نمرہ وارث کا شعری جہان


ابہام کو شعری قرات کا عیب قرار دینے والے شارحین اور قارئین متن کو کسی لازمی وحدت کی شکل میں دیکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں جن کے نزدیک شعر کی مختلف پرتیں دریافت کرنے کی کوششیں بھی لغوی یا روایتی طور پر روا استعاراتی معنوں تک پہنچنے کی سعی سے زیادہ نہیں ہوتیں، حالانکہ معنی کا ہالہ لفظ سے جڑت کے باوجود متن کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر موجود ہوتا ہے۔ مثلاً میرا جی کی نظم ”کئی ستارے چمک رہے ہیں“ کی تفہیم محض متن کے بیانیے کی اندرونی تعبیر سے پوری نہیں ہوتی، اس کے لیے متن کے بیرونی ماحول کا ادراک بہت ضروری ہے جو بتاتا ہے کہ متکلم اس نظم میں سامع کو صبح کے آنے کی خبر کیوں دے رہا ہے۔

صبح کے آنے کی خبر دراصل ایک دوسرے سے جدا ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ معاشرتی رسوم اور قوانین دو متضاد جنس کے افراد کو دن کی روشنی میں بھی اکیلا بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس لیے ابہام کا تعلق محض غیر یقینیت سے نہیں بلکہ امکانات کے دائروں سے بھی ہے۔ البتہ ابہام کی درست تفہیم کا تعین قاری کے شعری شعور سے ضرور پابند ہے، ایک اوسط سطح کا قاری جو دو جمع دو چار کا قائل ہو، اس کے لیے ایک ہی متن میں بہت سے مختلف، متضاد اور کثیر معنوں کی موجودگی سے پیدا ہونے والے الجھاؤ کا مطلب امکانات کی موجودگی کے بجائے تخلیق کار کے سلیقہ اظہار میں خامی ہو سکتی ہے لیکن لفظ، معنی اور تعبیر کی مثلث کو گہرائی اور گیرائی، ہر دو حوالوں سے سمجھنے والا قاری ایسے متن سے معنی کے کئی جہان برآمد کرے گا۔

نثری نظم شروع سے ہی ابہام، بے معنویت اور الجھاؤ جیسے سینکڑوں تیکھے الزامات کی زد میں رہی جس کے سبب جہاں بہت سے تخلیق کار نثری نظم کے پیراڈائم سے خائف ہوئے، وہاں بہت سے تخلیق کاروں نے زبردستی مختلف النوع جملوں کے ذخیرے کو ترتیب دے کر اسے نثری نظم قرار دینا شروع کر دیا۔ اس پس منظر میں نثری نظم اور اس کے پورے وجود کو سمجھنے والے نئے تخلیق کار خال خال نظر آتے ہیں جن میں سے ایک ”نمرہ وارث“ بھی ہے۔

نمرہ کی نثری نظموں میں نفسیات، وجودیت، غیریت، جنسی جمالیات اور پس کربیہ/ناسٹلجیا جیسے تصورات اپنے بہت سے متبادل بیانیوں کے ہمراہ نظر آتے ہیں۔ اس کے ہاں جدید فرد کی تنہائی کا تصور ایک منفرد بیانیے کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ تصور اگر نیا نہیں بھی ہے تو روایتی تصورات سے مختلف ضرور ہے۔ مثلاً ایک نظم ”لاشہ“ دیکھیے

ہر صبح یہ لاشہ، یہ بستر
آنکھیں، جو ہمیشہ کھلی رہتی ہیں
پاؤں، جو ہمیشہ دبے رہتے ہیں
ہونٹ، جو گلے سے ربط کھو چکے ہیں
آواز، جو اسی ربط میں ٹوٹ چکی ہے
دل، جس کا اب کوئی ساز نہیں
ہاتھ، پاؤں اور سر دھنسے ہوئے ہیں
آسماں کے نیچ اور زمین کے بیچ
گورکن آتا نہیں ہے، لاشہ اٹھاتا نہیں ہے
لاشہ پہلے سر، پاؤں اور ہاتھ اٹھاتا ہے
پھر آوازوں کا ربط بناتا ہے
ربط، ربط، آواز اور ساز
کوئی دوست، کرگس یا چیل
کوئی نہیں ہے، کوئی نہیں آتا
لاشہ خود اٹھ جاتا ہے
اسی طرح کے اکیلے پن کا تصور نمرہ کی ایک اور نظم ”تنہائی“ میں بھی نظر آتا ہے
اکیلے رہنے سے سراہنے پر سانپ بیٹھ جاتا ہے
دوستیاں ختم ہو جاتی ہیں
اور خلا سات نسلوں کے سینے میں
کسی گونگی ماں کے توسط سے
پھیلتا اور رنگ نچوڑ لیتا ہے
حاملہ عورت، پیلی عورت
گونگی عورت اپنی تنہائی کو آواز کیا دے؟
اپنے ہونے والے خلا کو زبان کیا دے؟
اکیلا رہنا اچھا ہے
مگر شیطان بھی اکیلا ہے
جسے کوئی بھی اعوذ باللہ پڑھ کر بھگا دے
اس کی گردن پر بھی سانپ ہو گا
اسے بھی خلا پر کرنے کے لیے
زمین کے سو سو چکر لگانے پڑیں گے
کبھی کسی کے خدا میں
کبھی کسی کی دعا میں
اب مردود خلا میں واپس نہیں جا سکتا
زمین پر اکیلا رہنا
شیطانی عمل ہے

نمرہ وارث کا شعری سفر طویل نہیں لیکن طوالت از خود کوئی مستند پیمانہ بھی نہیں، راستے اور منزل کے روایتی تصورات نے عمر اور وقت سے جڑے جو مہا بیانیے تشکیل دیے ہیں ان میں سے ایک تخلیق کار کی عمر کو حد سے زیادہ اہمیت دینا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی پچاس سالہ تخلیق کار کلیشے زدہ مصرعے سناتا ہے تو اسے پوری توجہ دی جاتی ہے جبکہ نوجوانوں /کم عمر لکھنے والوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ میری طرف سے نمرہ کے شعری جہان کی آبیاری کے لیے ڈھیروں دعائیں، یونہی نظمیں کہتی رہو، شاد رہو، آباد رہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments