معصومیت سے شعور تک کا سفر


بہت سے خواب آنکھوں میں سجائے، محنت، امید اور کامیابی کے جذبے سے سرشار دل اور آگے بڑھنے کی لگن مجھے جامعہ پنجاب کھینچ لائی۔ ایف اے میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے کے بعد والد صاحب کے پرزور اصرار، خواہش اور اپنی بیٹی کی محنت پر یقین رکھتے ہوئے میرا ایڈمیشن ڈیپارٹمنٹ آف انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر، جامعہ پنجاب میں کروا دیا گیا جو کہ اب انسٹیٹیوٹ آف انگلش سٹڈیز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ معلوم کروایا گیا تو پتہ چلا کہ اعوان ٹاؤن کے یونیورسٹی بس روٹ کی ٹائمنگ صبح سات تیس اور واپسی کی ٹائمنگ تین بجے ہے۔

والد صاحب صبح سات دس پر سٹاپ پر چھوڑ آئے کیونکہ پہلا دن بھی تھا اور ہم کچھ وقت کے پابند بھی ہیں۔ ڈر اور خوف کو اپنے دل میں چھپائے، چہرے پر خوشی، امید اور اعتماد بحال رکھے میں بس میں سوار ہوئی جو کہ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ خیر جی ہمیں بھی نگاہ دوڑاتے ایک نشست پر براجمان ہونے کا اعزاز مل ہی گیا۔ بس اپنے منتخب کردہ سٹاپ سے طالب علموں کو بٹھائے، سفر پر روانہ ہوتی پنجاب یونیورسٹی داخل ہوئی۔ بس کنڈیکٹر نے آئی بی اے اور پندرہ نمبر کی صدا بلند کی اور ان ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ طالب علم نیچے اتر گئے جبکہ میں اللہ اللہ کرتے پوچھتی پچھواتی اپنے ڈیپارٹمنٹ پہنچ ہی گئی۔

دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی جو نئے لوگوں اور نئی جگہ کے ڈر سے بڑھ رہی تھی۔ لیکن اللہ کا شکر مجھے جلد ہی اپنے کلاس فیلوز مل گئے کیونکہ پہلے دن کا طالب علم اپنے آپ ہی پہچان لیا جاتا ہے ۔ انتظار کو دو گھنٹے بیت چکے تھے لیکن کلاس ٹائم ٹیبل ندارد تھا۔ اپنی کلاس میں جانے لگی تو کیا دیکھتی ہوں کلاس میں لڑکے بیٹھے تھے میں تو ہڑبڑا کر باہر نکل گئی لیکن بھلا ہو سینیئرز کا مجھے اندر بلایا اور بات چیت کا آغاز کیا جس سے تسلی ملی۔

پھر ہم کلاس کی لڑکیوں نے سوچا کہیں گھوم پھر آتے ہیں۔ مجھ سے آنے کا کہا گیا تو میں تو ڈر گئی کہ نہیں کسی سے ڈانٹ پڑ جانی کہ باہر کیوں نکلے کیونکہ میرے ذہن میں تھا کہ شاید سکول اور کالج جیسا ہی نظام یونیورسٹی میں بھی ہو۔ لڑکیاں ہنس پڑیں اور کہتی یہاں ایسے نہیں ہوتا۔ کوئی آنے جانے پر پابندی نہیں۔ کلاس فیلوز کے ساتھ باہر نکل کر یونیورسٹی کی خوبصورتی اور تازگی دیکھ کر اچھا لگا۔ پنجاب یونیورسٹی وسیع و عریض رقبہ پر محیط عمدہ تعمیر و مرمت، علم و ادب اور نادر و نایاب کتابوں کے خزانوں سے لیس لائبریریز اور قدرتی حسن و جمال کا پیکر ہے جسے ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا اعزاز حاصل ہے جہاں دنیا بھر کے لوگ اچھی اور معیاری تعلیم کے حصول کی غرض سے ادھر کا رخ کرتے ہیں۔

گھوم پھر کر واپس آئے تو گیارہ بجے ہونے والے لیکچر کی بابت خبر ملی۔ لیکچررز قابل اور تعلیم یافتہ ہیں لیکن شروع کے لیکچرز میں بولے جانے والی مشکل انگریزی تو بھک سے دماغ سے اڑ گئی کیونکہ کچھ باتیں میرے پلے ہی نہ پڑیں۔ ہر چند یہ کہ دل کو تسلی دلائی کہ ابھی شروعات ہے میں اپنے لیے ان تمام مشکلات کو آسان بنا لوں گی۔ ہاں یاد آیا کہ سینیئرز نے ریگنگ بھی کی۔ کچھ سینیئرز میسنے بنے اپنے آپ کو جونیئرز ظاہر کروائے ہماری کلاس میں تشریف رکھے بیٹھے تھے۔ انھی کی ایک کلاس فیلو ہماری لیکچرر بن کے آ گئی اور ہم معصوم ہی بنے بیٹھے رہ گئے۔ قصہ مختصر دلچسپ تجربہ رہا۔

دن، مہینے اور سال گزرتے رہے۔ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ پہلے مجھے لائبریری میں پڑے کمپیوٹرز کو چلانا نہیں آتا تھا۔ right and left click کی سمجھ نہ آتی تھی۔ سب سے مدد طلب کرتی پھرتی رہتی۔ پھر میرے دل میں خیال گزرا کہ ناواقفیت کے ڈر اور خوف کو کیوں نہ شکست دی جائے اور خود کرنے کی کوشش کی جائے۔ میں کمپیوٹر پر کلکس کرتی گئی، سیکھتی گئی اور میرا اللہ میری مدد کرتا گیا۔ اب میں نہ صرف اپنی بلکہ دوسرے ہم جماعتوں کی بھی Word document assignments or PowerPoint presentation slides میں مدد کرتی ہوں۔ بقول میاں محمد بخش

صبر دا پھل مٹھا ہوندا تے بے صبرا پھل کوڑا
منزل نوں او پا نہیں سکدا جیہڑا پے جاندا اے سوڑا

کلاس کے شیڈول کے مطابق روز مختلف اوقات کے تحت کلاسز تھیں جبکہ بس کی ٹائمنگ مخصوص تھی۔ پھر میں نے خود آنے جانے کا فیصلہ لیا۔ شروع میں تو یہ فیصلہ مشکل لگا کیونکہ کبھی اکیلے آنا جانا نہ ہوا لیکن یونیورسٹی نے یہ بھی سکھا دیا۔ روز چار سواریاں تبدیل کر کے جانے نے میرے اعتماد اور شعور کو بڑھانے اور خوف کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دنیا میں کوئی بھی کام مشکل نہیں اگر محنت، خلوص دل اور نیت، امید اور کامیابی کے یقین کے ساتھ کیا جائے۔

پہلی پریزینٹیشن دیتے وقت بہت گھبراہٹ، کپکپاہٹ اور آواز میں لرزش تھی۔ لیکن اب کافی حد تک بہتری آ چکی ہے۔ اب میں نہایت خوداعتمادی، جوش و جذبے اور سچی لگن کے ساتھ اپنا علم بانٹتی ہوں کیونکہ میں نے اپنے ڈر کہ میری آواز بولتے ہوئے لوگوں میں کہیں دب جائے گی، کو مات دے دی۔ بی ایس B۔ S کے چھے سمیسٹرز پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ انشاء اللہ آگے بھی اچھے کی امید ہے۔ پہلے پہل مجھے انگلش لٹریچر میں کوئی خاصی دلچسپی نہ تھی لیکن پھر میں نے بھی اسے اپنا معاون بنانے کی ٹھان لی۔ یہاں آ کر مجھ میں کتب بینی کا شوق پروان چڑھا اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا۔

میں نے یونیورسٹی میں بہت سے طلباء دیکھے کوئی آنکھوں سے معذور ہے تو کوئی ٹانگوں سے، کوئی بولنے کی صلاحیت سے محروم ہے تو کوئی چلنے پھرنے کی دشواریوں میں مبتلا۔ تکلیفیں مختلف تھیں لیکن خود اعتمادی، جذبے، ہمت، امید، اور محنت میں سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے کیونکہ ان کے خواب اونچے تھے۔ بقول علامہ اقبال کے

ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

مزید برآں پنجاب یونیورسٹی میں گزرا وقت زندگی کے کچھ انمول ساتھیوں اور ان کے ساتھ گزری خوبصورت یادوں اور حسین لمحوں کا مرکز ہے۔ انگریزی کے معروف کردار مسٹر چپس سو فیصد درست ہی تو کہا کرتے تھے کہ

”some memories lost their charm when they were written down“ .

زندگی بہت خوبصورت ہے بشرطیکہ آپ خوش رہنا جانتے ہوں۔ خوشی کا تعلق آپ کی سوچ سے ہے۔ لہذا نامساعد حالات سے دلگرفتہ ہونے سے اجتناب کرتے ہوئے ان کا حل تلاش کریں، مثبت رہیں، کبھی بات مان جایا کریں کبھی بات منوا لیا کریں، انا کو نہ آڑے آنے دیا کریں، اپنی ہی دنیا میں الگ تھلگ رہنے کی بجائے باہر نکلا کریں کیونکہ اس سے آپ کی سوچ کو وسعت ملے گی اور دنیا اور زندگی کو مختلف نکتہ نظر اور زاویوں سے جاننے کا موقع ملے گا لہذا مشاہدہ کیا کریں۔

تعلیم یافتہ لوگوں کی محفلوں میں بیٹھیں۔ اس سے آپ زندگی کے بہت سے رنگ دیکھ سکتے ہیں، لوگوں کو پرکھنا چھوڑ دیجئے، دوسروں سے کم توقعات رکھیں کیونکہ یہ صرف مایوسیاں بڑھاتی ہیں، خوش رہیں خوشیاں بکھیریں، شکر کی عادت ڈالیے ، اپنی ذات سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائیں، خواب دیکھیں اور ان کی تکمیل کے لیے کوشاں رہیئے، بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو حالات پر ملامت اور لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے، خود اٹھیں، اپنے اندر کی ہمت مجتمع کریں، غور و خوض کریں، مشکلات کا سامنا کریں، آپ اور آپ کا وقت قیمتی ہے اسے ضائع ہونے سے بچائیں۔ یقین رکھیں آپ سب کچھ کر سکتے ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments