زندگی دھوپ تم گھنا سایہ


21 جون کو فادرز ڈے پر جب ساری دنیا اپنے والد کی عظمتوں کے گن گا رہی تھی، تب دن بھر کی مصروفیات کی بدولت میں نے ابو کو فون کرنے کا ارادہ شام تک موخر کر دیا تھا کہ تب تک وہ آفس سے گھر آ کر خود بھی تازہ دم ہو جاتے تھے۔ عصر کے بعد آنے والے طوفان نے مجھے یہ سوچنے کی قطعی مہلت نہ دی کہ بعض طوفان دبے پاؤں انسان کی اپنی زندگی میں بھی داخل ہو جاتے ہیں۔ طوفان اور بارش کی وحشت نے میرے سب ضروری کام ملتوی کر ڈالے تھے۔

رات سونے سے قبل آنے والا آخری خیال بھی ابو کا ہی تھا، میری دانست میں وہ خود اب تک سو چکے تھے اور اب ان سے بات دن کے کسی پہر ہی کی جا سکتی تھی۔ لیکن یہ دن کبھی نہ آئے گا یہ بات میرے گمان میں بھی نہ تھی۔ علی الصبح حرکت قلب بند ہو جانے سے، ان کے اچانک چلے جانے کی اندوہناک خبر اور شدید صدمے نے، میرا دل دہلاتے ہوئے اچانک ہی پیروں تلے کی زمین کھینچ لی۔ تب سے اب تک یہ احساس میرے دل پہ کسی بوجھ کی طرح حاوی ہے کہ اپنے پیاروں کی محبت کے اعتراف میں دیر سے بڑی اذیت کوئی نہیں۔

چاند رات کو ننھی بچیوں کا ہاتھ تھامے ابو، امی کے لاکھ منع کرنے پر بھی رش زدہ بازار میں جا نکلتے اور رنگ برنگی چوڑیوں کے لیے مچلتی ان ننھی لڑکیوں کو چوڑیاں پہنواتے۔ بابو چوڑی والا جیسے ہی انھیں دیکھتا، اپنے تمام گاہک چھوڑ کر سب سے پہلے ان کی جانب متوجہ ہوتا اور ’اجی! خاں صاحب آئے ہیں! ، خاں صاحب آئے ہیں!‘ کی گردان کرتا ہمیں ایک سے ایک اچھی مینہ بھری چوڑیاں پہناتا جاتا۔ شوخ اور چنچل رنگوں کی ڈھیروں ڈھیر چوڑیاں کلائیوں میں پہنے، جب ہم بہنیں کھلکھلاتی گھر میں داخل ہوتیں، تو امی دیر تک ابو سے شکوہ کناں رہتیں کہ کانچ کی چوڑیاں اگر ٹوٹ جائیں تو ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں۔ پر ابو جیسے ان کی ایک نہ سنتے اور ہمیں دیکھ کر مسکراتے اور خوش ہوتے جاتے۔ کیسی اذیت ہے کہ کانچ کی وہی ننھی ننھی چوڑیاں آج میرا دل زخمی کیے دیتی ہیں۔

ہماری ہر بے جا فرمائش پوری کرنے اور ہر شرارت پر امی کے سامنے ڈھال بن جانے والے ابو کو امی بار ہا ٹوکتیں کہ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں، ان کے یوں لاڈ نہیں اٹھاتے۔ جواب میں ابو مسکرا کر کہتے ؛ یہ بھلا کیا بات ہوئی؟ اپنی بیٹیوں کے لاڈ میں نہیں اٹھاؤں گا تو کون اٹھائے گا؟ ’امی ان کا چہرہ دیکھتی رہ جاتیں اور ہم اخبار پڑھنے میں محو ابو سے نظریں بچا کر، امی کو چڑاتے ہوئے مزید شہ پا جاتے۔

شرارت میں ان کے کاندھوں پر بیٹھنے، شیر اور چوہے کی کہانی سن کر پیٹ پر الٹا سو جانے، گھٹنوں پر جھولنے سے لے کر ہوا میں اونچا اچھال کر پکڑ لینے اور بیماری میں ماں کی طرح بے چین اور خیال کرنے کے ہر پل میں وہ ہمارے لیے کسی خدائی نعمت سے کم نہ تھے۔ زندگی میں ہر قدم بے دھڑک اٹھانے، ہر فیصلہ دھڑلے سے کرنے کے پیچھے یہی منطق کار فرما رہتی کہ گر کچھ ٹھیک نہ بھی ہوا تو سنبھالنے کے لیے پیچھے ابو ہیں نا! ان کے ایمرجنسی میں کارڈیالوجی جانے کی اطلاع پر بلکتے ہوئے، میں نے بھائی سے یہی سوال بارہا پوچھا تھا کہ ؛ ’سچ سچ بتاؤ ابو ہیں نا؟‘

ایک قدیم روایات کے پاسبان خاندان میں، بیٹیوں کو کم پڑھانے اور جلد بیاہنے کی روایت سے بغاوت کرتے ہوئے، جب میں نے آگے پڑھنے کی ضد کی تو سب سے پہلے ابو کو ہی اپنے ساتھ کھڑا پایا۔ خاندان بھر کی مخالفت مول لیتے ہوئے انھوں نے میری ضد پر مجھے یونیورسٹی پڑھنے بھیجا، جہاں مخلوط نظام تعلیم میں پڑھنا، معیوب سمجھا جا تا تھا۔ اپنے اعتماد کا ووٹ میرے سپرد کرتے ہوئے انھوں نے خاندان کے ہر معترض فرد کی زباں بندی کی۔

امتحانات میں آنے والی ہر اول پوزیشن پر وہ خاندان بھر میں مٹھائی بھجواتے اور بڑے فخر سے بتاتے ؛ ’دیکھو! ہماری بیٹی نے ہمارا کیسا نام روشن کیا ہے‘ ۔ رفتہ رفتہ یہ بغاوت بھی خاندانی روایت کا حصہ بننے لگی اور لوگ اپنی بیٹیوں کو پڑھانے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی بھیجنے لگے۔ تب ابو تقدم کا سکہ اپنے پاس ہونے پر خوشی سے پھولے نہ سماتے۔

لیکچرار منتخب ہونے پر ابو نے خاندان بھر میں یہ کہہ کر مٹھائی بانٹی کہ ’دیکھو! بیٹیاں بیٹوں سے کسی صورت کم نہیں!‘ وہ اپنے بیٹے کو جتنا چاہتے اتنا ہی ہم بہنوں کے ناز اٹھاتے کہ جیسے انھیں بھیجا ہی ہماری ناز برداری کے لیے گیا ہو۔ اسسٹنٹ پروفیسر منتخب ہونے پر یہ خوشی خاندان میں ایک بار پھر دھوم دھام سے منائی گئی۔ ابو خاندان کے ایک ایک فرد کو بتاتے ؛ ’دیکھو یہ میری بیٹی ہے، جس کے نام کا ایک حصہ میرا ہے۔ بیٹیوں کو اعتماد دو تو وہ اپنے باپ کا سر فخر سے بلند کر دیتی ہیں۔‘ میری ہر کامیابی پر آنے والا پہلا فون ان کا ہوتا، جس میں خوشی اور سرشاری ان کی آواز اور لہجے سے چھلکتی تھی۔ وہ بیٹے کے ساتھ بیٹیوں کو بھی ہر معاملے اور فیصلے میں شریک کرتے، ان کی رائے لیتے اور اس رائے کا احترام کرتے۔

اپنے شہر کی ایک با اثر شخصیت ہونے کے ناتے لوگ دور دراز سے ان کے پاس اپنے معاملات کا تصفیہ کرانے آتے۔ وہ بڑے اعتدال اور توازن سے ان معاملات کو سہولت سے نمٹا لیتے۔ بعض معاملات کی نزاکت کو اپنی دور اندیشی کے سبب بھانپ جاتے۔ ان کے بگاڑ کا خدشہ ہوتا تو ان پر رائے دینے سے گریز کرتے یا حتی المقدور کوشش کرتے کہ بڑے نپے تلے انداز میں مسائل سمیٹ لیے جائیں۔ زندگی کی اونچ نیچ سکھاتے ہوئے، وہ کبھی ناصح نہ بنتے نہ ہی اپنی کسی بات، رائے یا فیصلے کو دوسروں پر مسلط کرتے، ہر چھوٹے بڑے کی بات کو دھیان سے سنتے اور اسے یوں عزت دیتے کہ جیسے اس وقت ان کے لیے اس کی بات سے اہم کچھ نہ ہو۔

تعزیت اور جنازے پر آنے والے جوق در جوق لوگوں میں سے کئی ایسے تھے، جن کی مدد وہ باقاعدگی اور خاموشی سے یوں کیا کرتے کہ خاندان تو کیا، ان کے دوسرے ہاتھ تک کو خبر نہ ہوتی۔ ان کی محبت، سخاوت اور خلوص کے معترف لوگ ان کی پوشیدہ نیکیوں اور عمل خیر کا تذکرہ کرتے ہوئے رو رو پڑتے۔ تب ایک مضبوط دل کے ساتھ جی کڑا کر کے بیٹھی یہ بیٹی اپنے باپ کے کفن میں ملبوس شفیق چہرے کو حسرت آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ محبت جو روح کی سرشاری ہے، جب آزمائش دینے پر اتر آئے تو جدائی کا ایسا لاعلاج زخم دیتی ہے، جو روح تک میں کسی گہرے گھاؤ کی طرح اتر جاتا ہے۔

ان کے جانے کو ابھی سات دن گزرے ہیں، پر زندگی میں آنے والا خلا سات آسمانوں جتنا بسیط ہے۔ دل میں بار بار اعتراف محبت کے رہ جانے کی کسک ابھرتی ہے کہ ہم زندگی میں جن سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں، انھیں بار ہا یہ بتانے اور باور کرانے میں ہرج ہی کیا ہے کہ ہم انھیں کیسی شدت سے چاہتے ہیں، ان کے بغیر ہماری دنیا کیسی ادھوری، نامکمل اور بے رنگ ہے اور یہ بھی کہ محبت کا یہ اعتراف کسی فادرز یا مدرز ڈے کا محتاج ہر گز نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments