تحریک لبیک پاکستان ناکام کیوں ہوئی؟


میں ذاتی طور پر تحریک لبیک کی طرز سیاست کا نہ تو پہلے کبھی حامی رہا ہوں اور نہ ہی اب ہوں، لیکن کیا تحریک لبیک کے کارکنوں اور حامیوں کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کے احتجاج، دھرنوں اور پولیس کے ساتھ تصادم کے وقت ہوتا ہے؟ اس سوال سمیت بہت سے ایسے سوالات ہیں جو کہ وقت اور صورت حال کے تناظر میں جواب طلب ہیں۔

نظریہ ضرورت کے تحت جنم لینے والی اس سیاسی جماعت کو جو کہ اب زندہ حقیقت کا روپ دھار چکی ہے، کو مکمل طور پر بین کرنا یا اس کے کردار کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا اب شاید ممکن نہیں رہا ہے۔

ریاست نے ان لوگوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریاست اپنے کیے ہوئے وعدے پر عمل درآمد کی کوشش کرتی اور اگر ان وعدوں پر عملدرآمد ممکن نہیں تھا تو ان کو کسی دوسرے طریقے سے اچھی طرح سے ہینڈل کرنے کی کوشش کرتی، جو مذاکرات قیمتی انسانی جانوں کے زیاں کے بعد ہوئے کیا وہ پہلے نہیں ہو سکتے تھے؟ کیا اتنی لچک کا مظاہرہ حکومت وقت کے لیے ہنگامہ آرائی اور قتل و غارت کے واقعات سے قبل ممکن نہیں تھا؟

لیکن چونکہ اس ملک کی خارجہ و داخلہ پالیسی پر ہمیشہ بیرونی عوامل اثر انداز رہے ہیں تو تب بھی انہی غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ملک کی تقریباً ستر فیصد آبادی کے مسلک کی حامل سیاسی جماعت کے کارکنان اور حامیوں کے لیے زمین تنگ کی گئی جب کہ یہی غیر ملکی آقا پچھلے کئی سالوں سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈال کر او ر بلیک میل کر کے اپنے سبھی عزائم میں کامیاب ہو رہے ہیں اور اب پھر ایک سال کے لیے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا ہے جس کے ذریعے بلیک لسٹ میں ڈالنے کی تلوار لٹکاتے رہیں گے اور اسی طرح سے بلیک میل کر کے اپنے تمام احکامات کو منوا نے میں کامیاب ہوتے رہیں گے۔

تحریک لبیک کی ناکامی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جار ہا ہے :

میڈیا بلیک آؤٹ اور منفی پراپیگنڈہ : تحریک لبیک پاکستان واحد بدقسمت پاکستانی سیاسی جماعت ہے جو کہ روز اول سے میڈیا کے تعصب کا شکار رہی ہے، اس جماعت کی سرگرمیوں کو اول تو میڈیا رپورٹنگ ہی نہیں کرتا اور اگر میڈیا کو رپورٹنگ کرنا بھی پڑ جائے تو ہمیشہ منفی انداز میں کی جاتی ہے جو کہ میڈیا کی منافقت کو ظاہر کرتا ہے۔ میڈیا میں سیاسی جماعتوں کی کوریج ان کی عوام میں مقبولیت کو مدنظر رکھ کر دی جاتی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا پیمانہ ان کے حاصل کردہ ووٹ ہوتے ہیں اور دھاندلی کی تمام تر کامیاب کوششوں کے باوجود حاصل کردہ ووٹوں کی بنیاد پر تحریک لبیک پاکستان کی پانچویں مقبول ترین سیاسی جماعت بنتی ہے۔

تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک لبیک کو میڈیا کے ذریعے اسی تناسب سے کوریج دی جاتی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ میڈیا تعصب اور منافقت پر مبنی رپورٹنگ کرتا ہے کیونکہ اس کا تعلق بھی کسی نہ کسی طرح سے ”ڈیپ پاکٹس“ کے ساتھ ہوتا ہے جس کے عالمی ایجنڈے کے مطابق ہی میڈیا کو اپنی بقا برقرار رکھنا ہوتی ہے، حالانکہ عوامی مقبولیت کے لحاظ سے تحریک لبیک کا بھی میڈیا کوریج کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کا ہے لیکن تحریک لبیک کو ہمیشہ منفی پیرائے میں ہی پیش کیا گیا ہے۔

میڈیا کی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح پلے اپ اور پلے ڈاؤن کی ہے جس میں پلے اپ کا مطلب چھوٹی سے چھوٹی چیز، خبر یا واقعہ کو بڑا بنا کر یا اس کا مثبت یا منفی امیج بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے جبکہ پلے ڈاؤن کا مطلب بڑی سے بڑی چیز، خبر یا واقعہ کو چھوٹا سا بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے۔ میڈیا تحریک لبیک کے ساتھ پلے ڈاؤن والی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے مثال کے طور پر میڈیا یہ خبر تو دے رہا ہے کہ ایک ”مذہبی جماعت“ کے احتجاج کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات در پیش آئی ہیں لیکن میڈیا نے ان کے احتجاج کی وجوہات اور حکومت کی بد عہدی کا نہ تو تذکرہ کیا اور نہ ہی حکومتی اقدامات کا ذکر کیا اور تصویر کا ایک رخ پیش کر کے رائے عامہ کو تحریک لبیک کے خلاف ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اپریل میں ہونے والے واقعات کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کی کوریج دیکھ کر پچھلے سال بھارتی شہر دہلی میں ہونے والے دنگوں کے بعد انڈین میڈیا کی کوریج کی یاد تازہ ہو گئی تھی۔ جس میں لٹ پٹ جانے مظلوم مسلمانوں کو ہی یک طرفہ رپورٹنگ سے ظالم اور دنگوں کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا تھا کیونکہ بھارتی مسلمانوں کے پاس فیڈ بیک دینے کے لیے کوئی مناسب فورم نہیں تھا اور یہی حال اب تحریک لبیک کے مظاہرین کے ساتھ ہو رہا ہے۔

جن کی ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں 90 سے زائد لوگوں کی اموات پولیس اور رینجرز کی فائرنگ سے ہوئی تھیں جبکہ کئی ایک مواقع کی ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں پولیس اہلکاروں کو پبلک اور پرائیویٹ پراپرٹی کو نقصان پہنچاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے تا کہ اس نقصان کا ملبہ تحریک لبیک پر ڈالا جا سکے۔ اس طرح سے میڈیا کی پالیسی کی وجہ سے تحریک لبیک ناکام ہوئی۔

بیرونی امداد اور بیرونی ایجنڈا کی غیر موجودگی : تحریک لبیک کی ناکامی کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس جماعت کو کسی قسم کی کوئی بیرونی امداد حاصل نہیں تھی۔ اس جماعت کو دیگر مذہبی جماعتوں کی طرح نہ تو سعودی عرب سے کوئی فنڈنگ ہوتی ہے اور نہ ہی ایران سے کوئی امداد آتی ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح امریکہ یا برطانیہ سے بھی کوئی خفیہ فارن فنڈنگ نہیں ہوتی ہے جن کے کیسز الیکشن کمیشن میں ہمیشہ حل طلب رہتے ہیں۔

اس جماعت کے کارکن دھرنوں اور احتجاج کے دنوں میں تمام تر اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ اس جماعت میں غیر ملکی امداد کی عدم موجودگی بھی اس جماعت کی اہمیت کو کم کرتی ہے کیونکہ بیرونی امداد اپنا ایک خاص ایجنڈا اور حکومت پر خاص دباؤ بھی رکھتی ہے جس کے تحفظ کے لیے وہ بیرونی ہاتھ ہر ممکن کوشش بھی کرتے ہیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ اس لیے اس جماعت کے کارکنوں کو جب جی چاہے مرغوں کی طرح اٹھا کر بند کر دیا جاتا ہے کیونکہ ان کے پیچھے کوئی بیرونی امداد اور کسی بیرونی شخصیت کا ہاتھ نہیں ہوتا ہے جو کہ اس جماعت کی ناکامی کی وجوہات میں سے ایک ہے۔

سیاسی یتیم یا مقامی لیڈر شپ کا فقدان: تحریک لبیک پاکستان ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جو کہ اپنی ابتداء سے فرد واحد یعنی کہ علامہ خادم رضوی کے گرد گھومتی رہی اور اس کے بعد اس کی کمان ان کے بیٹے سعد رضوی کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اس جماعت کی باقاعدہ طور پر فعال تنظیم سازی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اس جماعت میں مرکزی سے علاقائی لیڈر شپ کا فقدان رہا ہے۔ اس وجہ سے جب بھی اس جماعت کے کارکن یا حامی احتجاج کے لیے نکلتے ہیں تو اپنی آواز یا احتجاج کو موثر طریقے سے حکام بالا تک پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں۔

معاشی مسائل : چونکہ مسلکی کے لحاظ سے اس جماعت کے کارکنان کا تعلق ملک کی اکثریتی آبادی کے ساتھ ہے اور اس سے وابستہ زیادہ تر لوگ معاشرے کے نچلے طبقے اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ معاشی طور پر زیادہ خوش حال نہیں ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے ان تمام تر اجتماعات، دھرنوں اور احتجاجوں میں پوری طرح سے شرکت کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے اور جب اس لوئر مڈل کلاس کی اکثریت ایسے اجتماعات یا احتجاجوں سے بوجوہ معاشی مسائل شرکت نہیں کر پاتی تو اس سے بھی اس جماعت کی کمزوری عیاں ہوتی ہے جو کہ مقتدر حلقوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتی ہے اور تھوڑے بہت باقی ماندہ نہتے مظاہرین کو کچلنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آتی ہے اور اس طرح سے مقتدر حلقے حکومتی مشینری کو بھرپور طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے ان کو براہ راست فائرنگ سے قتل کرنے کے علاوہ ربڑ کی گولیوں سے فائرنگ اور شیلنگ کے ذریعے زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ لاٹھی چارج اور تیزاب ملے پانی کے استعمال سے مظاہرین کو منتشر کرنے سمیت گرفتار کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس وجہ سے بھی تحریک لبیک ناکام ہو رہی ہے۔

غیر منظم اور غیر تربیت یافتہ : ویسے تو پاکستان میں کسی بھی بڑی سیاسی یا مذہبی جماعت نے کبھی بھی منظم طریقے سے احتجاج یا دھرنا نہیں دیا اور اکثر ان دھرنوں یا احتجاجوں کا نتیجہ جلاؤ گھیراؤ پر ہی نکلتا ہے۔ تحریک لبیک کا سیاسی وجود چونکہ اتنا پرانا نہیں ہے اس لیے اس جماعت کے کارکنوں کی سیاسی تربیت بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں اور احتجاج میں یہ لوگ اپنا نظم و ضبط برقرار نہیں رکھ پاتے جس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ چونکہ اس طرح کے احتجاجوں میں سب سے زیادہ تنگی عوام کے لیے ہوتی ہے تو تربیت اور نظم و ضبط کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھی کارکنوں کو عوام کے ساتھ لڑائی جھگڑوں میں دیکھا جاتا ہے۔ اس تحریک کے کارکنوں کا غیر منظم اور غیر تربیت یافتہ ہونا بھی اس کی ناکامی کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔

مذہب سے دوری : تحریک لبیک کی ناکامی کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں مذہب سے دوری کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ لو گوں میں مذہبی معاملات میں دلچسپی کی کمی کی وجہ سے بھی اس مسلک کے حامل لوگ تحریک لبیک کا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments