اردو ناول ”غبار“ طب میں ہونے والے جرائم کی داستان


موجودہ دور صنعتی اور مشینی ہے اس دور میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ منظر عام پر آنے والی ادبی تخلیقات کے بارے میں زیادہ دیر سوچ سکے یا اس کے اچھے اور برے پہلوؤں پر اظہار خیال کرسکے اگر کوئی کتاب اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے تو یقیناً یہ مصنف کے باصلاحیت ہونے کا اعتراف ہے موجودہ دور میں جرائم کی شرح بڑھ چکی ہے اور پیشہ ورانہ قابلیت رکھنے والے چند ڈاکٹر حضرات بھی طبی جرائم میں مبتلا ہیں اس بات کا ادراک چند سال پیشتر منظر عام پر آنے والے ناول ”غبار“ کو پڑھ کر ہوا۔

ناول ”غبار“ کے مصنف ڈاکٹر شیر شاہ سید ہیں جو خود بھی ڈاکٹری کے پیشے سے وابستہ ہیں

طب کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ان کے نام سے انجان نہیں ہیں وہ ماہر گائنا کولوجسٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں انھوں نے خواتین کے پیچیدہ امراض کے لیے فلاحی بنیادوں پر کوہی گوٹھ میں ایک ہسپتال بھی کھولا ہے جہاں فسچولا سمیت دیگر امراض کا مفت یا بہت کم پیسوں میں علاج کیا جاتا ہے۔ اس سے بیشتر جو افسانے انہوں نے تحریر کیے وہ زیادہ تر صحت اور بیماریوں کے علاج اور میڈیکل کے جرائم کے متعلق ہیں ایک عام قاری ان تمام چیزوں کا اندازہ نہیں کر سکتا جس کا تذکرہ شیر شاہ سید نے اپنے ناول ”غبار“ میں کیا۔

ناول ”غبار“ کا آغاز ایک جنسی جرم سے ہوتا ہے جس کے بعد مصنف نے میڈیکل کالج اور ہسپتال میں ہونے والی بدعنوانیوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں اور میڈیکل کے طلبہ کی کرپشن کا تذکرہ کیا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ڈاکٹر زاہد اور ڈاکٹر صبیحہ کا ہے۔ اس ناول میں میڈیکل کے جرائم کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد عوام کے مختلف فرقوں، جماعتوں اور دینی مدرسوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو آج پاکستان کے لیے ایک مشکل صورت حال کا سبب بن گئے ہیں۔

ناول کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ ناول کے کرداروں میں ارتقائی کیفیت موجود نہیں۔ کوئی کردار اچھا ہے تو شروع سے آخر تک اچھائی کا پیکر ہے۔ اگر کوئی کردار برا ہے تو شروع سے آخر تک اس میں تمام برائیاں موجود دکھائی گئی ہیں۔ سوائے ایک کردار خادم حسین کے جو شروع میں جرائم سے وابستہ ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ اپنے ایک عمل کی وجہ سے گناہوں سے تائب ہوجاتا ہے۔

ناول کا ہر کردار ایک نئی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے زاہد ایک ایسا ڈاکٹر ہے جو کراچی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بیرون ممالک کے مختلف امتحانات پاس کر کے پاکستان کے عوام کی خدمت کرنے آیا ہے مگر سفارش کے بغیر اسے نوکری نہیں ملتی۔ زاہد کی محبوبہ ڈاکٹر صبیحہ لیاری کے ایک منشیات فروش کی بہن ہے جو اپنے بھائی کے ڈاکو دوستوں کے بچنے کے لئے زاہد کے استاد پروفیسر جلال سے نکاح کر لیتی ہے اس نکاح کا مقصد محض تحفظ اور زاہد کا انتظار ہے مگر پروفیسر جلال شادی شدہ ہونے کے باوجود صبیحہ کی مرضی کے خلاف اس پر جنسی تشدد روا رکھتا ہے۔

جب ڈاکٹر صبیحہ اپنے میڈیکل کے دیگر امتحانات پاس کر لیتی ہیں تو پروفیسر جلال سے چھٹکارا حاصل کر لیتی ہے مگر خود کو زاہد کے قابل نہیں سمجھتی۔ صبیحہ کی دوست ڈاکٹر ہما ایک غریب گھر سے تعلق رکھتی ہے جس کی والدہ ایک غیر ملکی گارمنٹ فیکٹری میں ملازم ہونے کے باوجود، ہمیشہ اپنی عصمت کی حفاظت کرتی ہیں جب کہ ہما وزیر صحت اور ہیلتھ سپر وائزر کے ہاتھوں لٹ جاتی ہے۔ ڈاکٹر شازیہ نوابشاہ کے ایک زمیندار فیملی سے تعلق رکھتی ہے مگر پسند کی شادی کی وجہ سے اس کے باپ اور بھائی کلہاڑی سے اس کے اور اس کے شوہر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں۔

جلال انتہائی غریب گھر سے تعلق رکھتا ہے مگر بعد میں اپنی ایک امیر کبیر کلاس فیلو ڈاکٹر شہلا سے شادی کر کے دولت مند بن جاتا ہے۔ شہلا چونکہ ایک بیورو کریٹ کی بیٹی ہے اس لیے پروفیسر جلال حکومت سے فائدہ اٹھانے کے تمام حربے سیکھ کر کروڑ پتی بن جاتا ہے۔ وہ بڑے بارسوخ لوگوں سے اپنا کام نکلوانے کے لیے پیسے کے علاوہ پیشہ ور طوائفوں سے بھی کام لیتا ہے۔ پروفیسر جلال پسند کی شادی کی وجہ سے اپنے غریب والدین سے تعلق ختم کر لیتا ہے۔ والدین بھی اس سے قطع تعلق کرلیتے ہیں مگر آخر میں جب اس کے والد ایک گورنمنٹ ہسپتال میں سسک سسک کر دم توڑتے ہیں اور اس کی امداد لینا گوارا نہیں کرتے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک گناہ گار شخص ہے اور اس کی دولت اس کے کسی کام کی نہیں۔ والد کی موت پر احساس ندامت اسے خودکشی کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

عموماً ہمارے معاشرے میں موجود اس قسم کے کردار نہ تو تائب ہوتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو ختم کرتے ہیں۔ پروفیسر جلال کی بیوی شہلا کا کردار شروع سے آخر تک معصومیت کی انتہاؤں پر نظر آتا ہے حالانکہ اس کردار کی وجہ سے پروفیسر جلال بے شمار جرائم میں ملوث نظر آتے ہیں۔ ناول ”غبار“ میڈیکل لائن میں پرورش پانے والے جرائم کی داستان ہے اس ناول میں دکھائی جانے والی کرپشن صرف معاشی استحصال تک محدود نہیں بلکہ مریضوں کے جسمانی استحصال پر مبنی ہے۔

نرسوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں، غریب خواتین ڈاکٹرز اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز کا ملازمت کے حوالے سے استحصال، خواتین کی لاشوں کی بے حرمتی، جیسے حقائق کی مصنف نے بے حد خوبصورتی سے اس ناول میں عکاسی کی ہے۔ مجموعی طور پر ناول ایک بھر پور تاثر قائم کرتا ہے، بے شک کہیں کہیں کچھ سقم بھی نظر آتے ہیں مگر حقیقت پسندی اور منفرد اسلوب کی وجہ سے یہ ناول قارئین پر ایک ان مٹ تاثر قائم کرتا ہے۔

جب کوئی تخلیق کار حقائق کو کاٹ دار لفظوں میں بیاں کرتا ہے تو ”غبار“ جیسے ناول منظر عام پر آتے ہیں۔ جنہیں پڑھے بنا نہیں رہا جاسکتا اور جب ان ناولوں کو پڑھا جاتا ہے تو ایک عام قاری بھی معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں پر غور کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments