ایران کے صدارتی انتخاب: نئے صدر ابراہیم رئیسی کے انتخاب پر اسرائیل کا شدید تحفظات کا اظہار


اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی کے انتخاب پر عالمی برادری کو گہری تشویش ہونی چاہیے۔

اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ترجمان لیئر حیت نے کہا ہے کہ ابراہیم رئیسی ایران کے اب تک کے سب سے زیادہ بنیاد پرست صدر ہیں۔

انھوں نے متنبہ کیا کہ نئے رہنما ایران کی جوہری سرگرمیوں کو فروغ دیں گے۔

سنیچر کو ابراہیم رئیسی کو ایران کے صدارتی انتخابات کا فاتح قرار دیا گیا، کہا جا رہا ہے کہ یہ انتخابی دوڑ انھیں برتری دینے کے لیے تیار کی گئی تھ۔

60 برس کے ابراہیم رئیسی اگست میں ایران کے صدر کا عہدہ سنبھالیں گے۔ وہ اپنے کرئیر میں زیادہ وقت پراسیکوٹر کے طور پر فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ وہ ایران کے منصف اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں۔

ابراہیم رئیسی پر امریکہ نے متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان پر ماضی میں سیاسی قیدیوں کی پھانسی دینے جیسے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔

انتخاب میں کامیابی کے بعد ایران کے سرکاری میڈیا میں نشر ہونے والے ایک بیان میں ابراہیم رئیسی نے حکومت پر عوامی اعتماد کو مستحکم کرنے اور پوری قوم کے رہنما بننے کا وعدہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں ایک دیانتدار، محنتی، انقلابی اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنے والی حکومت بناؤں گا۔‘

https://twitter.com/LiorHaiat/status/1406304578912636928

ٹویٹر پر ایک تنقیدی تھریڈ میں لیئر حیت نے کہا کہ ’وہ ایک سخت گیر شخصیت ہیں جو ایران کے جوہری پروگرام میں تیزی سے اضافہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘

ایک طویل عرصے سے ایران اور اسرائیل کے مابین ’پراکسی وار‘ جاری ہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف جوابی کارروائیاں کی ہیں لیکن اب تک دونوں نے کل وقتی جنگ سے گریز کیا ہے۔ تاہم حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے لیکن کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ایران کا جوہری پروگرام ہے۔

ایران اپنے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل اور اپریل میں اس کے یورینیم کی افزودگی والے پلانٹ پر حملے کے لیے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔

یاد رہے گذشتہ برس محسن فخری زاداہ کو دارالحکومت تہران کے باہر ایک سڑک پر پراسرار حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

مغربی انٹیلیجنس اداروں کا خیال ہے کہ فخری زادہ ایران کے خفیہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے روحِ رواں تھے اور کئی ممالک کے سفارتکار انھیں ‘ایران کے بم کا باپ’ بھی کہتے تھے۔

جائے وقوعہ

ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے تاہم اسرائیل کا خیال ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے نہیں ہے اور اس کا مقصد جوہری ہتھیار بنانا ہے۔

سن 2015 میں ایران اور مغربی ممالک کے مابین جوہری معاہدہ ہوا تھا جس کے بعد ایران پر سخت پابندیاں ختم کردی گئیں۔ تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اس معاہدے سے امریکہ کو یہ کہتے ہوئے نکال لیا تھا کہ ایران جان بوجھ کر معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور ایک بار پھر ایران پر معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔

نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت اب دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہونے کا راستہ تلاش کر رہی ہے۔

پابندیاں سخت ہونے کے بعد ایران نے بھی اپنے جوہری پروگرام کو تیز کردیا۔ ایران اس وقت اعلی ترین سطح پر یورینیم کی افزودگی کررہا ہے۔ تاہم ابھی تک ایران نے جوہری بم بنانے کی صلاحیت حاصل نہیں کی ہے۔

voters

ایران کے انتخابات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے افسوس ہے کہ ’ایرانی عوام کو اب بھی جمہوری اور منصفانہ انداز میں اپنا رہنما منتخب کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘

ایران کے انتخابات میں اس مرتبہ ووٹنگ کا تناسب انتہائی کم رہا ہے۔ کل رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 50 فیصد سے کم نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ اس سے قبل 2017 کے انتخابات میں 70 فیصد سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے تھے۔

بہت سے شہریوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ انتخابی عمل ابراہیم رئیسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ رئیسی ایران کے رہبِرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے بارہا اسرائیلی ریاست کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ سنہ 2018 میں انھوں نے اسرائیل کو ایک ’خطرناک اور مہلک کینسر‘ قرار دیا جس کا خطے سے خاتمہ ضروری ہے۔

اسرائیل کے نئے وزیراعظم

اسرائیل کے نئے وزیراعظم نفتالی بینیٹ

جس دن رئیسی ایران کے صدر بنے، اسی دن ویانا میں ایران کے جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے بات چیت جاری ہے۔

یورپی یونین کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز ایران اور دنیا کے چھ طاقتور ممالک کے نمائندوں کے درمیان، ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک بار پھر بات چیت ہو گی۔

اس مسئلے پر ایران اور امریکہ کے مابین یہ چھٹا مذاکرہ ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، مذاکرات میں شامل قائدین کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات پر تعطل ابھی باقی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ رئیسی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بالواسطہ بات چیت جاری رہے گی۔

یہ بھی پڑھیے

ایران کے ’سخت گیر‘ جج کی صدارتی انتخاب میں فتح، عمران خان کی مبارکباد

ایران: ’محسن فخری زادہ کو ریموٹ کنٹرول ہتھیار کے ذریعے ہلاک کیا گیا‘

ایرانی جنرل کو مارنے کا فیصلہ ’جنگ روکنے‘ کے لیے کیا

’اسرائیل کے جال میں آ کر جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کریں گے‘

حیت نے اپنے ٹویٹر تبصرے میں، سنہ 1988 میں قتل ہونے والے سیاسی قیدیوں کے تناظر میں رئیسی کو’ تہران کا قصاب‘ کہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ رئیسی ان چار ججوں میں سے ایک تھے جنھوں نے پانچ ہزار سے زیادہ سیاسی قیدیوں کو سزائے موت سنائی۔ حیت نے اپنی ٹویٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس دوران 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ ایران کے انسانی حقوق کے کارکن بھی یہی تعداد بتاتے ہیں۔

Supporters of Ebrahim Raisi hold up his portrait and roses

باقی دنیا سے کس طرح کا ردعمل سامنے آ رہا ہے؟

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ابراہیم رئیسی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ‘اسلامی جمہوریہ ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات میں تاریخی فتح سمیٹنے پر میں عزت مآب برادر ابراھیم رئیسی کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

‘دونوں ممالک کے مابین برادرانہ تعلقات میں مزید پختگی، علاقائی امن، ترقی اور خوشحالی کےحصول کے لیے میں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہوں۔’

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ابراہیم رئیسی کو مبارکبادی بھیجی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان روایتی طور پر اچھے تعلقات ہیں اور پوتن نے مبارکباد میں ان تعلقات کا ذکر کیا ہے۔

شام، عراق، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں نے بھی مبارکباد کے پیغامات بھجوائے ہیں۔

غزہ پر حکومت کرنے والے فلسطینی گروپ حماس کے ترجمان نے بھی ایران کی خوشحالی کے لیے دعا کی اور رئیسی کو مبارکباد پیش کی۔

https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1406216680259395592

انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ رئیسی پر لگے مظالم کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مائیکل پیج کا کہنا ہے کہ ’ایران کی حالیہ تاریخ کے سب سے زیادہ گھناؤنے جرائم، ایران کی سخت گیر عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے رئیسی کی نگرانی میں مرتکب ہوئے ہیں۔ ان کی تفتیش کی جانی چاہیے اور ذمہ دار کا تعین کیا چاہیے نہ کہ انھیں اتنے اعلیٰ عہدے پر مقرر کر دیا جائے۔‘

ابراہیم رئیسی کون ہیں؟

ابراہیم رئیسی 60 برس کے ہیں اور وہ اپنے کرئیر میں زیادہ وقت پراسیکوٹر کے طور پر فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ انھیں 2019 میں عدلیہ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ سنہ 2017 میں وہ صدر حسن روحانی سے بڑے مارجن سے ہار گئے تھے۔

بی بی سی فارسی کے مطابق ابراہیم رئیسی نے مارچ 2016 میں ایران کے سب سے امیر اور اہم ترین مذہبی ادارے امام رضا فاؤنڈیشن۔۔۔آستان قدس رضوی۔۔۔ کا انتظام سنبھال لیا۔ یہ ادارہ مشہد میں امام رضا کے مزار کی نگرانی کرتا ہے۔

یہ عہدہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس ادارے کا بجٹ اربوں ڈالر کے برابر ہے اور یہ فاؤنڈیشن ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں اور تیل و گیس کمپنیوں اور کارخانوں میں آدھی اراضی کی مالک ہے۔

ایران میں متعدد لوگوں کے خیال میں اس منصب پر ان کی تقرری کا مطلب یہ ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای انھیں آئندہ انتخابات میں کامیاب کرانے کے بھی خواہشمند تھے۔

ابراہیم رئیسی اپنے آپ کو بدعنوانی کے خاتمے اور معاشی مسائل کے حل کے لیے بہترین انتخاب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تاہم متعدد ایرانی اور انسانی حقوق کے علمبردار ان کے 1980 کی دہائی میں سیاسی قیدیوں کے بڑے پیمانے پر قتل میں کردار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔

ایران نے کبھی بڑے پیمانے پر قتل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور ابراہیم رئیسی نے بھی کبھی اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر کچھ نہیں کہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp