ٹین ایجرز کے پڑھنے والا کالم


بیس سال قبل کرکٹ کھیلنے کا اس قدر جنون تھا کہ جون کے مہینے میں دن کے 1 بجے بھی ہم میدان میں ہوتے۔ صبح کے نکلے شام کو واپس آتے تو والد صاحب ڈنڈا لے کر وہ مرمت فرماتے کہ طبعیت شانت ہو جاتی۔ تاہم اگلی صبح ہماری وہی روٹین۔ سکول جانے سے عجیب سی بیزاری رہتی۔ مہینے میں 17 دن غیر حاضر رہتے کچھ جمعہ یا اتوار کی چھٹی اور بقیہ دن مر مر کے سکول جانا۔ سزا پھر روز کا نصیب تھی۔ ایک ڈوز جس دن سکول جاتے تمام اساتذہ کرام سے ملتی تھی۔

والد محترم تو روز ہی مرمت کرتے۔ والد صاحب کی روز روز مرمت کے سبب دل میں خیال بیٹھ گیا کہ ابا جی مجھ سے لگاؤ نہی رکھتے۔ سکول غیر حاضر رہنے اور کرکٹ کے بری عادت کی طرح شوق کے باوجود ہمیشہ دوسری پوزیشن لی۔ پہلی پوزیشن پر پرائمری اور مڈل میں ہمارے کزن اور دوست اعظم لک صاحب ہوتے۔ میٹرک میں پہلی پوزیشن چوہدری ندیم اشرف لے اڑے۔ اچھے مارکس کے باوجود والد محترم نے کبھی حوصلہ افزائی نہ کی تو دل و دماغ میں یہ بات گہری ہوتی گئی کہ ہو نا ہو ابا جی بقیہ بھائیوں اور بہن کی نسبت مجھ سے نالاں ہیں اور کوئی جذباتی لگاؤ نہی ہے۔

ابا جی مزدور طبقہ سے ہیں۔ میٹرک کے بعد کہا بیٹا اب تمہارے بقیہ بھائی پڑھیں گے۔ آپ اپنا دیکھو کیا کرنا ہے۔ سو جس تعلیم کے لیے کرکٹ کا شوق کسی کنارے نہ لگ سکا۔ وہ تعلیم کرکٹ اور وکٹ کیپنگ کی صلاحیت کو زنگ لگا کر خود بھی رک کر رہے گئی۔ جانے کیسے کس کس دوست ہمدرد انسان کی مدد اور حوصلہ افزائی سے چھوٹی موٹی ملازمت کے ساتھ انٹر ہوا، جیسے تیسے بہت ہی غیر منطقی کٹھن اور بغیر کسی ڈسپلن کے چار سالہ گریجویشن بھی ہوئی۔

ان طویل بیس سالوں میں ابا جی کے اور میرے درمیان جذباتی لگاؤ ایک گہری خلیج میں ڈھلتا رہا۔ گریجوایشن کے بعد ابا جی نے ہاتھوں سے مرمت کرنا ترک کر دی۔ وجہ شاید یہ رہی کہ چھوٹے بھائی بھی بڑے ہو چکے تھے اور ابا جی کی طرف سے عزت افزائی شرافت سے میری طرح سر نیہوڑے کھڑے ہو کر قبول کرنے کی بجائے گھر سے بھاگ کھڑے ہوتے۔ تاہم ابا جی کی لفظی گولہ باری میں مزید اضافہ ہوتا رہا۔ بیکار ہونے بے روزگار ہونے پر بے نقط سناتے اور ابھی بھی نکما اور نکھٹو سمجھتے ہیں۔

دوستوں کی گائیڈنس سے چھوٹی موٹی متعدد جابز کیں پھر کمیشن سے جاب ہوئی کمیشن سے دوبارہ جاب ہوئی مگر ابا جی نے کبھی بھی گلے لگا کر مبارک باد نہ دی۔ بس یہی کہا تم اس سے بہتر کر سکتے تھے۔ اپنے ذہنی و روحانی سکون کے لیے ابا سے بقیہ بھائیوں سے زیادہ قریب ہونے ان کی ہر ممکن خوشی کا خیال رکھنے کی کوشش جاری ہے مگر ابا جی اور میرے درمیان کمیونیکشن کا ایک گیپ رہا ہے جو کبھی بھرتا ہی نہی۔

تین دن پہلے 25 جون کو اللہ پاک نے بیٹی عطا کی ہے۔ 26 تاریخ کو ڈسچارج ہوئے گھر پہنچے تو مجھے محسوس ہوا کہ بیٹی کو سانس لینے کی تکلیف ہے۔ گھر میں سب نے کہا بچے ایسے ہی تیز تیز سانس لیتے ہیں۔ مگر مجھے ایک پل کا سکون نہ تھا۔ پیارے بھائی اور انتہائی مہرباں دوست ڈاکٹر عمر فاروق صاحب کے کلینک پر چیک کروانے کے لیے لے کر گیا تو ڈاکٹر صاحب نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے بچی کے دل میں مسئلہ ہو آپ چلڈرن ہسپتال ملتان سے چیک کروا لیں۔

زندگی میں بہت اونچ نیچ دیکھی ہے مگر ڈاکٹر صاحب کی بات نے اندر سے ہلا کر رکھ دیا۔ اگلے دو گھنٹے کیسے گزرے اس اذیت اور کنفیوژن کی کوئی مثال دینے سے قاصر ہوں۔

ابا جی تک ان کی پوتی کے متعلق شاید کسی نے بتایا تو فون کر کے تسلی دی۔ میں نے کہا ابا جی دعا کریں پریشان ہوں۔ کچھ دیر شاید کوئی دو منٹ ابا جی خاموش رہے ہوں گے ۔ میں ہیلو ہیلو ہی کرتا رہا۔ کافی دیر بعد بہت ہی گمبھیر اور رونے کی سی کیفیت میں بولے ”پتر اولاد کی فکر تو ہوتی ہی ہے“ ”پیدائش کے پہلے دن سے لے کر باپ کے اس دنیا کے جانے کے لمحے تک باپ بس یہ سوچتا رہتا ہے کہ اس کے بچوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ بچے کی آواز سنتے ہی باپ سوچنے لگتا ہے کہ میرا بچہ ڈاکٹر بنے گا یا افسر یا فوجی۔

جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے فکر بڑھتی جاتی ہے اور بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ پھر باپ اپنی ذات بھول جاتا ہے اسے بس اپنے بچوں کے متعلق ہی سوچ رہتی ہے“ ۔ ابا جی اور جانے کیا کچھ کہتے رہے۔ میں بس ابا جی کے ایک پرانے جملے کو دل و روح میں گونجتا محسوس کرتا سنتا رہا کہ ”خدا جانے یہ نوکریوں کے ٹیسٹ اور انٹرویو کرنے والوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کم عقلوں کو نوکری پر بیٹھا دیتے ہیں“ ابا جی ٹھیک کہتے تھے میں واقعی کم عقل تھا۔ کور چشم بھی۔ وہ فاصلہ جسے میں ابا جی اور اپنے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ سمجھتا تھا وہ تو محض میری عقل اور سمجھ کے درمیان حائل پردے برابر تھا۔

مندرجہ بالا احوال ہمارے دوست برادرم رؤف لک صاحب کا ہے۔ رؤف لک سے ہمارا تعلق کچھ زیادہ پرانا نہیں مگر یہ نوجوان ہمیں حیران کر دیتا ہے۔ ان کا اور میرا بچپن قریب قریب ہی گزرا لیکن نصیب میں ملاقاتیں اب لکھی تھیں۔ یہ ذہین نوجوان متعدد بار پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحان پاس کر چکا ہے۔ اصول پسندی اور ایمانداری کا یہ عالم ہے کہ آڈیٹر جیسی پوسٹ چھوڑ کر معلم بننے کی تیاریوں میں لگا ہے۔ ان کے ساتھ کے آڈیٹرز کو چائنہ کی بائیک سے دو دو بنگلوں دو دو گاڑیوں تک کا سفر مہینوں میں طے کرتے دیکھ چکا ہوں۔

مگر رؤف بیٹی کی اس تکلیف کے وقت بھی تنخواہ کا انتظار کر رہا ہے اور قسطوں پہ اے سی ڈھونڈ رہا ہے۔ خون عطیہ کرنا ہو یہ سب سے آگے ہوں گے کسی کی تعلیم فنڈ کرنی ہو رؤف لک لیڈ کرتے نظر آئیں گے۔ اپنا نہیں دوستوں کا بھی فائدہ ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ ایسے نوجوان بہت کم ہیں اور ایسے نوجوان ماں کے پیٹ سے ہی ایسے پیدا نہیں ہوتے ان کی تربیت کرنا پڑتی ہے اور یقیناً ایسی تربیت میں ان کے والدین کا ہی ہاتھ ہے۔ رؤف کے والد صاحب کی محبت اک مثال ہے رؤف کی بیٹی کے لیے تڑپ اک مثال ہے کہ باپ اپنی اولاد سے کس قدر محبت کرتا ہے۔

ہمارے ہاں ماں کی محبت کو بہت گلیمرائز کیا جاتا ہے مگر باپ کی محبت شفقت قربانیوں کا اتنا ذکر نہیں ہوتا۔ ماں تو اپنی اولاد کو اپنے دامن میں چھپا کر رکھنا چاہتی ہے مگر باپ دنیا کی بے ثباتی اور چالاکی کے تھپیڑے جھیل رہا ہوتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد کا مستقبل محفوظ ہو دنیا کے کسی میدان میں پیچھے نہ رہے۔ دنیا اس کے ساتھ ایسا کچھ نہ کرنے پائے کہ جس سے اس کی زندگی میں پریشانیاں آئیں۔ ہم باپ کی اس فکر کو اس کی ڈانٹ ڈپٹ کو اس کے دل پہ جبر کر کے اپنے اوپر سختی کا اک خول چڑھانے کو کچھ اور ہی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ چند دن پہلے فادرز ڈے تھا سوشل میڈیا پہ ہر طرف سے فادرز فادرز ہو رہی تھی آج آپ سوچیں کہ فادرز ڈے اور اس کے بعد سے آپ نے اپنے والد کے ساتھ کتنا وقت بتایا ہے کتنی گفتگو کی ہے کتنی دیر بیٹھے ہیں کتنے ان کے دکھ سکھ بانٹے ہیں۔ یقیناً جواب مل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments