کشمیر کا یہ یہ اور وہ وہ۔۔۔

وسعت اللہ خان - تجزیہ کار


سب یہ تو کہہ رہے ہیں کہ مودی سرکار اور کشمیر کی ہند نواز قیادت کے درمیان لگ بھگ دو برس بعد ہی سہی کسی طرح کا رابطہ یا میل ملاقات تو ہوئی۔ مگر کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ بات چیت کے نتیجے میں فریقین کشمیر کے جغرافیائی و سیاسی مستقبل کے لیے کسی ایک فارمولے پر متفق ہو پائے ہیں کہ جو کشمیر کو موجودہ دلدل سے نکال کر کسی بہتر سمت کی جانب لے جائے۔

مجھے نہیں معلوم کہ انڈیا میں اس وقت حزبِ اختلاف یا غیر قصیدہ خواں میڈیا کو کشمیر سے متعلق نئی ہل جل سے کیا امیدیں وابستہ ہیں۔ البتہ پاکستان میں جو لوگ دلی میں ہونے والے حالیہ کشمیر اجلاس سے بہت زیادہ توقعات باندھے بیٹھے تھے ان کی بھی ہر امید کھونٹی سے لٹکی رھ گئی۔

دلی اجلاس میں مودی سرکار کی طرف سے ٹک ٹک دیدم کشمیری لیڈر شپ سے کوئی مشورہ نہیں لیا گیا۔ بس یہ بتایا گیا کہ ہم کشمیر میں مزید یہ یہ یہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور جب آپ اس یہ یہ یہ کی تکمیل کے لیے ہمارا ساتھ دینے پر راضی ہو جائیں گے تو پھر ہم سوچیں گے کہ آپ جو وہ وہ وہ چاہتے ہیں کیا وہ کرنا ہمارے لیے ممکن ہے بھی یا نہیں۔

دوسرے فریق نے ساڑھے تین گھنٹے کی اس ملاقات میں پہلے فریق کو بس دھیان سے سنا اور سر ہلا کے رہ گیا۔ اب یہ سر ہاں میں ہلا یا مایوس کن حیرت میں؟ یا پھر یہ بیٹھک محض اس لیے بلائی گئی کہ اس کے گروپ فوٹو کا ایک پوسٹ کارڈ سلامتی کونسل میں بیٹھی بڑی طاقتوں اور خلیجی دوستوں کو ارسال کر کے ثابت کیا جائے کہ ہم کشمیر میں معمولاتِ زندگی و بنیادی حقوق بحال کرنے کے لیے اپنی سی کوشش تو کر رہے ہیں۔

ایک پاکستانی سفارت کار کا کہنا ہے کہ کسی ریاست کی خود مختاری کو بیک جنبشِ قلم ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ختم کرنے کے بعد اس کے باسیوں کو ایک عام سے صوبے کی پیش کش ایسے ہی ہے جیسے موت دکھا کے بخار قبول کروا لیا جائے یا کسی کی آٹھ کمروں والی پرانی حویلی پر قبضہ کرنے کے کچھ عرصے بعد پیش کش کی جائے کہ جا یار تو بھی کیا یاد کرے گا کس سخی سے پالا پڑا، یہ لے آٹھ میں سے دو کمرے اور عیش کر اور آئندہ کوئی مطالبہ نہ کرنا۔

جب ایک پاکستانی سیاسی تجزیہ کار (جو کہ میں خود ہی ہوں) سے میں نے کشمیر سے متعلق دلی بیٹھک پر جاننا چاہا تو اس نے بس یہ پڑھ دیا۔

عہدِ وفا یا ترکِ محبت جو چاہو سو آپ کرو

اپنے بس کی بات ہی کیا ہے ہم سے کیا منواؤ گے (فیض)

کچھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ نگوڑی سیاست کب سیاہ کو سفید اور سفید کو کالا قرار دے دے کچھ پتہ نہیں چلتا۔ لہٰذا سیاست دانوں کے قول و قرار پر منہ کھولنے سے پہلے یہ بھی جانچ کر لینا چاہیے کہ فلاں رہنما نے صبح جو بات کہی تھی یا اپنے حریف کو جو گالی دی تھی یا جو قسم کھائی تھی ۔آیا سہ پہر تک بھی وہ اس پر قائم ہے کہ نہیں۔

واقعہ کے بعد حکومتوں کو اس طرح کے طعنے دینے اور جلی کٹی سنانے کا کیا فائدہ کہ کل تک مودی سرکار جن ہند نواز سیاستدانوں کو بھارت دشمن گپکار کینگ اور کشمیر میں خاندانی سیاست کے نام پر وقوف بنانے والا ٹولہ کہہ کے ایک متبادل قیادت ابھارنے کی کوشش کر رہی تھی ۔اس میں ناکامی کے بعد آج اسی روائیتی ٹولے سے یہ کہتے ہوئے زرا بھی آنکھ نہیں جھپکتی کہ دل اور دلی سے دوری اچھی نہیں۔

سیاست تو نام ہی دو اور دو پانچ یا دو اور دو ساڑھے تین کا ہے ۔جو سادہ لوح ریاضی داں آج بھی راج نیتی کو دو اور دو چار کا کھیل سمجھتے ہیں۔بہتر ہے کہ وہ کسی پرائمری سکول کے معصوم بچوں کو سوائے ریاضی کے کچھ بھی پڑھا لیں۔

دلی ملاقات میں کسے کیا ملا؟ جیسا کہ میڈیا کہہ رہا ہے کہ مودی سرکار نے کچھ تو لچک دکھائی مگر کون سی لچک ؟ کیا وزیرِ داخلہ امیت شاہ پانچ اگست دو ہزار انیس کو کشمیری خود مختاری کے ضامن آرٹیکل تین سو ستر اور پینتییس اے کی معطلی سے متعلق لوک سبھا تقریر میں نہیں بتا چکے تھے کہ جونہی حالات نے اجازت دی کشمیر کو مرکز کے زیرِ انتظام درجے سے نکال کر ایک نارمل ریاست (یعنی صوبہ) کا درجہ دے دیا جائے گا۔ اب کشمیر کے دو صوبے بنیں گے یا تین سوائے مودی سرکار کے کون جانے۔

مگر یہ بات تو انڈیا نواز کشمیری قیادت کو دلی مدعو کئے بغیر بھی بتائی جا سکتی تھی۔ اتنی سیاسی ورزش اور خرچے کی کیا ضرورت تھی؟ دنیا کو کیا ایسا نیا دکھانا مقصود تھا جو دنیا پہلے سے نہیں جانتی۔

ایسے ہی کسی استاد شکاری نے اپنے ایک شاگرد کو بگلا پکڑنے کی ترکیب بتاتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی تم کسی دلدل یا ندی کے کنارے بگلا دیکھو تو ایک لمبا چکر کاٹ کر آہستہ آہستہ کہنیوں کے بل رینگتے ہوئے بگلے کے پیچھے پہنچو اور پھر اس کے سر پر موم چپکا دو۔جب موم پگھل کر بگلے کی آنکھیں بند کردے تو اسے گردن سے پکڑ لو۔

استاد جی مگر جب میں بگلے کے اتنا قریب پہنچ جاؤں کہ اس کے سر پر موم رکھ سکوں تو پھر سیدھا سیدھا گردن سے ہی کیوں نہ پکڑ لوں۔استاد نے کہا ہاں ایسے بھی کیا جا سکتا ہے مگر پھر تجھے استاد کون سمجھے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).