کاش پچھتاوے کا احساس پیدا ہو جائے


کرنل صاحب ہمارے ان بڑوں میں سے ہیں، جن کا ہمارے دورِ لفٹینی میں ڈنکا بجتا تھا۔ انہی کے ایک معروف کورس میٹ میری پہلی یونٹ میں میرے سی او تھے۔ پینتیس چالیس سالوں کے بعد آج بھی جن کے طرزِ کمانداری کو میں آئیڈلائز کرتا ہوں۔ قیام پاکستان کے وقت کرنل صاحب کے والد مشرقی پاکستان میں تعینات تھے۔ ریٹائر ہوئے تو خوشحال پنجابی خاندان مستقلاً وہیں آباد ہو گیا۔ سال 71 ء کے پر آشوب مہینوں میں جب فضاء خون کی باس سے بوجھل تھی تو ایک تاریک رات کے اندر، کچھ مقامی بلوائی کھانے کی میز کے گرد بیٹھے اس بے گناہ کنبے پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑے۔

گزرے دسمبر اس اندھیری شب سے منسوب ایک داستان سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی۔ میں نے کرنل صاحب سے رابطہ کر کے کچھ حقائق کی تصدیق اور واقعے کو پاک فوج مخالف پراپیگنڈے کا جواب دینے کی غرض سے اپنے کسی مضمون میں پیش کرنے کی اجازت طلب کی تو کرنل صاحب نے اپنے خاص شستہ اور دھیمے لہجے میں جو مجھ سے جو کہا اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے، ’مصیبت کے اُس پر آشوب دور میں ایک دوسرے پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانیں تو ایک سے بڑھ کر ایک ملیں گی، ضرورت ہے کہ بربریت کے اندھیرے میں جگنوؤں کی طرح جگمگاتے نفیس انسانی جذبوں پر مبنی کہانیوں کو ڈھونڈا جائے‘ ۔

پندرہ سال قبل، سوڈان میں تعینات کی جانے والی اقوام متحدہ کی امن فورس کی ساخت اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اس میں پہلی بار ایک بھارتی جنرل کی زیرِ کمان بھارتی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی دستے مشترکہ طور پر بین الاقوامی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ خرطوم میں واقع کثیر القومی امن فورس کے ہیڈ کوارٹرز میں ملٹری پولیس کی ڈیوٹی بنگلہ دیشی دستے کے پاس تھی۔ باہر سے آنے والے افسروں اور جوانوں کی رہائش گاہ کا انتظام و انصرام بھی انہیں کے پاس تھا۔

ہم میلوں دور واقع پاکستانی کیمپ سے جب کبھی فورس ہیڈ کوارٹرز آتے تو سب سے پہلے بنگلہ دیشی ملٹری پولیس سے واسطہ پڑتا کہ جن سے متعلق ہمارا مجموعی تاثر یہی تھا کہ وہ ہمارے ساتھ خشک مزاجی سے پیش آتے تھے۔ زیادہ امکان تو یہی ہے کہ ایسا وہ اپنی مخصوص ذمہ داریوں کی بنا ء پر کرتے تاہم ایک رائے یہ بھی تھی کہ ’لبریشن جنگ‘ کے بعد پروان چڑھنے والے بنگلہ دیشیوں کے مبینہ طور پر ’درشت‘ طرز عمل کی جڑیں دو ملکوں کے مابین تلخ ماضی سے جڑی ہیں۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاک و ہند تعلقات میں مخاصمت اور مسلسل عداوت کی بنیادیں کہیں گہری ہیں۔ تاہم اس کے باوجود زیادہ تر بھارتی افسروں سے ہماری بے تکلفی کہیں بڑھ کر تھی۔ بھارتی کیفیٹریا میں داخل ہوتے، دور سے ہمیں دیکھتے اور اپنی کھانے کی ٹرے اٹھائے ہماری میز پر چلے آتے۔ اکثر بھارتی جوان اپنے ساتھ ایک تصویر بنوانے کی فرمائش کرتے۔ بات بات پر دو ملکوں کے درمیان مشترکات کی نشان دہی کی جاتی۔ بھارتیوں کی اس غیر معمولی گرم جوشی پر ہم اکثر سوچتے کہ ضرور انہیں ان کے اعلیٰ حکام نے ہی مشن پر روانگی سے قبل پاکستانیوں کے ساتھ ایسا رویہ اپنانے کی ہدایات دی ہوں گی۔

ہم میں سے اکثر سمجھتے تھے کہ بھارتیوں کے غیر معمولی طور پر خوشگوار رویے کا بنیادی مقصد محض یہ ثابت کرنا تھا کہ دونوں ملکوں کی درمیان سرحد، زمین پر کچھی محض ایک لکیر ہے کہ جس نے دو ایک جیسے کلچر کے حامل انسانوں کو دو قوموں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ بھارتیوں کے ساتھ باہم بے تکلفی کے باوجود ہمارا میل جول ایک حد کے اندر رہتا۔

بنگلہ دیشیوں سے ہمارے تعلقات کی نوعیت مختلف تھی۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کو ایک حقیقت کے طور تسلیم کر رکھا ہے اور اس کے وجود کے درپے ہر گز نہیں۔ پاکستانی کیمپ میں چار بنگلہ دیشی افسر تعینات رہتے، جو وقتاً فوقتاً تبدیل اور ٹرانسفر ہوتے رہتے۔ مجھ سے پہلے میرے عزیز دوست کرنل افتخار نے ان چاروں کو ہر ویک اینڈ پر بٹالین کے میس میں رات کے کھانے پر مدعو کرنے کی روایت قائم کی۔ میں نے یونٹ کی کمان سنبھالی تو خیر سگالی پر مبنی اس روایت کو قائم رکھا۔

تاہم سب دلجوئی کے باوجود کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ ایک آدھ کو چھوڑ کر بنگالی افسروں کے رویے میں کہیں نہ کہیں سرد مہری موجود رہتی۔ ’پورب‘ اور ’پنجاب‘ کے باہم تعلقات کی صدیوں پر محیط تاریخ اپنی جگہ، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش میں بدلنے کے بعد ایک پوری نسل تین ملین بنگالیوں کے قتل عام اور ان کی تین لاکھ عورتوں کی عصمت دری کی myth کے زیرِ اثر پروان چڑھی ہے۔ یہ امر حیران کن نہیں کہ بنگالیوں کی وہ نسل جو بنگلہ دیش بننے کے بعد بیرونِ ملک جوان ہوئی یک طرفہ ظلم و بربریت کی کہانیوں سے اس قدر متاثر نہیں ہے۔

اب تو خود متعدد بنگالی دانشور اور سکالرز بھی ان دعووں کی نفی میں ناقابلِ تردید شواہد سامنے لا چکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بہیمانہ زیادتیاں ہر دو اطراف سے ہوئیں۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ خود پاکستان کے اندر اور باہر سرگرم، نفرت کا بیوپاری ایک گروہ ایک خاص مقصد کے تحت آج بھی یک طرفہ ظلم و بربریت کی داستانوں اور مبالغہ آمیز اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔

سن سنتالیس میں پنجاب تقسیم ہوا تو سرحد کے دو اطراف ظلم و بربریت کی ناقابل بیان داستانیں رقم کی گئی تھیں۔ سات عشروں کے بعد کم از کم مسلمانوں اور سکھوں کے مابین پچھتاوے کا احساس پایا جاتا ہے۔ دونوں قومیں الگ الگ ملکوں میں آباد ہونے کے باوجود نفرت آمیزی ترک کرنے پر آمادہ نظر آتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کے مابین بھی فاصلے کم کیے جائیں۔ کاش کہ پچھتاوے کا احساس دونوں طرف پیدا ہو جائے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں دو ملکوں کے درمیان تلخ تاریخ کے باب میں مسلسل مبالغہ آرائی اور خود ترحمی (Self pity) سے پیچھا چھڑانا ہو گا۔

سال 1971 ء کے کہیں بعد پیدا ہونے والے ایک بنگلہ دیشی فوجی افسر سے منسوب ’لبریشن جنگ‘ میں پاکستان کی طرف سے لڑنے والے ’میجر لہراسب‘ کی کئی سالوں بعد ’میجر جنرل لہراسب‘ کے طور بنگلہ دیش میں اپنی سابقہ 1 ایسٹ بنگال رجمنٹ کے دورے کی روداد نظر سے گزری ہے۔ ’لبریشن وار‘ میں بنگالیوں کے خلاف لڑنے والے ایک پاکستانی جنرل کا بنگلہ دیش کی سر زمین پر اپنی سابقہ پلٹن کے پرانے ساتھیوں اور ان کے خاندانوں کے گھروں میں جانا، وہاں گھنٹوں پرانی یادیں تازہ کرنا، ہیلی پیڈ پر 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں زخمی ہونے والے ایک بوڑھے بنگالی لانس نائیک سے گلے مل کر زار و قطار رونا، یقیناً اس نوجوان بنگلہ دیشی افسر کے لئے حیران کن مشاہدات ہوں گے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سوشل میڈیا پر زیرِ گردش اس کہانی میں کس قدر سچ ہے اور کس قدر جھوٹ۔ بالفرض اگر جھوٹ بھی ہے تو اس جھوٹ سے تو بہتر ہے جو نفرت میں اضافے کا سبب بنتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments