھا کی داستان کو بھی فلم کا روپ دینا چاہیے۔

فردوس بیگم کو اصل ہیر بھی دیکھتی تو حیرت زدہ رہ جاتی

فلمساز اعجاز درانی نے ایک کامیاب اور منافع بخش پراجیکٹ کی امید سے ‘ہیر رانجھا’ بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے ہدایتکار کے طور پر مسعود پرویز کا انتخاب کیا جنھوں نے پراجیکٹ کو کامیاب کرانے کے لیے ایک ایسی پیشہ ور ٹیم اکٹھی کی جس نے اپنی محنت سے اسے یادگار بنا دیا۔

فلم کی ٹیم میں موسیقار خواجہ خورشید انور اور شاعر احمد راہی کی جوڑی نے نورجہاں اور منیر حسین سمیت دوسرے گلوکاروں سے ایسے گیت گوائے جنھوں نے مقبولیت کے ریکارڈز قائم کیے اور آج آدھی صدی گزرنے کے بعد ان گیتوں کی حیثیت لوک موسیقی کے طور پر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی ہے۔

ہیر رانجھا کے سنیماٹوگرافر مسعود الرحمان اور منور ایوب تھے جنھوں نے فلم کے ایک ایک فریم کو پینٹنگ کی طرح سجایا۔ خاص طور پر فردوس بیگم کو ہیر کے کردار میں ایسا عکس بند کیا جسے دیکھنے والوں نے کہا کہ ‘فردوس کو اصل ہیر بھی دیکھتی تو حیرت زدہ رہ جاتی’۔

فلم کے دو کردار کیدو (اجمل خان) اور سیدا کھیڑا (منور ظریف) کی پرفارمنس کو خاص طور پر سراہا گیا۔

سنہ 2020 میں اس فلم کی نمائش کی ’گولڈن جوبلی‘ تھی اور اب یہ فلم پلاٹینم جوبلی کی طرف گامزن ہو گئی ہے۔ ممکن ہے آنے والا زمانہ بھی اس شاہکار کو معیار کے سنگھاسن پر بٹھائے۔

وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور اس نصف صدی میں ‘ہیر رانجھا’ کے مرکزی کردار فردوس بیگم، اعجاز ،اجمل خان، سلمیٰ ممتاز، نجم الحسن، عقیل بٹ، رنگیلا اور منور ظریف دنیا سے سدھار گئے۔

‘سن ونجلی دی میٹھڑی تان’ کہنے والی نور جہاں، احمد راہی کی شاعری کو سروں اور تال میں سمونے والے خواجہ خورشید انور بھی چلے گئے۔ پنجابی لوک داستان اور پنجابی سنیما کی اس عظیم کاوش سے وابستہ زیادہ تر نابغہ ہائے روزگار دنیا چھوڑ چکے۔

اداکارہ زمرد بیگم اور فلم کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر امتیاز قیصر وہ خوش نصیب ہیں جو ‘ہیر رانجھا’ کا یہ اعزاز دیکھ رہے ہیں۔ اس موقعہ پر بی بی سی اردو ان دونوں شخصیات کے احساسات اور یادوں کو زیر نظر مضمون میں پیش کر رہا ہے۔

’سہتی‘ کا کردار ادا کرنے والی زمرد بیگم

زمرد بیگم نے جب یہ سنا کہ 19 جون کو ‘ہیر رانجھا’ کو نمائش ہوئے 51 برس بیت گئے ہیں تو ان کے چہرے پر اداسی اور خوشی کا ایک ایسا تاثر ابھرا جسے بیان کرنا مشکل ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘یہ عجیب احساس ہے، یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو، لیکن کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ فلم ہیر رانجھا کی فلم بندی کسی پچھلے جنم کا قصہ ہو۔’

زمرد بیگم کا کہنا تھا کہ ‘مجھے جب اس فلم کے لیے ‘سہتی’ کے کردار کی پیشکش کی گئی تو میں ہیروئن کے طور پر اپنی ایک ممتاز شناخت رکھتی تھی اور میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں ‘ہیر رانجھا’ کی کہانی میں ‘سہتی’ کے کردار سے واقف تھی جو پیار کرنے والوں کی مخالف تھی۔’

‘مجھے اندازہ تھا کہ فلم میں میرا کردار منفی ہے لیکن کہانی کے آخر پر اس میں تبدیلی رونما ہوتی ہے اور سہتی ایک نوجوان مراد بلوچ کے عشق میں گرفتار ہو کر اپنے اندر پیار، محبت اور عشق جیسے عظیم انسانی جذبات کی روشنی محسوس کرتی ہے اور فلم بینوں کی نظر میں ہیروئن بن جاتی ہے۔’

زمرد بیگم کا کہنا تھا کہ ہدایتکار مسعود پرویز کے ساتھ کام کرنا اس زمانے میں ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔

‘وہ بہت بڑے ہدایتکار تھے جنھوں نے ‘انتظار’ ‘کوئل’ اور ‘نکے ہندیاں دا پیار’ جیسی بڑی فلمیں بنا کر پاکستان فلمی صنعت میں ایک برینڈ کی شکل اختیار کر لی تھی اور مجھے جب ‘ہیر رانجھا’ کے لیے سہتی کا کردار آفر کیا گیا تو میں نے اسے بخوشی قبول کیا۔

‘جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج 51 برس بعد بھی بین الاقوامی میڈیا ‘ہیر رانجھا’ اور انفرادی طور پر میرے کام کو سراہ رہا ہے۔’

لاہور کے سٹوڈیوز میں ہی رانجھا کا گاؤں تخت ہزارہ اور ہیر کا علاقہ جھنگ سیال بسائے گئے

زمرد بیگم نے بتایا کہ فلم کی زیادہ ترعکس بندی ایورنیو، شاہ نور اور اے ایم سٹوڈیوز دریائے راوی بند روڈ کے اطراف میں ہوئی تھی۔ انھوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ فلم کی آؤٹ ڈور عکسبندی رانجھا کے گاؤں تخت ہزارہ ضلع سرگودھا اور ہیر کے آبائی گاؤں جھنگ کے علاقہ سیال میں اصلی مقامات پر کی گئی تھی۔

زمرد بیگم کا کہنا ہے کہ ہیر رانجھا کی کہانی اور کرداروں کا تعلق چونکہ پنجاب سے تھا اس لیے پنجابی ماحول بنانا قدرے آسان تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ‘مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ فلم کی عکس بندی ستمبر 1969 میں ہوئی تھی اور مسعود پرویز صاحب نے گرمیوں سے پہلے کیمرہ کلوز کر کے پوسٹ پروڈکشن کا کام شروع کر دیا تھا۔’

فلم کے ایسویسی ایٹ ڈائریکٹر امیتاز قیصر نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ‘استاد محترم’ مسعود پرویز چونکہ گرمیوں میں کام نہیں کرتے تھے اس لیے ان کی ہر فلم کا شیڈول کھلے موسم سے شروع ہوتا تھا۔

زمرد بیگم نے کہا کہ ‘مذکورہ فلم کے لیے ایک مشکل یہ بھی تھی کہ فردوس بیگم اور میں نے گلیمریس دکھائی دینے کے ساتھ ساتھ اپنے ڈریسز اور میک اپ کو اس زمانے سے بھی ہم آہنگ کرنا تھا لہذا ہم دونوں نے اس فلمی اور واقعاتی ضرورت کو ملحوظ خاطر رکھا۔’

انھوں نے بتایا کہ ’فلم کے ڈانس ماسٹر حمید چوہدری تھے جنھوں نے فلم کے ڈانسز خوبصورت انداز سے کرائے تھے۔ فردوس بیگم اور مجھ پر فلمایا گیا گیت ‘زلفاں دی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں ڈھولناں’ حمید چوہدری نے ذہانت اور محنت سے کرایا تھا۔‘

زمرد بیگم کا کہنا تھا کہ ‘حمید چوہدری اپنے کام کے ماہر تھے اور انھیں یہ علم تھا کہ کس فنکار یا فنکارہ کی استطاعت کیا ہے۔ وہ اس سے اسی انداز میں کام کرواتے اور کام چلتا رہتا، اس وقت فلم کے میٹیریل کو ضائع کرنا نالائقی خیال کیا جاتا تھا لہذا ہم دھیان اور محنت سے کام کیا کرتے تھے۔’

امیتاز قیصر نے بتایا کہ فلم کے لیے چار سیٹ لگائے گئے تھے جن میں ہیر کی حویلی اور کھیڑے کے گھر کا سیٹ اے ایم سٹوڈیو میں لگائے گئے تھے۔ ایک چھوٹا سیٹ ایورنیو سٹوڈیو میں بھی لگایا گیا تھا۔

خوفناک جنگل کے سیٹ سے فنکار خوفزدہ کیوں ہوتے تھے؟

امتیاز قیصر نے بتایا کہ فلم کے اختتام پر جہاں رانجھا اس لوک داستان میں عشق کے دشمن کیدو کو جان سے مار دیتا ہے اس منظر کے لیے شاہ نور سٹوڈیو کے 5 نمبر فلور پر ایک گھنے جنگل کا سیٹ لگایا گیا تھا۔ یہ اس قدر خوفناک سیٹ تھا کہ یہاں آرٹسٹ اور ہنر مند اکیلے جاتے ہوئے گھبراتے تھے۔

سیٹ کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے بڑے بڑے تن آور درخت زمین کھود کر لگائے گئے تھے۔ اس زمانے میں یہ سیٹ لگاتے ہوئے اچھی خاصی رقم صرف کی گئی تھی۔

فلم کی کہانی کے مطابق کیدو (ہیر کا چچا) اپنی بھتیجی ہیر کو عین اس وقت زہر پلا دیتا ہے جب وہ رانجھا کے گھر رخصت ہونے والی ہوتی ہے۔ رانجھا کو یہ بری خبر ملتی ہے تو وہ اس جنگل میں پہنچتا ہے جہاں سے کیدو فرار ہونے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

رانجھا کیدو کی جان لے کر اپنی جان بھی دے دیتا ہے۔ اسی سیٹ پر ہی وہ منظر بھی فلمایا گیا ہے جب ہیر اور رانجھا کی روحیں اکٹھی عالم ارواح میں پرواز کر جاتی ہیں۔

’ہیر رانجھا اپنے زمانے کی ہیوی بجٹ فلم تھی

فلم ٹریڈ کے سینئر ممبران محمد پرویز کلیم، موسیقار ذوالفقار علی اور زیڈ اے زلفی نے بتایا کہ ‘ہیر رانجھا’ اپنے زمانے کی ہیوی بجٹ فلم تھی۔

سنہ 1969 وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں کلر فلم کا آغاز ہوا ہی تھا اور اس وقت ایک اوسط درجے کی بلیک اینڈ وائٹ فلم بارہ سے پندرہ لاکھ جبکہ رنگین فلم 20 سے 25 لاکھ روپے میں تیار ہوتی تھی۔

ہیر رانجھا کی پرنٹنگ کراچی لیبارٹری سے ہوئی تھی اور یہ فلم لگ بھگ ایک سال میں مکمل ہوئی تھی۔ سینئر افراد نے بتایا کہ فردوس بیگم نے فلم کا معاوضہ 20 ہزار روپے وصول کیا جبکہ باقی اہم کرداروں میں سے کسی کا بھی معاوضہ 10 ہزار سے زیادہ نہیں تھا۔

موسیقار ذوالفقار علی نے بتایا کہ ملکہ ترنم نورجہاں اس زمانے میں ایک گیت گانے کا معاوضہ ایک ہزار روپے وصول کر رہی تھیں جو بڑی رقم تصور کی جاتی تھی۔ جبکہ دوسرے گلوکاروں کا ایک گیت کا معاوضہ پانچ سو سے کم ہی تھا۔

خواجہ خورشید انور کا شمار فلم انڈسٹری کے مہنگے موسیقاروں میں ہوتا تھا وہ اس زمانے میں ایک فلم کا معاوضہ 20 سے 25 ہزار وصول کر رہے تھے۔

ذوالفقار علی نے بتایا کہ انھوں نے 1978 میں ایک پنجابی فلم ‘ووہٹی دا سوال اے’ کے لیے گوائے گئے پنجابی گیت’ میرے دل دے شیشے وچ سجناں’ کے لیے ملکہ ترنم نورجہاں کو سات سو روپیہ ادا کیا جو انھوں نے وصول کرنے کی بجائے ’مجھے انعام دے کر میری حوصلہ افزائی کی تھی‘۔

پاکستانی فلم ‘ہیر رانجھا’ میں بہت سی خوبیاں اور چند خامیاں بھی تھیں۔ مذکورہ فلم کے ہدایتکار اور فلمساز دو صدیاں قبل 1776 کے پنجاب کی جھلک دکھانے میں ناکام رہے جس کا تعلق براہ راست فلم کے لیے مختص بجٹ سے تھا جو پاکستان میں کسی بھی فلم میکر کو میسر نہیں آسکا۔

دراصل کاسٹیوم فلم پاکستان کا موضوع نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ ہدایتکار مسعود پرویز اور فلمساز اعجاز درانی کو موضوع کی اس بنیادی ضرورت کا پوری طرح احساس ہو لیکن وہ فلم کے قلیل بجٹ (صرف 30 لاکھ) میں وہ ماحول پیدا کرنے سے یکسر قاصر ہوں۔

برصغیر میں ہیر رانجھا متعدد مرتبہ بنائی گئی لیکن نمبر ون کیدو اجمل خان ہی رہے

فلم ‘ہیر رانجھا’ کے حوالے سے بہت سی باتیں زیب داستان بھی سمجھی گئی ہیں۔ امیتاز قیصر نے اس امر کی تردید کی کہ ‘کیدو’ کا کردار اداکار علاوالدین کو آفر کیا گیا تھا جنھوں نے معذرت کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ کیدو کا کردار اجمل خان سے کروایا جائے۔

انھوں نے کہا کہ ‘کیدو کا کردار براہ راست اجمل خان کو آفر کیا گیا تھا۔ کیدو کا کردار فلم کی جان تھا جسے اجمل خان نے یوں نبھایا تھا جسے عوام کے ساتھ ساتھ خواص نے بھی سراہا تھا۔’

مصنف و ہدایتکار محمد پرویز کلیم نے بتایا کہ کنگ سرکل ہوٹل لاہور میں ایم اسماعیل نے اداکار ظہور شاہ سے جب اس بارے میں سوال کیا، ایم اسماعیل نے کہا کہ ‘برصغیر میں جتنی بار بھی ہیر رانجھا بنائی گئی اجمل نے کیدو کا کردار سب سے اچھا کیا۔‘

یاد رہے کہ اجمل خان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایم اسماعیل کو اپنا گرو مانتے تھے۔

‘ہیر رانجھا’ سیریز میں پاکستان نے انڈیا کو شکست دی

پاکستان اور انڈیا میں کئی مرتبہ وارث شاہ کی ‘ہیر رانجھا’ کو ڈرامائی تشکیل دی گئی جس میں اپنے وقت کے سپر سٹارز اور مستند فنکاروں کو کاسٹ کیا گیا۔

1955 میں پاکستان میں نذیر صاحب نے ہیر رانجھا بنائی جس کے مرکزی کردار سورن لتا اور عنایت حسین بھٹی تھے جبکہ کیدو کا کردار اجمل خان اور سیدے کھیڑے کے کردار نذر نے ادا کیے تھے۔

اسی طرح انڈیا میں پردیپ کمار اور نوتن کو ہیر رانجھا کے طور پر کاسٹ کر کے ہدایتکار حمید بٹ نے یہ فلم بنائی جس کے موسیقار انیل بسواس تھے۔

1970 میں پاکستان میں ہدایتکار مسعود پرویز اور انڈیا میں چیتن آنند کی ‘ہیر رانجھا’ کی نمائش ہوئی۔ پاکستانی ہیر رانجھا، فردوس اور اعجاز جبکہ انڈین ہیر رانجھا کے طور پر راج کمار اور پریاراج ونش پردہ سیمیں پر جلوہ گر ہوئیں۔

چیتن آنند کی فلم میں سیدے کھیڑے کا کردار اجیت نے ادا کیا تھا۔ مذکورہ انڈین فلم میں کیدو کا کردار پران نے ادا کیا جو ورسٹائل اور منجھے ہوئے اداکار تھے لیکن برصغیر کے فلم شائقین جو کم از کم فلم بینی میں تعصب نہیں رکھتے انھوں نے ہیر رانجھا کے کرداروں میں راج کمار اور پریا کے مقابل اعجاز درانی اور فردوس کو زیادہ پسند کیا اور خصوصاً کیدو کے کردار میں پران صاحب سے زیادہ پوائنٹس اجمل خان کو دیے۔

1990 میں ایک مرتبہ پھر ‘ہیر رانجھا’ کے کرداروں میں انیل کپور اور سری دیوی جبکہ کیدو کے کردار میں انوپم کھیر کو سامنے لایا گیا۔

سری دیوی، انیل کپور اور انوپم کھیر تینوں نہایت عمدہ پرفارمر ہیں، تینوں آرٹسٹ انڈیا سمیت پاکستان میں بھی بے حد مقبول ہیں لیکن ہیر رانجھا اور کیدو کے کرداروں میں سری دیوی، انیل کپور اور انوپم کھیر کے مقابل ایک مرتبہ پھر ‘میڈ اِن پاکستان’ ہیر (فردوس) رانجھا (اعجاز) اور کیدو (اجمل خان ) کو پسند کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

فردوس گُم گشتہ

’پاگل ہوں میرے دشمن۔۔۔ اِٹ از آل بُل شِٹ‘

سارا جہاں نور جہاں کا دیوانہ تھا اور وہ اعجاز کی دیوانی

انڈیا کی طرف سے مختلف اوقات میں انیل بسواس، مدن موہن اور لکشمی کانت پیارے لال سمیت دیگر موسیقار اس لوک داستان پر بنائی جانے والی فلموں کی دھنیں ترتیب دیتے رہے۔

لاہور سے بمبئی جانے والے فلم میکر عبدالرشید کاردار نے 1932 میں ‘ہیر رانجھا’ بنائی تھی جس میں رانجھا کا کردار موسیقار رفیق غزنوی ادا کیا اور ہیر انوری بیگم تھیں۔

انوری بیگم اداکارہ سلمیٰ آغا کی نانی تھیں۔ اسی طرح پاکستان میں فلمساز جے سی آنند اور نذیر صاحب کی ‘ہیر رانجھا’ کے موسیقار صفدر جبکہ اعجاز درانی کی فلم کے موسیقار خواجہ خورشید انور تھے۔

ماہرین موسیقی اور عام سننے والوں نے سب سے زیادہ جن موسیقاروں کی بنائی موسیقی کو سراہا ان میں انڈین موسیقار مدن موہن اور پاکستان میں موسیقار اعظم مانے جانے والے خواجہ خورشید انور سر فہرست ہیں۔

مدن موہن کے لیے گیت کیفی اعظمیٰ نے جبکہ خواجہ خورشید انور کے لیے احمد راہی نے گیت لکھے تھے۔

فلم کا ماحول، فضا، کہانی، کردار، کلچر اور واقعاتی تنازعات سب کچھ پنجاب سے جڑا ہوا ہے۔ احمد راہی انڈین پنجاب امرتسرمیں پیدا ہوئے اور لاہور میں پلے بڑھے جبکہ کیفی اعظمیٰ نے اترپردیش کے ڈسٹرکٹ اعظم گڑھ میں آنکھ کھولی۔

کیفی اعظمیٰ پنجابی نہیں تھے جبکہ احمد راہی پنجابی ہونے کے ساتھ اس زبان کے عمدہ شاعر تھے۔ کیفی اعظمی نے ہیر کے لیے گیت لکھا:

ملو نہ تم تو ہم گبھرائیں ملو تو

آنکھ چرائیں ہمیں کیا ہوگیا ہے

جبکہ احمد راہی نے لکھا کہ

سن ونجلی دی میٹھڑی تان وے میں تاں ہوہو گئی قربان (تمھاری بانسری کی میٹھی تان سن کر میں تم پر قربان ہوگئی ہوں)

کیفی اعظمی نے لکھا کہ

یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں

جبکہ احمد راہی نے لکھا کہ

کدی آمل رانجن وے میں لُک لُک نیر بہاواں (کبھی آ ملو رانجھا میں چھپ چھپ کے آنسو بہاتی ہوں)

کیفی اعظمیٰ اور خصوصاً مدن موہن نے میوزک بہت اچھا بنایا لیکن یہ میوزک خاص طور پر ‘ہیر رانجھا’ کے لیے نہیں تھا جبکہ خواجہ خورشید انور اور احمد راہی نے پنجابی میلوڈی بنائی جو میوزک خالصتاً ‘ہیر رانجھا’ کا سنائی دیتا ہے۔

احمد راہی کے لکھے گیت جس کی دھنیں خواجہ خورشید نے ترتیب دی تھیں، فلم سے الگ بھی سنیں تو ہیر رانجھا کے عشق کی کہانی سنائی دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp