ریپ اور مرد کی نئی شناخت


پچھلے دنوں مدرسے میں طالب علم سے بد فعلی کی خبر منظر عام پر آئی۔ یہ اپنی نوعیت کی کوئی نئی خبر نہیں تھی۔ اب بچے نہ مدرسوں میں محفوظ رہے نہ ہی تعلیمی اداروں میں اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ جنسی استحصال کا شکار نہیں ہوں گے ۔ مدرسے اور درسگاہیں تو دور کی بات ہے۔ بدقسمتی سے بچے بچیاں اپنے ہی گھروں میں جنسی زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں۔ محرم، مقدس رشتے اپنی درندگی میں ان معصوم پھولوں کو ایک نہیں کئی بار اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔

اور کبھی یہ ہی بچے اپنے ہی کسی قریبی رشتے کے ہاتھوں ہمیشہ کی نیند سو جاتے ہیں۔ 2015 میں قصور میں بچوں سے بدفعلی اور اس انسانیت سوز فعل کی ریکارڈنگ اور 2018 میں اوکاڑہ میں متعدد بچوں سے بدفعلی کی خبریں آج بھی ذہنوں پر نقش ہیں۔ بد فعلی اور زیادتی کے جو کیسز رپورٹ ہوتے ہیں وہ تو منظر عام پر آ جاتے ہیں۔ مگر وہ کیسز جو گھر والے بدنامی کے ڈر سے درج نہیں کرواتے، ان کی ایک الگ بھیانک کہانی ہے۔ بچوں سے ہونے والی بدفعلی اور جنسی استحصال میں کس کو ذمے دار قرار دیا جائے گا؟ کیا بچے بچیوں کا لباس ہی ان مردوں کے جذبات کو ہوا دیتا ہے۔ آخر ان بچوں نے ایسا کیا پہنا ہوتا ہے۔ جو مرد کو حیوان بنا دیتا ہے۔

حال ہی میں ہمارے وزیر اعظم نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر خواتین کم کپڑے پہنیں گی تو اس کا اثر مردوں پر ہوگا اگر وہ روبوٹ نہ ہوئے تو۔ مطلب سارا کا سارا قصور صرف خواتین کا ہے۔ جب خواتین کم لباس زیب تن کریں گی تو ریپ تو ہوگا۔ آخر کو مرد ہے، جس کے اندر جذبات بھی ہیں اور خواہشات بھی ہیں۔ مرد کوئی روبوٹ تھوڑی ہیں۔ جیتا جاگتا باضمیر باشعور مرد ہے۔ خواتین سے ریپ کی بڑی ہی نا معقول وجہ تو معلوم ہو گئی۔ مگر وہ خواتین جو مکمل لباس میں ہوتی ہیں۔

باپردہ گھروں سے باہر نکلتی ہیں، ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی کیا وجہ ہوگی؟ گھروں میں محرم رشتے ہی عزتوں کو داغ دار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہاں کیا جواز پیش کیا جائے گا؟ شاید وہاں بھی قصور خواتین کا ہے۔ بالکل اسی طرح جب موٹروے وے پر خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس پر سی سی پی او نے کہا کہ خاتون کو اتنی رات میں بغیر کسی مرد کے نہیں نکلنا چاہیے تھا۔

اگر مرد جذبات میں بہہ کر کسی کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے تو یہ جواز ہے کہ مرد ہے۔ اور خاتون کا لباس ان کو یہ فعل کرنے پر اکساتا ہے۔ پھر وہ شخص جو با کردار بھی ہے اور باحیا بھی۔ جس کو رشتوں کا احترام بھی ہے اور ان کا تقدس بھی، جو اپنی نظروں کی حفاظت کرنا بھی بخوبی جانتا ہے۔ جس کو حرام اور حلال تعلق کا پتا ہو۔ جو ایک مضبوط کردار کا مالک ہے۔ کیا وہ مرد نہیں روبوٹ ہے؟ مرد کی نئی تعریف بھی معلوم ہو گئی اور نئے پاکستان میں مرد کو نئی شناخت بھی مل گئی۔

بہرحال خواتین کو زیر بحث لانے کے بجائے ان واقعات کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ملزمان کو عبرت ناک سزا دینے کی ضرورت ہے۔ صرف بل پاس کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ قانون بنانے سے نہیں اس پر عمل کرنا ہی کامیابی ہوگی۔ فحاشی اور بے حیائی صرف عورت سے نہیں پھیلتی بلکہ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ مرد اور روبوٹ میں فرق بیان کر کے وحشیوں کے اس انسانیت سوز فعل کی وجہ خواتین کو ٹھہرانا قطعاً مناسب نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments