نظام کے ساتھ سوچ کی تبدیلی



برصغیر سے بادشاہت ختم کرنے کے لیے انگریزوں نے اپنی ساری چالاکیاں، عقل و دانش، فہم و فراست استعمال کی اور بڑی ہی جانفشانی سے محنت کر کے ہندوستان سے مغل ایمپائر کا خاتمہ کیا۔ تاج شہنشاہ معظم بہادر شاہ ظفر سے لے کر برطانوی بادشاہت کے حوالے کیا۔ پھر جم کر برصغیر کی عوام پر حکمرانی کی اور ایسی حکمرانی کی آج تک اس کے اثرات ہندوستان، پاکستان دونوں کے طرز حکومت میں موجود ہے

بادشاہت بذات خود کوئی برا طرز حکمرانی نہیں ہے اگر عوام الناس اس کو سند قبولیت بخشتی ہے اور اپنے لیے کسی بادشاہ سلامت کو بہتر سمجھتی ہے تو ضرور اس طرز حکومت کو اپنا لیں جیسا کہ آج بھی ہمارے اسلامی ممالک میں زیادہ تر بادشاہت ہی طرز حکومت ہے اور وہاں بسنے والے لوگوں نے اس نظام کو قبول بھی کر رکھا ہے سالہا سال سے مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے حکمران خاندان ان ممالک کے سربراہ مملکت ہیں۔

ان ممالک میں بادشاہ خود کو بادشاہ کہتے ہیں اور کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ شہزادے، ولی عہد اور دیگر اعلی عہدے دار بھی شاہی خاندان سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور زندگی مربوط طریقے پر گزر رہی ہے قانون کی عملداری بھی ہے۔ رعایا خوش بھی ہے اور ملکوں کا مجموعی ماحول بھی پر سکون ہے۔

مگر یہ نسخہ برصغیر کے عوام پر اپلائی کرنا کیوں مشکل ہوا اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ تاج و تخت مغلیہ خاندان سے لے کر انگریزوں نے اپنی حکومت قائم تو کر دی مگر برسہا برس سے ظل الٰہی کے مسمریزم میں رہنے والی اقوام شروع میں تو اس تبدیلی کو سمجھ ہی نہیں پائی کہ آیا ان کے ساتھ کیا واردات ہوئی ہے۔ جب سمجھ آیا تو ہندو جو کبھی برصغیر پر حکمرانی کر نہیں پائے تھے اور ہمیشہ سے مسلم مغل حکمرانوں کی رعایا بن کر ہی رہے تھے۔ وہ انگریز سرکار کے کار حکومت میں اپنے قدم جما چکے تھے۔

اور مسلمان جو درحقیقت ہمیشہ سے برصغیر پر حکمران رہے تھے کچھ عرصے تک تو تاج و تخت جانے اور شہنشاہ معظم کی جلا وطنی کا غم مناتے رہے اور کچھ وقت انگریزی زبان، انگریزی تعلیم اشیاء و دیگر امور کے بائیکاٹ میں گزار دیا۔

سر سید احمد خان اور دیگر علمی شخصیات کی کاوشوں کے بعد مسلمانوں کے اندر یہ شعور بیدار ہوا کہ بہرحال بادشاہت اب مسلم مغل حکمرانوں سے تاج برطانیہ کو منتقل ہو چکی ہے اور اب عملاً ہندوستان میں مسلمان انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے بھی غلام بنائے جا رہے ہیں۔

پھر قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت نصیب ہوئی اور قائد اور تحریک پاکستان کے جانثار ساتھیوں نے برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں میں یہ احساس جگایا کہ وہ غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ہم آج تک تاریخ پاکستان میں تحریک پاکستان سے متعلق بہت کچھ پڑھتے اور سنتے آئے ہیں پاکستان کیوں بنا، دو قومی نظریہ کیا ہے اس کے قائم ہونے کی وجوہات کیا تھیں غرض ہر پہلو پر خوب علمی کاوشیں کی گئیں ہیں مگر شاید ایک پہلو ایسا ہے جسے نظر انداز کیا گیا یا مناسب وقت نہیں دیا جا سکا۔ وہ یہ کہ طویل عرصے سے بادشاہت کے زیر اثر رہنے والی قوم کو جمہوریت یا پارلیمان، انتخابات، لیڈر اور اراکین کا انتخاب

اس پراسس تک لانے کے لیے بھی بانیان پاکستان کو کتنی محنت کرنی پڑی ہو گی۔ غلامی یا کسی بھی عرصہ دراز سے قائم طرز حکمرانی میں رہنے والی اقوام کو کسی نئے نظام کی طرف لانا آسان امر نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ذہن سازی کرنی پڑتی ہے بحث و مباحثہ، دلیل و حقائق، ریسرچز، مقالے، سیمینار وغیرہ غرض سینکڑوں طرح کے فریم ورک پر کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد کہیں جاکر بتدریج تبدیلی کا عمل شروع ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں مربوط نظام حکومت قائم نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہی ذہن سازی کا کمزور پہلو ہے جس پر اتنی توجہ نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوم آج تک مسترد شدہ بادشاہت اور درحقیقت موروثیت کو جمہوریت سمجھتی ہے یا یوں کہیے کہ اچھی خاصی بادشاہت کی شکل بگاڑ کر اسے پارلیمانی جمہوریت کا نام دے کر خوش ہوتی ہے۔

جبکہ عملی طور پر غور کریں تو آج بھی ہم رعیت ہی ہیں قوم بننے کے ارتقائی عمل سے دوچار مبہم اور مختلف نظام ہائے حکومت بشمول آمریت، جمہوریت، صدارت کے زیروبم میں الجھے ہوئے گومگو کی کیفیت کا شکار منتشر رعایا شاید یہی ہمارا اصل تعارف ہے۔

اس میں اگرچہ زیادہ تر قصور وار وہ افراد ہیں جنہیں ہم نے بحیثیت مجموعی حکمرانی کے لیے منتخب کیا مگر انفرادی طور پر بھی ہم قصور وار ہیں دراصل برسوں بادشاہت کے زیر نگیں رہنے والے افراد اپنی انفرادی حیثیت اور آزادی کے اس بنیادی نکتے کو سمجھ ہی نہیں پائے جسے حقیقی فلسفہ خودی سے مربوط کیا جاتا ہے اور عرف عام میں لوگ اسے منتخب نظام حکومت کہتے ہیں۔

پچھلے الیکشن میں ایک نیا لفظ الیکٹیبلز بار بار سننے کو ملا اور بہت شدت سے اس بات کو باور کرایا گیا کہ الیکٹیبلز کس طرح نظام حکومت کے لیے لازمی ہیں۔ الیکٹیبلز کا عمومی تعارف یہ پیش کیا جاتا ہے کہ وہ لوگ جن کی اپنی برادری، ذات، خاندان، قبائل، سیاسی گھرانے وغیرہ ہیں۔

کیا کبھی غور کیا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کا منبع ہمارے ملک میں دراصل موروثیت کے اصولوں پر مشتمل ہے۔ پھر چاہے وہ ایک منتخب ممبر ہو یا کسی جماعت کا سربراہ۔

کیوں ہماری خواہش ہوتی ہے کہ پارٹی سربراہ کی میراث ہی اس کی اولاد یا اس کے ہی خاندان سے متعلق افراد کیوں ہوں۔ اس کی میراث تو جماعت کا ایک ایک رکن ہونا چاہیے ہر عام پاکستانی جس نے اسے ووٹ دیا ہے اس کے بچے کا حق پارٹی سربراہ کے بچے کے حق کے برابر کیوں نہیں سمجھا جاتا۔

کیا آپ کی اولاد کا آئی کیو لیول ان کی اولاد کے لیول سے اس قدر کم ہے۔ انتہائی قابل ہونے کے باعث بھی پارٹی سربراہ بننے کے لیے اس کے خاندان کا فرد ہونا ہی واحد میرٹ ہے۔

ایسا نہیں کہ کسی پارٹی سربراہ کی اولاد میں اگر اہلیت ہے لیڈر بننے کی تو اس پر کوئی اعتراض ہے اگر صلاحیت ہے تو ضرور سیاست کریں جیسے کہ بھٹو سے کہیں زیادہ باصلاحیت ان کی بیٹی بے نظیر تھیں ان میں لیڈر شپ کوالٹی تھی مگر یہ کہاں کا دستور ہے کہ ان کے قتل کے بعد بچے چھوٹے ہیں تو شوہر نامدار کو زمام اقتدار دی جائے گی جبکہ ان کی واحد خصوصیت جوڑ توڑ ہے۔ خیر اس وقت ہمارا موضوع صرف عوام کی وہ فرسٹریشن ہے جس میں وہ اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کے لیے اول میرٹ خاندانی تعلق جو ہی مانتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ وہ بادشاہت ہے جس کے اثرات سے آج تک ہم باہر نہیں نکل سکے اور یہی وہ ذہن سازی ہے جس کی ہمیں بطور قوم اشد ضرورت ہے۔

اگر ہم تیار نہیں ہیں کہ اپنی بقا کے لیے سوچیں اور اپنی بقا کی جدوجہد کے بہترین طریقے سیکھنے کی کوشش کریں تو پھر ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے دوسروں کے خیالات اور اقدار اپنا کر دوسروں کے غلام بننے کے خطرے سے ہمیشہ دوچار رہتے ہیں۔

ہماری بحیثیت قوم بقا اس میں ہے کہ صرف نظام ہی نہیں اپنی سوچ بھی تبدیل کریں۔ مائی باپ، ظل سبحانی، میڈا سائیں، میرے پیر، سردار، فیوڈل لارڈ باپ کے بعد بیٹا، بھائی، بیٹی، بیگم ان موروثی موشگافیوں کو جمہوریت سمجھنا چھوڑ دیں اور حقیقی جمہوریت کے معنی سمجھیں۔

ورنہ تو ختم کریں یہ پارلیمان کے بکھیڑے اور سیدھا سیدھا شہنشاہ معظم پسند کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments