ذوالفقار علی بھٹو، پاکستان اور مسلم امہ


پاکستان بننے کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی انتشار نے کئی سیاسی جماعتوں کو جنم دیا۔ ہر جماعت کے اغراض و مقاصد نہ صرف محدود تھے بلکہ ذاتی اور مکمل طور پر عوامی مفادات سے بھی مطابقت نہ رکھتے تھے۔

5 جنوری 1928 ء کو لاڑکانہ میں سر شاہنواز بھٹو کے گھر پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان کے سیاسی امور سے وابستگی کا آغاز 1957 ء میں ایک بیرون ملک کے دورے میں پاکستانی وفد میں شرکت سے کیا۔ ملک واپسی پر تجارت اینڈ کامرس کی وزارت سنبھالتے ہوئے باقاعدہ حکومت میں شامل ہو گئے۔

1958 میں ایوبی مارشل لائی حکومت میں وزارت خزانہ سے ہوتے ہوئے وزیر خارجہ اور کیبنٹ سینیئر وزیر کا عہدہ بھی سنبھالا۔ ملک کو امریکن لابی سے نکال کر رشیا کے ساتھ تجارتی اور دفاعی تعلقات قائم کیے ۔ اور ملک کو ترقی کی سیڑھی کے پہلے زینے پر چڑھایا۔ انہوں نے دور ایوبی میں ملکی مفادات کے منافی بعض اقدامات خاص طور پر معاہدہ تاشقند میں ایوب خاں کی پالیسی اور مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لئے قومی موقف سے انحراف کے بعد نہ صرف حکمران جماعت سے علیحدگی اور وزارت خارجہ کے منصب سے الگ ہونے کا اعلان کیا بلکہ ملک میں نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا اور پھر 30 نومبر 1967 ء کو لاہور میں ایک اجتماع کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے بھٹو صاحب کی سرپرستی میں عوام میں اپنا ایک مقام بنایا اور جلد ہی مغربی پاکستان کی مقبول ترین جماعت بن گئی۔

بگڑتے ہوئے حالات دیکھ کر ایوب خان اقتدار سے علیحدہ ہو گیا اور عنان حکومت اپنے نائب جنرل یحییٰ خان کو سونپ گیا۔ مشرقی پاکستان میں شورش انتہا تک جا چکی تھی۔ اسی دوران 1970 میں ملک میں عام انتخاب کروائے گئے جس کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے پاکستان پیپلز پارٹی بھاری اکثریت کے ساتھ سامنے آئیں۔ 3 سال اقتدار کے مزے لے کر یحییٰ خان کے لئے اقتدار منتخب جماعتوں کو سونپنا مشکل ہو گیا اور یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام کے ساتھ ایک نئے ملک کی حیثیت میں دنیا کے نقشے پر آیا۔

مغربی پاکستان کے حالات ابتر ہونے لگے اور پھر عوامی رد عمل کی تاب نا لاتے ہوئے یحییٰ خان اقتدار سے الگ ہو گیا اور عنان حکومت ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا۔ اس وقت بھٹو صاحب امریکا میں مقیم تھے یحییٰ خان کے اقتدار کی ہوس میں ملک کے دو ٹکڑے ہونے کی وجہ سے بھٹو صاحب نے پاکستان کو خیر باد کہہ دیا تھا اور امریکا شفٹ ہو چکے تھے۔

اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو صاحب کو ایک مایوس قوم اور ایک تہائی افواج انڈیا کی قید اور ملک کا کچھ حصہ انڈیا کے قبضہ میں ملا۔

بھٹو صاحب نے مایوس قوم میں امید کی نئی کرن پیدا کی کمال مہارت سے انڈیا کے قبضہ سے ملک کا حصہ اور افواج کو آزاد کروایا۔

بھٹو صاحب نے ڈیڑھ سال کے مختصر عرصہ میں اس ملک کو ایک جمہوری تمام پارٹیوں کی مدد سے متفقہ آئین دیا۔ انہوں نے چار سال کے نہایت مختصر دور حکومت میں پاکستان کو کنویں سے نکال کر ترقی یافتہ ممالک کی جانب لائن میں لگا دیا۔

بھٹو صاحب ملکی مفاد میں بہت سارے کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔
ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک متفقہ آئین بنایا اور نافذ کیا۔

انٹرنیشنل لیول پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا قیام اور ملک میں سکول و کالجز کا جال۔ مفت تعلیم ہر فرد کے لئے طالب علموں کے مسائل کے حل کے لئے سٹوڈنٹ یونین اور ملک کے مزدوروں کے لئے مزدور یونین کا قیام عمل میں لائے۔

اشرافیہ کی اجارا داری ختم کرنے کے لئے انڈسٹریز کو ملکی تحویل میں لیا مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے لیبر قوانین اور لیبر کورٹ تشکیل دیں۔ شناخت کے بغیر رہنے والی قوم کو شناخت دی اور قومی شناختی کارڈ کا اجرا کیا گیا۔ اور اشرفیہ کے علاوہ تمام ملکی افراد کو پاسپورٹ بنانے کی اجازت دے دی گئی

دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کر کے پاکستانی عوام کو محنت مزدوری کرنے کے لئے غیر ممالک میں بھیجنے کا عمل شروع کیا گیا جس سے ملکی زر مبادلہ بلندی کی طرف جانا شروع ہو گیا

کراچی اسٹیل ملز اور ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے نتیجہ میں افواج پاکستان کے لئے اپنے دفاعی ہتھیار ملکی سطح پر بننے شروع ہو گئے۔

لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی۔ جس میں مسلم ممالک سے مل کر دنیا میں مسلم ممالک کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اسلامی بلاک کی بنیاد رکھی گئی۔

1974 میں انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان میں پہلا ایٹمی پروگرام شروع کیا۔

ایٹمی پروگرام، عوام کو اشرافیہ کی غلامی سے باہر نکالنا اور مسلم ممالک کو یکجا کرنا سامراجی قوتوں کے سامنے بھٹو صاحب کی سنگین غلطی تھی۔ یہیں سے سامراجی قوتوں نے اسلامی دنیا کے اس عظیم لیڈر کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ٹھان لی اور سازشوں کے جال بننا شروع کر دیے بھٹو صاحب کو وارننگیں دی جانے لگی۔ مگر وہ عظیم انسان امت مسلمہ کا حقیقی لیڈر اپنی موج میں سامراجی قوتوں کے خلاف عوامی مفاد کی جنگ لڑتا گیا۔ مگر آخر کب تک لڑتا بالآخر سامراجی قوتوں کو میر جعفر اور میر صادق کی نسل سے ضیاء الحق کی شکل میں ایک مہرہ مل گیا جس نے پہلے ملک میں 5 جولائی 1977 میں مارشل لاء لگایا اور پھر مولوی مشتاق جیسے بے ضمیر ججز کی مدد سے بھٹو صاحب کو ایک ایسے مقدمہ میں پھانسی کی سزا سنوائی جس میں بھٹو صاحب پر قتل کا الزام بھی نہی تھا۔ اور پھر 4 اپریل 1979 کو اسلامی دنیا کے اس عظیم لیڈر کو پھانسی دے دی گئی۔

اور یوں لاڑکانہ سے ابھرا ہوا سورج راولپنڈی کی چٹانوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب کر دیا گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments