ضیا الحق کو بھٹو نے کس وجہ سے آرمی چیف بنایا تھا؟


مہینہ جولائی سال 1977 ء اور تاریخ تھی پانچ جب جنرل ضیاء الحق نے بندوق کی نوک پر پاکستان کے مقبول ترین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے نکال کر پابند سلاسل کر دیا اور خود پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔

بھٹو اس خوش فہمی میں رہے کہ ضیاءالحق ان کا اپنا بنایا ہوا آرمی چیف ہے وہ انھیں کبھی زک نہیں پہنچائے گا۔ ان کی خوش فہمی بجا تھی کیوں کہ بھٹو نے ضیاءالحق کو آرمی چیف بناتے وقت تمام اصول و ضوابط نظر انداز کر دیے تھے چھ جرنیلوں کو سپرسیڈ کر کے ضیاءالحق کو سپہ سالار بنایا گیا۔ ضیاءالحق کی بطور آرمی چیف تقرری بھی دلچسپ ہے۔

ضیاءالحق کے پیش رو جنرل ٹکا خان پیشہ ور جرنیل تھے۔ سیاست سے کوسوں دور تھے۔ جنرل ٹکا خان کی مدت ملازمت پوری ہونے میں چھ ماہ باقی تھے کہ نئے آرمی چیف کے لیے مختلف ناموں پر غور کیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالمجید ملک اپنی کتاب ”ہم بھی وہاں موجود تھے“ میں لکھتے ہیں کہ ”ایک دن بھٹو نے غلام مصطفیٰ کھر کے سامنے مجھے بلایا اور کہا کہ میں آرمی کی کمان آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت آرمی میں پانچ جرنیل مجھ سے سینئر تھے میں نے انکار کر دیا وہ بضد تھے کہ تمھیں آرمی چیف بناؤں گا مگر بعد میں حالات کچھ ایسے بنے کہ قرعہ فال ضیاءالحق کے نام نکلا“

وہ لکھتے ہیں کہ ”جنرل ضیاءالحق جب بریگیڈیئر کے عہدے پر تھے تو بھی بھٹو کی خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ [بعد میں] جب ضیاءالحق ملتان کور کی کمان کر رہے تھے۔ بھٹو نے ملتان وزٹ کرنا تھا تو ضیاءالحق نے حکم جاری کیا کہ ہماری کور کے تمام آفیسرز سڑک پر کھڑے ہو کر بھٹو کا استقبال کریں گے۔ ضیاءالحق اور دوسرے تمام آفیسرز نے سڑک پر کھڑے ہو بھٹو کا استقبال کیا یہ بات بھی فوجی روایات کے بالکل برعکس تھی۔

بھٹو کی قربت حاصل کرنے کے لیے ضیاءالحق نے ایک اور اہم فیصلہ کیا کہ بھٹو کو آرمرڈ کور کا اعزازی کرنل انچیف بنایا جائے۔ یاد رہے کہ کرنل انچیف اسی کور کا کوئی سینئر افسر بنایا جاتا ہے جس کی تقرری پر باقاعدہ ایک تقریب منعقد ہوتی ہے اور اعزازی کرنل انچیف کو یونیفارم پہنا کر اس کو کرنل کے رینکس پہنائے جاتے ہیں۔ بھٹو کو بطور اعزازی کرنل انچیف بنایا جانا آرمی کی تاریخ کا پہلا اور آخری موقع تھا کہ جب ایک سویلین کو آرمڈ کور کا کرنل انچیف بنایا گیا۔ ”

دوسری جانب ایجنسیوں نے بھی حکومت کو اطلاع بھیجی کہ ضیاءالحق شریف، حلیم الطبع اور بے ضرر قسم کا شخص ہے مہاجر ہے اس کا کوئی مخصوص علاقہ نہیں جس کے افراد سے اس کو بیک اپ کرنے کا خدشہ ہو اس لیے حکومت کے لیے موزوں ترین آرمی چیف ضیاءالحق ہی ہو سکتا ہے

الطاف حسین قریشی کی کتاب ”ملاقاتیں کیا کیا“ میں جنرل انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”فروری کا مہینہ تھا اور سال 1972 ء کا ایک روز بھٹو نے ملاقات کے لیے پیغام بھیجا اور میں چلا گیا پوچھنے لگے پاکستان کی سیاسی صورتحال کیسی ہے میں نے کہا آپ تو بہتر جانتے ہیں ہمارا دائرہ تو فوجی سرگرمیوں تک محدود ہے۔ پھر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد فرمایا میں نے تمھیں چیف آف سٹاف بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں حیران رہ گیا۔ یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اتنی بڑی ذمہ داری میرے کمزور کندھوں پر آنے والی ہے۔ بڑے ادب سے کہا آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر لیں کیونکہ میں بہت جونئیر ہوں۔ اس پر انھوں نے ایک ایک سینئر افسر کا تجزیہ شروع کیا میں نے انھیں کہا کہ آپ میرے سامنے یہ سب کچھ نہ کریں میں سب کا بے حد احترام کرتا ہوں۔ اگر مجھ پر ذمہ داری ڈالی گئی تو اسے نبھانے کی کوشش کروں گا۔ مگر ایک بار پھر کہوں گا کہ آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر لیں۔ انھوں نے کہا کہ میرا فیصلہ اٹل ہے تمھاری گفتگو کے بعد مجھے یقین ہو چلا ہے کہ میرا انتخاب درست ہے“

مارشل لاء لگانے کی رات کے حوالے سے جنرل اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ”جس رات حکومت کا تختہ الٹنا تھا خیال کی لہر اٹھی کہ ضیاء تم غلطی پر تو نہیں؟ کیا تم پاکستان کو مارشل لاء کے حوالے سے گزار سکو گے؟ میں نے وضو کیا اللہ کے حضور سربسجود ہوا ایک ایسی لذت محسوس ہوئی جو پہلے نہ تھی۔ ساڑھے دس بجے خیال آیا کہ وزیر اعظم ہاؤس سے رابطہ کر کے کابینہ کے اجلاس کا پوچھا جائے کال ملائی دوسری طرف ہاٹ لائن پر وزیراعظم تھے انھوں نے حسب معمول اپوزیشن کو برا بھلا کہا اور بتایا کہ آج رات کابینہ کا اجلاس نہیں ہو رہا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور راولپنڈی کو قطعی احکام جاری کر دیے“

اس رات ممتاز بھٹو بہت دیر تک وزیراعظم ہاؤس رہے جب گھر پہنچے تو فوج کی پراسرار نقل و حرکت دیکھ کر وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ بھٹو نے جنرل سے رابطہ کیا اور پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟ جنرل نے جواب دیا سر اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا اب آپ ہم سے تعاون کریں دوسری صورت میں ہمیں طاقت استعمال کرنا پڑے گی جس پر وزیراعظم نے جواب دیا نہیں اس کی نوبت نہیں آئے گی۔

الطاف قریشی جنرل سے پوچھتے ہیں کہ اب آپ کا انتخابات کروانے کا کیا ارادہ ہے تو جنرل جواب دیتا ہے کہ ”اقتدار تو خدا کی طرف سے ایک بار امانت ہے اور اس بار گراں کو اٹھانے کی آرزو نہیں کی جا سکتی اور ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا ہو گا۔ ہمارا قومی وجود بار بار مارشل لاء کا آپریشن برداشت نہیں کر سکتا خدا کرے کہ یہ آخری آپریشن ہو اور اس کے بعد ہماری سیاسی صحت کبھی خراب نہ ہو“

اقتدار پر قبضے کے بعد جنرل نے ایسے اقدامات کیے جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا۔ افغانستان کی گلیوں کو پاکستانیوں کے لہو سے غسل دیا جاتا رہا۔ خارجہ، داخلہ اور سیاسی صحت کے علاوہ محکمہ صحت پر مکمل کنٹرول فوج کا ہی ہے۔ ہماری سیاسی صحت کیا ٹھیک ہوتی الٹا محکمہ صحت کو بھی مقتدرہ چلا رہی ہے۔ 43 سال قبل جنرل نے افغانستان میں جو آگ لگائی تھی آج بھی ہم اس میں جھلس رہے ہیں۔ اب کی بار اگر سیاسی قیادت نے حماقت کی تو پھر اس آگ میں ہماری نسلیں تباہ ہو جائیں گی۔ نسلوں کو بچانا ہے تو خدا کے لیے خارجہ معاملات سویلین کے حوالے کیے جائیں

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments