بھارت واسیوں کے اچھے دن کیسے آئے؟


آج برسوں کے بعد مجھے آلوک کا ای میل ملا، ایک طویل داستان تھی جسے سب جانتے تھے مگر جس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا، مگر ٹھہرئیے، حل تو کسی حد تک تھا مگر ہمارے خطے کے لوگوں کے مزاج، بے یقینی اور مذہبی پیشواؤں پر اندھے اعتماد کی وجہ سے شاید حل نہیں مل رہا تھا۔ پھر بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی اور ہر ادارے اور خاص طور پر صحت کے اداروں میں روز افزوں بدعنوانیاں، سب نے مل کر موت اور بیماری کا بازار گرم کردیا اور دوسری طرف بدعنوان حکومتیں اور ان کے کارندے اس ”موقع“ سے مالی فوائد اٹھانے پر عادتاً ”مجبور“۔

آلوک اور میں نے ایک ہی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، وہ تو واپس ہندوستان چلا گیا کہ اس کے بہت سے عزائم تھے وہ اپنے لوگوں کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے بتایا تھا کہ جب وہ دس سال کا تھا تو اپنے وزیر اعظم ( بقول ارون دھتی رائے شاعر وزیر اعظم) سے بہت متاثر تھا، کشمیر میں ان کی کی گئی تقریر سے متاثر تھا، ان کے پاکستان کے دورے پر اسے بہت اچھا لگا تھا اور اسی وقت اس نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ سرکار میں کام کرے گا اور ان کی جماعت کی حمایت کرے گا۔ کالج میں داخل ہوا تو کئی ہم خیال دوست ملے اور یوں اپنے وزیر اعظم کی جماعت کی حمایت کے لئے اس میں مزید اعتماد آگیا اور رفتہ رفتہ وہ ان کے ”یوتھ ونگ“ میں اٹھنے بیٹھنے لگا تھا۔

” مجھے بالکل یقین نہیں آتا تھا کہ یہ لوگ ایسی باتیں کریں گے، خود ہی سوچو میرے زیادہ تر دوست مسلمان ہیں۔ میں کیسے ان کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہوں اور مسلمانوں کا بھی بڑا حصہ ہے اس ہندوستان کو شاندار بنانے کا پھر یہ کہ ہم تو بچپن سے ایک ایسے بھارت میں رہے ہیں جہاں ہر طرح کے لوگ رہتے رہے ہیں اور صدیوں سے ہیں۔ یہ ان مسلمانوں کی بھارت سے محبت ہی تو ہے جو وہ اسے چھوڑ کر پاکستان نہیں گئے۔ ہمارے بہت سے لوگ اس کا غلط مطلب لے رہے تھے۔ سو میں نے حمایت کی ضرور لیکن پارٹی میں شامل نہیں ہوا۔“ ہم سب یونیورسٹی لان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ ”تو آلوک تم جیسے لوگوں کو تو ضرور شامل ہونا چاہیئے۔“ ایملی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا۔ ”تم نہیں سمجھو گی وہاں کے سیاسی معاملات بہت پرتشدد ہیں، میں حمایت تو کرتا ہوں لیکن شامل ہونا میرے بس میں نہیں اور پھر میرے والد ایک اہم سرکاری عہدے پر ہیں۔ میرے خیالات سے انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے“ آلوک کھڑے ہوتے ہوئے بولا تھا۔ ”حمایت بھی تو آدھی شمولیت ہی ہے۔“ شفیع الرحٰمن جو اپنے ملک بنگلہ دیش کی سیاست سے تنگ تھا، بول اٹھا، ہم سب کا یہی المیہ ہے!

میں آلوک کی ای میل پڑھ رہی تھی، اس نے لکھا، ” آج کئی برسوں بعد تم سے مخاطب ہوں اس واقعے کے بعد میں کسی حد تک تم سے ناراض تھا اور اس وقت ہماری سیاسی جماعت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، مسلمانوں کے حق میں جو کچھ یونیورسٹی کے دوران کہتا تھا وہ سب جیسے ہوا میں بلبلے کی مانند غائب ہوچکا تھا جب میں واپس بھارت ماتا کے چرنوں میں آیا تھا، یہاں کا ماحول بہت مختلف ہو چکا تھا جس سے بات کرو وہ موجودہ وزیر اعظم کا بھگت بن چکا تھااور رفتہ رفتہ میں بھی اس بات پر قائل ہوچکا تھا کہ مسلمانوں نے اپنا ملک بنا لیا تو اب ان کو وہیں جانا چاہیئے۔ “

جس واقعے کی طرف آلوک نے اشارہ کیا وہ بس ایک لمحے کی دین تھا۔ ہم سب دوست گریجویشن کے بعد ایک بار پھر جمع ہوئے تھے ایک ریستوران میں کھانے کے لئے۔ اس نے حسب معمول سبزیوں کی ڈش منگائی۔ اچانک کسی نے پوچھا تھا ”صرف سبزیاں کھانے کے پیچھے کیا فلسفہ ہے؟“ اور اس نے فخریہ انداز میں کہا تھا ”ہم برہمن کسی زندگی کے خاتمے پر یقین نہیں رکھتے۔۔۔۔ اور میرے منہ سے نکل گیا تھا ” اچھی بات ہے کم سے کم جانوروں کی زندگی تو برہمنوں کو عزیز ہے۔“ اس کے چہرے پر ایک رنگ آکر گذر گیا تھا “اگر تم گجرات کی بات کر رہی ہو تو وہ سب تو سیاست تھی۔۔۔ نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں کہا اور ایملی نے ماحول کے اچانک تناؤ کو دور کرنے کے لئے مستقبل کے منصوبوں پر بات شروع کردی تھی۔ بس اس کے بعد میرا اس سے کوئی رابطہ نہیں رہا تھا۔ ایملی کیلی فورنیا جا چکی تھی، شفیع الرحٰمن بنگلہ دیش چلا گیا تھا، بنتو واشنگٹن کے کسی غیر سرکاری دفتر میں ملازم ہو چکی تھی۔ ان سب سے میرا رابطہ تھا مگر آلوک جیسے ہم سب سے بچھڑ چکا تھا۔ ہم سب اسے یاد ضرور کرتے سب ہی نے اسے ای میل کے ذریعے رابطےکی کوشش کی، فیس بک پر بھی تلاش کیا مگر اس نے کسی کو جواب نہیں دیا۔ اور پھر ہم سب اپنی زندگیوں کی جہد میں لگ گئے۔

اس نے آگے لکھا” ہمارے وزیر اعظم نے بہت وعدے کئے تھے وہ کہتے تھے کہ اچھے دن آئیں گے اور پورا بھارت ان اچھے دنوں کے انتظار میں ایک بار پھر انہیں کو عہدے پر لے آیا۔ میڈیا کی حالت بہت خراب ہے، جو بھی سچ کہتا یا اسے ختم کر دیا جاتا یا پھر دھمکیاں اور خوف سے اس کے قلم کو اپاہج بنا دیا جاتا۔ اور اب یہ نئی بلا کووڈ نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں ایسا لیا کہ لاکھوں اس کی نذر ہو گئے۔ کروڑوں اس سے بیمار ہوئے اور آج کل بھارت میں بہت برا حال ہے۔ شروع میں تو وزیر اعظم نے تھالیاں بجوائیں، گائے کا گوبر لیپنے کی ہدایات جاری کیں اور لوگ اندھادھند اس تقلید میں لگ گئے لیکن میری حمایتی سوچوں پر دھند چھا چکی تھی۔

پچھلے دنوں میرے والد کو اس وائرس نے آلیا، ان کی عمر بیاسی سال ہے ہم نے دلی کے ہر اسپتال اور کلینک میں انہیں لے جانے کی کوشش کی لیکن کہیں جگہ نہیں ملی، جو نجی کلینک تھے ان میں کمرے خالی ضرور تھے لیکن وزیروں اور اعلیٰ سرکاری افسروں نے اس کی پیشگی بکنک کرا دی تھی اور دوگنے داموں پر۔ ہم لوگ بھارت کی اس کلاس سے ہیں جہاں ہمارا کوئی کام کبھی نہیں رکا لیکن شاید اس وقت میرے والد ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر تھے اور اب انہیں ریٹائر ہوئے بھی کافی وقت ہو گیا۔ میں اور میرا بھائی اور خاندان کے دوسرے افراد اس کوشش میں تھے کہ انہیں کسی اسپتال میں جگہ مل جائے، ہم نے کئی بڑے لوگوں سے رابطے کئے اور ہم ہر قیمت دینے کو تیار تھے مگر کچھ نہ ہوا اور وہ ایک رات آکسیجن کی کمی سے نیند میں ہی چل بسے۔

میرے والد مذہبی ذہن کے تھے اور ان کی وصیت تھی کہ ان کا کریا کرم ہندو شمشان گھاٹ پر کیا جائے۔ جب ہم ان کی ارتھی لے کر وہاں پہنچے تو معلوم ہوا بائیس گھنٹوں کے بعد ان کا نمبر آئے گا، ہم تیز دھوپ میں قطار میں کھڑے تھے جبکہ میرا بھائی کسی اور شمشان گھاٹ کی تلاش میں نکل گیا، مگر ہر جگہ طویل قطاریں تھیں۔۔۔۔ اور پہلے اپنے کسی کی ارتھی جلانے کی خواہش میں وہاں سر پھٹول ہو گیا کئی لوگ زخمی ہوئے، پولیس آگئی لیکن اتنی بڑی بکھری ہوئی قطار کو قابو کرنا بے حد مشکل تھا۔ ہم نے بمشکل اپنے والد کی ارتھی وہاں سے نکالی اور راستے میں ایک ط[جگہ بل بورڈ پر نظر پڑی جس پر بڑا بڑا لکھا تھا ”اچھے دن آئیں گے“ اور میں سوچ رہا تھا کہ پتا جی کے تو اچھے دن آگئے کیا ہم سب بھارت واسیوں کے اچھے دن اسی صورت میں آئیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments