’ارطغرل‘ کے بعد ترک خفیہ ایجنٹس کی کارروائیوں پر مبنی نئے ڈرامے ’تشکیلات‘ میں کیا ہے اور یہ اتنا مقبول کیوں ہو رہا ہے؟

برل اکمان - ترک امور کی ماہر


ترک خفیہ ایجنسی کی ستائش پر مبنی ٹی وی ڈراموں کی ایک سیریز نے رواں برس مارچ سے دھوم مچا رکھی ہے کیونکہ بڑی تعداد میں ناظرین نے اسے دیکھا اور پسند کیا ہے۔ یہ ڈرامہ سیریز موجود ترک حکومت کی جارحانہ خارجہ پالیسی اور قوم پرستی پر مبنی بیانیے سے بھی ہم آہنگ ہے۔

سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی پر ’تشکیلات‘ کے عنوان سے ٹیلی کاسٹ ہونے والے ڈراموں کی سیریز کا مرکزی خیال قومی انٹیلیجینس آرگنائزیشن (ایم آئی ٹی) کے ایجنٹس کی طرف سے ترکی کے کامیاب ڈرون پروگرام کے چوری شدہ رازوں کو بازیاب کرنے کی کاوشوں پر مبنی ہے۔

اس ڈرامے کی عکس بندی میں اطلاعات کے مطابق ایم آئی ٹی کے نئے ہیڈ کواٹر کے سین بھی شامل ہیں اور اس سیریز کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے تاہم کچھ ناقدین نے اس کو محض پراپیگنڈہ قرار دے کر رد کر دیا ہے۔

ترکی بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام بحال کرنے کی کوششوں میں ہے اور ’تشکیلات‘ نامی سریز ترکی کے موجودہ حکمران طبقے کی دنیا کے بارے میں سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

مرکزی خیال

یہ ڈرامہ سیریز ان ترک انٹیلیجنس ایجنسی کی فرضی کارروائیوں کی کہانی ہے جو ترکی کے خلاف بین الاقوامی سطح پر سرگرم مشکوک نیٹ ورک کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے کی جاتی ہیں۔

ایم آئی ٹی کے ایجنٹوں کو ڈرون پروگرام کے رازوں کو ترکی واپس لانے کا مشن سونپا جاتا ہے۔ زیاد فادی کا کردار ڈرامے کا ولن ہے جو ’سرکت گروپ‘ کا حصہ ہے۔

حکومت نواز اخبار ’نئی شفق‘ نے فادی کے کردار کا فلسطین گروپ ’فتح‘ کے سابق جلاوطن رہنما محمد دہلان سے موازنہ کیا ہے۔ فادی کا پس منظر بھی محمد دہلان کے پس منظر کی طرح ہے جو فلسطینی پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں پروان چڑھتے ہیں۔ دہلان بھی اطلاعات کے مطابق ایک زمانے میں ’ابو فادی‘ کے نام سے مشہور تھے۔

دہلان کا نام ترکی نے مطلوبہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جس کی وجہ سنہ 2016 میں ترکی میں ناکام بغاوت میں ان کا ملوث ہونا ہے۔

ڈرون

ترکی کے مسلح ڈرون طیاروں کے مناظر پوری سیریز میں نظر آتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں ترکی کے تیار کردہ ڈرون طیاروں نے عالمی سطح پر شہرت حاصل کی ہے اور لیبیا، عراق اور ناگرونو کارباخ میں ان کا بڑی کامیابی سے استعمال کیا گیا۔

ڈرامے کی کئی اقساط میں شمالی عراق کے ڈرون سے فلمائے گئے مناظر دکھائے گئے جس کا مقصد کرد جنگجوؤں کے خلاف ان کے موثر استعمال کو اجاگر کرنا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ترکوں کی جنگی تاریخ کے عروج و زوال کی کہانی

کیا ترکی سلطنت عثمانیہ کی تاریخ دہرانے کی کوشش کر رہا ہے؟

’ارطغرل‘ کے ہیرو کے ساتھ ’فراڈ‘: ٹک ٹاکر پر ’دادا سے ملنے کے بہانے‘ لاہور بلانے کا الزام

ڈرامے کے ایک منظر میں فادی کہتا ہے کہ ‘میں ترکی کے ڈرون کی تباہی پر ترکی کے ایجنٹوں کی حیرانی دیکھنے کے لیے بے چین ہوں۔’

ڈرامہ سیریز میں ترکی کی طرف سے جدید ترین جنگی سازو سامان اور ہتھیار بنانے میں کامیابیوں کو بھی دکھایا گیا ہے۔

دفاعی صنعت کی وزارت نے جس کی سربراہی اسماعیل دمیر کرتے ہیں، 23 مارچ کو ڈرامے کا ایک کلپ ٹویٹ کیا جس میں ترکی کو بین الاقوامی سطح پر درپیش مشکلات کے باوجود ترکی میں مقامی سطح پر بنائی گئی دفاعی ٹیکنالوجی کی تعریف کی گئی۔ اس کلپ میں اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ ترکی جلد ہی لڑاکا طیارہ بنانے میں بھی کامیاب ہو جائے گا۔

دمیر نے کہا کہ ایک لمحے کے لیے بھی شکوک و شبہات کا شکار نہ ہوں ہم یقیناً یہ حاصل کر لیں گے۔

دہشت گردی

انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں بھی ڈرامے کے موضوعات میں شامل ہے اور دہشت گرد وہ شیطانی عناصر ہیں جو فادی کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

ڈرامے کی چھٹی قسط میں دہشت گردوں اور ترکی کے ایجنٹس کی شمالی عراق میں لڑائی دکھائی جاتی ہے جب کہ ساتویں قسط میں ایک دہشت گرد کی ایک ریکارڈنگ دکھائی گئی جس میں وہ ترکی سے اپنے ساتھیوں کی موت کا بدلہ لینے کا عزم کر رہے ہیں۔

آخری قسط میں سنہ 2017 میں ترکی کے شمالی علاقے میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی طرف سے ایک بچے ایرن بلبل کو قتل کیے جانے کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

اس میں دکھایا گیا ہے کہ ترکی کا ایک ایجنٹ ایک جہاز میں ایرن نامی بچے کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ ایجنٹ بچے سے مخاطب ہوتا ہے ‘ارین ہمیشہ بہادر ہوتے ہیں، تم بھی بہت بہادر ہو۔ ایرن ہمارے ساتھ آنے کا شکریہ۔’

کردستان ورکر پارٹی ’پی کے کے‘ کئی دہائیوں سے ترکی سے زیادہ خودمختاری حاصل کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔ پی کے کے کو ترکی کے علاوہ یورپی یونین اور امریکہ نے بھی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

رواں برس جنوری میں ملک کی وزارتِ داخلہ نے کردستان ورکرز پارٹی کے خلاف ’ایرن آپریشن‘ کے نام سے کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کارروائیوں کو مبینہ طور پر علیحدگی پسند گروہوں کے ہاتھوں ایرن بلبل نامی بچے کی ہلاکت کی یاد میں ایرن آپریشن کا نام دیا گیا۔

خارجہ پالیسی

اس ڈرامے میں ایم آئی ٹی کے ایجنٹوں کا کردار ادا کرنے والے اداکار بار بار مخالفین کے خلاف کارروائیوں میں حب الوطنی پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔

ڈرامے کی پہلی قسط میں جرمنی میں ’نیو نازی‘ تنظیم کے لوگ ایک تارک وطن کے گھر کو آگ لگا دیتے ہیں جس میں ایک بچہ جو بڑے ہو کر ایم آئی ٹی کا ایجنٹ بناتا ہے یتیم ہو جاتا ہے۔

بظاہر کہانی کا یہ حصہ بھی 1993 میں شولنگن حملے سے لیا گیا ہے جب ایک انتہا پسند گروہ نے ایک گھر کو آگ لگا دی تھی جس میں پانچ ترک تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے۔

ایک ترک سفارت کار نے حملے میں یتیم ہونے والے بچے سردار کو ترکی واپس لانے کی ذمہ داری لی۔ جب سردار کہتا ہے کہ اس کا اب کوئی نہیں رہا تو ترک سفارت کار جواب دیتا ہے ’تمہارے لیے تمہاری ریاست ہے۔‘ اس وقت کیمرہ سفارت کار کی انگھوٹی پر جاتا ہے جس پر ترکی کا پرچم بنا ہوا ہے۔

ڈرامے کی دسویں قسط میں ترکی کی خطے میں عسکری کارروائیوں کا ذکر ہے۔ اس قسط میں ایک ڈرامے کا ایک کردار اس بات پر سوال اٹھاتا ہے کہ ترک فوج شام میں کیا کر رہی ہے۔

اس کے جواب میں ایک ایجنٹ سوال کرتا ہے کہ اٹلی، امریکہ اور روس وہاں کیا کر رہے ہیں؟ چین وہاں کیا کر رہا ہے؟ ایک اور ایجنٹ کہتا ہے کہ ’جس جگہ کو تم شام کہتے ہو وہ سو سال قبل ترکی کا حصہ تھا۔‘ اس کا واضح اشارہ سلطنت عثمانیہ کی طرف تھا۔

یہ کلمات ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے اس بیان کی بازگشت لگتے ہیں جو انھوں نے مارچ سنہ 2020 میں دیا تھا۔ اردوغان نے کہا تھا کہ ہم سے سوال کیا جاتا ہے کہ ہم شام میں کیا کر رہے ہیں لیکن دوسرے ملکوں سے یہ سوال نہیں کیا جاتا۔

نویں قسط میں دو ایجنٹوں اور ایک یونانی شہری کے دوران مکالمے میں یونان کے بارے میں ترک حکومت کی سوچ عکاسی کا جاتی ہے۔ ’یونان میں ہم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہم اقلیتوں کو پورے حقوق دیں گے لیکن وہ یونان میں بچوں کو ان کی مادری زبان، ثقافت اور مذہب سے دور کرنے کی پورے کوشش کر رہے ہیں۔’

یونان میں مغربی تھریس میں مسلمان اقلیت ترکی اور یونان میں تنازع کا باعت ہے۔ ترکی یونان پر اکثر اقلیتوں کے حقوق پامال کرنے کا الزام لگاتا ہے۔

ڈرامے کا اثر

تشکیلات نے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بہت مقبولیت اور توجہ حاصل کی ہے۔

تشکیلات کے نام سے ایک ہیش ٹیگ اکثر ٹرینڈ کرتا ہے اور فیس بک پر بھی لوگ اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس ہیش ٹیگ سے مارچ میں پہلی اور جون میں آخری قسط نشر ہونے کے درمیان چھ لاکھ 20 ہزار ٹوئٹر پیغام کیے گئے۔ ہر قسط کو 30 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے یو ٹیوب پر دیکھا اور اس پر بڑے پُرجوش انداز میں تبصرے کیے۔

آخری قسط پر ایک تبصرے میں کہا گیا کہ اس پورے ڈرامے کا واضح پیغام ہے کہ’ترکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔’

مزید پڑھیے

سلطنتِ عثمانیہ: تین براعظموں کے سلطان

ارطغرل:صدر اردوغان کی اسلامی قوم پرستی کا ہدف سلطنتِ عثمانیہ کی بحالی ہے؟

سکیورٹی کے امور کے ایک جانے پہچانے ماہر متی یرار نے کہا ’تشیکلات کو مبارکباد۔‘ انھوں نے ترکی کے خفیہ ادارے میں بہتری کی بھی تعریف کی اور خفیہ کارروائیوں میں جدید ٹیکنالوجی کو بھی سراہا۔ لیکن کچھ ناقدین نے اس کو محض پراپیگنڈہ قرار دیا۔

سوشل میڈیا کے ایک صارف نے کہا کہ ’یہ مکمل طور پر حکمران جماعت جسٹس اور ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی پراپیگنڈا سیریز ہے۔‘

حکومت کے حامی ایک اخبار ’ملت‘ میں ٹی وی کی تبصرہ نگار ثنا کولوگلو نے لکھا کہ ’پراپیگنڈہ اس طرح کے ڈراموں میں عام سی بات ہے۔‘ انھوں نے کہا دیکھنا یہ ہے کہ یہ کس انداز میں کیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر دلچسپی

تشکیلات ٹی آر ٹی کے ڈراموں کا حصہ ہے جس میں حکومت کے تصورات سے مطابقت رکھنے والے قومی اور مذہبی موضوعات کو پیش کیا جاتا ہے۔

ارتغرل ڈرامہ جس نے بین الاقوامی سطح پر بھی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے اس میں سلطانت عثمانیہ کے بانی کی کہانی بیان کی گئی۔ اس کی پذیرائی کی بڑی وجہ اس کا مذہبی رنگ اور اس کی تاریخی کہانی تھی۔

ایک اور ڈرامہ سیریز ’بر زمانلار قبرص‘ ایک دفعہ قبرص کے نام سے نشر کی گئی جو ترک قبرصی خاندانوں پر سنہ 1963 میں حملوں کی داستانوں پر مبنی تھا۔

ایک اور ڈرامہ سیریز باربروسا کے نام سے آنے والی ہے جس میں سلطنت عثمانیہ کی سمندری فتوحات میں شامل کرداروں کو اجاگر کیا جائے گا۔ اس کا مقصد ترکی کی بحری پالیسی کے لیے لوگوں کا ذہن استوار کرنا ہے۔

ٹی آر ٹی کے ڈائریکٹر جنرل ابراہیم ایرن نے کہا کہ ’ہم نے ہمیشہ سکرپٹ اور پروڈکشن پر توجہ دی ہے تاکہ ملک تاریخ، ثقافت، اخلاقیات اور انسانی اقدار کا تحفظ کیا جا سکے اور ہم ایسا کرتے رہے ہیں۔‘

ٹی آر ٹی کی کئی کاوشوں کو حالیہ برسوں میں بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تشکیلات کو بھی اس ہی نوعیت کی پذیرائی حاصل ہو گی لیکن ایک بات واضح ہے کہ ترکی کی موجودہ قیادت اپنے اہداف کے حصول کے لیے عوامی تائید حاصل کرنے کے لیے یہ کچھ کرتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp