گود سے گور تک


ہر شخص خود کو خوش قسمت سمجھے، کیونکہ وہ ہزاروں نطفوں کی دوڑ میں اکیلا کامیابی و کامرانی کی منزل طے کر کے ماں کے رحم کی زینت بنتا ہے۔ یہی وہ پہلا لمحہ ہوتا ہے جب انسان زندگی کی تگ و دو شروع کر دیتا ہے اور اسی لمحے سے زندگی کا ہر پل اس کے لیے مشکل سے مشکل ترین امتحان لے کر آتا ہے۔ جب وہ اپنی ان تھک کاوشوں سے ایک منزل طے کرتا ہے تو اگلی منزل کا کٹھن رستہ اس کے لیے پہلے سے ہی تیار ہوتا ہے۔

ایسا لگتا ہے زندگی ایک گیم ہے ؛ جب ہم کوئی گیم کھیلنا شروع کرتے ہیں تو پہلے لیولز جو کہ انتہائی آسان ہوتے ہیں وہ بھی بہت مشکل لگتے ہیں، لیکن اگر تو یہ گیم ہماری پسندیدہ ہو تو ہم جی جان لگا کر اس کے لیولز سر کرتے چلے جاتے ہیں۔ جوں ہی ایک لیول آسان لگنے لگتا ہے اور ہم اس میں ماہر ہو جاتے ہیں تو اگلا ٹاسک دے دیا جاتا ہے، یہ لیول فوری طور پر تو سمجھ آنا مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں کچھ وقت درکار ہوتا ہے کہ اس لیول کی پیچیدگیاں سمجھ سکیں اور آخر کار ہم اس لیول میں بھی ماہر ہو جاتے ہیں۔ اور پھر یوں چلتا ہی جاتا ہے ؛ لیولز بڑھتے ہی جاتے ہیں اور ان لیولز کی پیچیدگیاں بھی۔

ہو بہو یہی حال زندگی کا ہے۔ ماں کے رحم میں بچے کو زندگی کیسی لگتی ہو گی؟ میرے خیال سے تو بالکل چھوٹا سا قید خانہ ہی لگتا ہو گا؛ جہاں وہ زندگی کے ابتدائی ایام شروع کرتا ہے۔ باہر کی دنیا سے تو وہ بے خبر ہوتا ہے، اسے اس لیول کا تو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہاں اس تنگ و سنسان جگہ میں جہاں وہ محض زندگی کے چند ماہ ہی گزارے گا درحقیقت یہ امتحان تو کچھ بھی نہیں۔ اصل امتحان تو اس قید رحم سے نکل کر اس قید بے رحم میں شروع ہو گا۔

سو بالآخر وہ مبارک وقت آن پہنچتا ہے کہ محنت کر کے اس چھوٹی سی قید سے جان چھڑوائی جائے اور دنیا کی رنگینیاں دیکھی جائیں۔ اس معصوم کو کیا معلوم کہ یہ رنگینیاں اور رعنائیاں بس سراب ہیں۔ ان میں جینا تو صرف عذاب ہے۔

خیر! مصائب کا پہاڑ ایک دم سے تو نہیں ٹوٹتا۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ زندگی میں امتحانات کے لیے کرائی جانے والی مشقیں پہلے پہل آسان ہوا کرتی ہیں ؛ بالکل ایسے ہی جیسے گیم کے ابتدائی لیولز۔

سو پہلا گہوارہ ماں کی گود ہوتا ہے اور یہی گہوارہ پہلی درسگاہ بن کر سامنے آتا ہے۔ بچہ صرف ماں سے ہی مانوسیت کا اظہار کرتا ہے اور یہی ماں اس کی کل دنیا ہوتی ہے۔ جوں ہی اس مانو سیت کی حد سے باہر جانے یا لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے تو طوفان برپا ہوتے ہیں، آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے اس حصار سے نکلے تو بس مر ہی جائیں گے۔

دھیان میں رہے کہ یہ تو صرف گیم کے ابتدائی لیولز میں سے ایک ہے۔ سو آگے بڑھتے ہی چند اور لوگوں کی مانوسیت اور محبت کے تجربات کے لیولز آتے ہیں۔ جن میں باپ کی محبت (اگر ملے تو) ماں کی محبت و التفات کے بعد سر چڑھ کر بولتی ہے۔ پہلی درسگاہ سے نکل کر دوسری درسگاہ میں قدم رکھ دیا جاتا ہے۔ اب بچے کے ذہن میں ان دونوں درسگاہوں کے اسباق نقش ہونے لگتے ہیں۔ یاد رہے ابھی بچے نے بولنا نہیں سیکھا، صرف آنکھوں سے دیکھنا اور کانوں سے سننا سیکھا ہے۔

اور دماغ؛ ایسا اعلی سکینر ہے جو قدرت کی طرف سے تحفے میں ملا ہے۔ وہ یہ سب کچھ سکین کرتا چلا جاتا ہے ؛ بول چال، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، لڑنا جھگڑنا، عزت، قدر و محبت، نفرت، چغلیاں، جھوٹ، فریب، تسلی، غصہ، پریشانیاں، اطمینان، رحم دلی، صلح رحمی، وعدہ خلافی، مکر، برے الفاظ، اچھے الفاظ قصہ مختصر؛تربیت، یہ تربیت ایک انسانی بچہ پہلی دو درسگاہوں سے لے کر اگلے لیولز کی طرف بڑھتا ہے۔ اور اگلے لیولز میں خاندان کے دوسرے (غیر ضروری) افراد سے بھی بہت کچھ سیکھا جاتا ہے۔

غیر ضروری میرے لیے نہیں، لیکن آج کل کی ابتدائی درسگاہیں ابتدائی اسباق ہی یہی دیتی ہیں کہ فلاں سے بات نہیں کرنی، فلاں شخص کے پاس نہیں جانا، یہ اچھا ہے، وہ برا ہے۔ ماں کی درسگاہ میں نانا کا خاندان اچھا ہے اور باپ کی درسگاہ میں دادا کا۔ لہذا وہ فطری محبت جو چھوٹا سا انسان قدرت سے تحفے میں لے کر پیدا ہوتا ہے وہ آپس کی رنجشوں سے دبا دی جاتی ہے۔ اس کی سمجھ بوجھ سے جو باتیں باہر ہوتی ہیں اسے وہ سکھائی جاتی ہیں۔

ماں، ابتدائی درسگاہ؛ باپ؛ دوسری درسگاہ، خاندان؛ تیسری درسگاہ۔ ان سب سے اچھی خاصی تربیت لینے کی بعد اب فیصلہ کیا جاتا ہے چوتھی درسگاہ (بھٹی) میں جھونکنے کا۔ ہاں جی! زندگی کی گیم کا ایک نیا اور کٹھن لیول۔ اور یہ لیول ہے معاشرے کے ساتھ رابطہ، اور پھر یہاں زندگی کی گیم کے سارے لیولز، ، ساری آزمائشیں، ساری مشکلیں آسان کرنے کے چکر میں در حقیقت زندگی کو مشکل کیا جاتا ہے۔ اس گیم کے تخلیق کار نے سارا کلائمیکس اسی لیول میں تو رکھا ہے۔

یہاں اس لیول پر آ کر پتہ ہی نہیں چلتا، کیا کیا سیکھ لیا جاتا ہے، کس کس کی فطرت کس کس انداز سے اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ تربیتوں کا ایک سمندر، فطرتوں کا ایک مہا ساگر جس میں ماں باپ اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے ڈبوتے اور ہر روز اپنی آنکھوں سے ڈوبتا دیکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ شاطر تو اچھے سے فطرت کے سمندر میں ڈبکیاں لگانا سیکھ جاتے ہیں جبکہ چند معصوم ڈوبتے ہیں، چیختے ہیں، چلاتے ہیں، ساری عمر ہاتھ پاؤں مارنے میں ہی گزار دیتے ہیں۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ ابتدا میں ہی ہار مان جاتے ہیں اور کچھ یہ گیم کھیلتے کھیلتے اپنوں کی دسترس سے باہر جا پڑتے ہیں۔ یہاں تربیت کے اس سمندر میں کون کس سے کیا کچھ سیکھتا ہے یہ تو قسمت کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور پھر معاشرے کی رنگ برنگی فطرتوں کی تخم ریزی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ جو سیکھا اور سکھایا گیا ہے وہ زندہ رہنے اور زندہ رکھنے کے قابل بھی ہوگا یا گمنام گور کے اندھیرے میں اتار دیا جائے گا؟ کیونکہ ایک باپ کی تخم ریزی ہمیں گود تک لانے کا سبب بنتی ہے اور معاشرے سے سیکھے سو پاپ کی تخم ریزی ہمیں اندھی گور تک لے جانے کا سبب بن جاتی ہے۔

صباحت ریاض
Latest posts by صباحت ریاض (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments