سافٹ امیج یا کریہہ تصویر!


وزیراعظم نے ایک بار پھر سافٹ امیج پر حملہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ احساس کمتری کی علامت ہے۔ انگریزی بولنا، مغربی ملبوسات پہننا یہ سب خرافات ہیں۔ بس ایک ہی چیز آج اس ملک کو چاہییے وہ ہے صرف اور صرف خود داری۔ وزیراعظم آئی ایس پی آر کی تقریب “نیشنل ایمیچیور شارٹ فلم فیسٹیول” سے خطاب کر رہے تھے۔ اسی تقریب سے ڈی جی آئی ایس پی آر میجرل جنرل افتخار بابر نے بھی خطاب کیا ان کی تقریر وزیراعظم کی گفتگو سے زیادہ معقول لگی۔ ان کا کہنا تھا “پاکستان بڑے مشکل وقت سے گزرا ہے۔ ہم نے مل کر دہشتگردی کو شکست دی ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ پاکستان کی حقیقتوں کے ساتھ جڑا جائے اور ملک کا سافٹ امیج تخلیق کیا جائے آج نوجوان فلم میکرز کی حوصلہ افزائی اسی سلسلے کے طور پر کی جا رہی ہے۔”

یہاں میری ذاتی رائے تو یہ کہ فلم میکنگ یا پلے رائیٹ سے فوج کا کچھ لینا دینا نہیں ہونا چاہئے، نہ ہی کلچر یا پرفارمنگ آرٹس پر کسی جنرل کے لیکچر کی کوئی ضرورت ہونی چاہیے مگر بدقسمتی سے یہ بھی پاکستان ہی کی ایک حقیقت ہے کہ یہاں کے لوگ مداخلت کےاس طوق کو اپنے گلے سے اتار نہیں سکے۔ اور یہ مداخلت ہر شعبے اور ہر معاملے میں مسلسل جاری ہے۔ لیکن یہاں بات ہو رہی ہے , وزیراعظم کی، میں وزیراعظم پر حیران ہوں وہ بار بار لڑکیوں اور عورتوں کے ڈریس کوڈ پر ہی کیوں معترض ہیں۔ وہ پاکستان کے سماج کو اپنے بوگس خیالات سے کیوں ریگولیٹ کرنے پر تل گئے ہیں۔ انہیں پاکستان کے مستقبل کے پیچھے کس نے متحرک کر دیا ہے۔ میرے پاس ان کے لئے ایک ٹاسک ہے۔ کیا وزیراعظم اپنے دوست اردگان سے کہہ سکتے ہیں کہ آج ہی وہ ایک حکم جاری کر کے ترکی کا ڈریس کوڈ ارطغرل غازی کے زمانے کے ملبوسات میں بدل دے، ترکی کے گلی کوچوں میں پھیلے پب اور شراب خانے بند کردے کیونکہ یہ سب مغربی کلچر ہے۔ یا پھر کیا وہ اپنے استاد مہاتیر سے فرمائش کر سکتے ہیں کہ تمام عورتوں کو پردے کا پابند بنانے کا آرڈر جاری کردیں۔ ملایشیا کے تمام نائٹ کلبزاور مغربی طرز زندگی پر قدغن لگا دیں۔ شاید ایسا کہہ کر انہیں ترکی اور ملائیشیا سے جو جواب آئے گا وہ یہ کسی کو بتانے کے قابل نہیں ہوں گے۔

وزیراعظم نجانے کس خلا میں بیٹھے ہیں۔ ان کا بیانیہ دن بدن اینٹی سوسائٹی بنتا جا رہا ہے۔ جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ ریپ کی ایک وجہ کپڑوں کا مختصر ہونا ہے تو ملک بھر سے انہیں شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تب ان کے مشیروں نے معترضین کو دیسی لبرلز قرار دے کر سارے الزامات مسترد کر دیے تھے۔ لیکن آئے دن ملکی سوشیو اکنامک صورت حال اور متنوع قومی ثقافتی تناظر کے برعکس وزیراعظم کی بڑھتی ہوئی بے سروپا تھیوریاں خود پی ٹی آئی کے لئے اب درد سر بن چکی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کی سرگرم رکن مومنہ وحید نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے وزیراعظم سے کچھ اس انداز میں التجا کی ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔ وہ لکھتی ہیں۔

“خان صاحب، آپ اپنی آنکھوں سے دیکھئے۔ اپنے ذہن سے سوچئے اور اپنے ہی منہ سے بات کیا کیجئے۔

میں زینب، آمنہ، اقراء، عائشہ، صدف اور ہزاروں ننھی بچیوں کا ذکر نہیں کر رہی۔ خان صاحب میں آج کی بات کرتی ہوں۔ خانیوال میں ریپ کے بعد قتل کر دی جانیوالی بچی کی عمر چار سال تھی خان صاحب۔ صرف چار سال۔ اس کے تو خدوخال بھی واضح نہیں تھے۔ خان صاحب کیچڑ پہ کپڑا ڈال کے بھی پھسلن باقی رہتی ہے۔

ہم تعلیم و تربیت میں بہت پیچھے رہ جانے والی قوم ہیں یہ مان لینے سے نقصان نہیں فائدہ ہوگا خان صاحب۔ ہماری درسگاہیں عقوبت خانے ہیں ہمارے نصاب جھوٹ پہ مبنی داستانیں ہیں۔

خان صاحب آپ آخری امید ہیں مایوس مت کیجئے۔”

لیکن وزیراعظم ہیں کہ ہر قدم پر سب کو مایوس کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ انہیں یہ جاننا ہوگا کہ کسی ملک کا تمدن صدیوں کے سفر سے تشکیل پاتا ہے۔ جبکہ ہر زمانہ لباس اور رہن سہن کے فیشن اور اطوار کا بدلاؤ بھی اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ اسے بیک جنبش قلم کوئی بدل سکتا ہے نا ختم کر سکتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کا تمدن صدیوں سے لبرل اقدار پر کھڑا ہے۔ یہ پاکستان متنوع ثقافتوں اور زبانوں کا وہ کھلا میدان ہے جہاں تنگ نظری ہرگز نہیں ٹھہر سکتی۔ ضیاالحق سے لے کر طالبان اور اب عمران خان اس ثقافتی رنگا رنگی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

ویسے بھی سافٹ امیج کا کسی قوم کے لباس یازبان سے ہر گز تعلق نہیں ہوتا۔ کسی ملک کی ریاست اور عوام کے مجموعی کردار سے تعین ہوتا ہے کہ یہ تہذیب یافتہ پرامن لوگ ہیں یا کریہہ چہروں کے حامل ہیں۔ دیکھا جاتا ہے کہ و ہاں آزادی کتنی ہے۔ جمہوریت کتنی ہے، برداشت کتنی ہے، انصاف کتنا ہے، ریسرچ اور جدید علوم سے شغف کتنا ہے، اور وہاں کا مقامی میوزک، شاعری، فائین آرٹ، علم و ادب کتنے ترقی یافتہ ہیں۔ وہاں کی یونیورسٹیاں اور درسگاہہیں عالمی معیار سے کتنی قریب ہیں۔ اگر کوئی سماج سڑاند زدہ ہوگا تو وہ اپنے اردگرد آلودگی پھیلائے گا، اگر کوئی سماج کھلا، ہوا دار اور انسانی رویوں کی خوشبو سے لدا ہوا ہو گا تو اس کی چہار سو خوشبو پھیلے گی۔

خودداری اور خودمختاری اس گلوبل ولیج میں سپر پاورز کی بھی تحلیل ہو رہی ہےتو ایسا ملک جو قرضوں اور غیر ملکی احسانات کے نیچے دبا ہوا ہو کیسے ہم عصر دنیا سے بے گانہ ہو سکتا ہے۔ یہ سبھی کو معلوم ہے۔ اور ایسا وزیر اعظم تو سب سے بڑھ کر جانتا ہوگا جو صرف اپنے اقتدار کے پہلے تین سال میں عالمی مالیاتی اداروں سے اربوں ڈالر کا قرضہ لے چکا ہے۔ اور ادھار تیل حاصل کرنے کیلئے عرب شہزادوں کی ڈرائیونگ تک کر چکا ہے۔

صاف دکھائی دے رہا ہے یہ وزیر اعظم قوم کو جعلی بھاشن دیکر اپنی ناکامی چھپانے کی ناکام کو شش میں مصروف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments