شفیق بچولیا


بعض لوگوں کا نام ان کی پہچان کے ساتھ ساتھ ان کے پیشے اور کام کی ترجمانی کرتا ہے۔ کسی کا نام اگر جمال قہوہ ہے تو ظاہر ہے وہ قہوہ بنانے کا ماہر ہوگا یا پینے کا شوقین۔ ہمارے آس پاس ہی نہیں آپ کے گاؤں شہر، علاقے میں بھی ایسے افراد ضرور ہوں گے جن کے نام کے ساتھ ان کا پیشہ لگا ہے جیسے ماسٹر غلام الدین۔ کسی آدم زاد میں انکار کی جرات نہیں کہ وہ یہ گستاخی کرسکے کہ ماسٹر غلام الدین ماسٹر نہیں۔ اسی طرح ایک شفیق نام کا بچولیا ہے۔

جس کے کرو فر اور کام سے ہی ظاہر ہے کہ وہ علاقے کا اول نمبر کا بچولیا ہے۔ اس لیے کہ وہ سلام علیک کے بعد ہر فرد سے ایک سوال ضرور کرتا ہے کہ شادی ہوئی ہے؟ کوئی انکار میں جواب دے کہ قبلہ ابھی نہیں ہوئی تو فوراً جیب سے چند تصویر بتاں نکال کر سوال دھر دیتا ہے اس سے کرو گے یا یہ ماہ جبین پسند ہے۔ اب اگر کسی نے جواباً کہا کہ ہاں جناب میری شادی ہو گئی ہے، اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ روا رکھتا ہے۔ الٹی جیب سے فوراً کسی شوخ و شنگ کی مورت نکال کر سوال کرتا ہے کہ دوسری کر لو چار تک اختیار ہے۔ باقی اختیارات تو تم سے وقتاً فوقتاً چھین لیے گئے ہیں یہ اختیار تم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔

نام تو اس کا شفیق الدین بہتانی تھا۔ بہتانی اس لیے کہ محلے، گاؤں، علاقے میں کوئی شخص ایسا نہیں بچا تھا جس پر اس نے کوئی نہ کوئی بہتان نہ لگائی ہو۔ جس کے سر بہتان کا دستار نہ آیا اس کے سر پر تہمتوں کی ٹوپی ضرور پہنائی۔ ہوبہو اپنی شکل پر گیا ہوا تھا۔ اپنے قد سے زیادہ لمبی زبان، قد نے تو کوئی فائدہ نہ پہنچایا تھا لیکن زبان نے اس کی روزی روٹی کا بندوبست کر رکھا تھا۔ باتوں سے زیادہ اس کے منہ سے قسمیں اور گالیاں نکلتی تھیں۔

بات کرتے وقت آنکھیں تیز تیز گھماتا تھا۔ ہاتھوں کو بھی قرار نہ تھا۔ بات کرتے وقت ہاتھ اس تیزی سے اور مختلف زاویوں سے چلاتا تھا جیسے اورنگ زیب نے دشمنوں پر تلوار چلائی تھی۔ ایک جگہ نہیں بیٹھتا تھا۔ ہر جگہ، ہر راستے، ہر چوراہے پر حاضر رہتا، سپاہی ملک کی رکھوالی پر معمور ہوتے ہیں یہ گھروں کی دیکھ ریکھ کرتا تھا۔ اس کی اجازت کے بغیر گاؤں میں کوئی بچولیا قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ ہر فرد سے پوچھ گچھ اور ہر قدم پر نظر رکھتا تھا۔

سر پر ٹوپی اور ہمیشہ صدری پہن کر رکھتا تھا۔ کہتا تھا کہ ٹوپی پہنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ لوگ قسم کا اعتبار اور جھوٹ پر اعتماد جلدی کرتے ہیں۔ جس گھر میں چائے پینے جاتا اس گھر کی برائیاں اس کے ہمسائیوں کے گھر جاکر ایسے کرتا تھا جیسے بیوی اپنے شوہر کی برائی کسی نزدیک اور بھروسا مند سہیلی سے کرتی ہے۔ سب شفقے کہہ کر پکارتے تھے۔ صرف نام شفیق تھا کام تو اس کے سارے بے شفقت اور بے مروتی کے تھے۔ جھوٹ اس کی زبان سے ایسے نکلتا تھا جیسے سنگین اور خطرناک دشمن کی سرحد پر تفنگ سے گولیاں نکلتی ہیں۔

تفنگ سے نکلی ہوئی گولیاں کسی نہ کسی فرد کو زخمی ضرور کرتی ہیں اسی طرح اس کے جھوٹ سے بہت سارے مذبوح و مضروب ہوئے۔ اس نے جو بھی رشتہ کیا مشکل سے رشتے کی گاڑی دھکے دے دے کر ایک سال تک چلتی تھی۔ دوسرے سال جس طرح پرانی گاڑی مستری کے رحم و کرم پر ہوتی ہے ویسے ہی اب یہ رشتہ بڑے بزرگوں کے فیصلوں کے رحم و کرم پر ہوتا تھا۔ اس کے بعد گھر میدان رن بن جاتا تھا۔ آسانی سے طلاق ہو جائے تو ٹھیک ورنہ بات عدالت تک پہنچ کر باقی عمر مقدمے کی نظر ہو جاتی تھی۔

لوگ اس کو دیکھ کر ایسے راستہ بدلتے تھے جیسے اچانک پاگل کتے کو دیکھ کر انسان حواس باختہ ہو کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ اس نے بھی کتے ہی کی طبیعت پائی تھی اور ویسے ہی کچھ حرکتیں کر کے ان اشخاص کے پیچھے لگ جاتا تھا جو فقط اسی کے شر سے بچنے کے لیے خوف سے راستہ بدل چکے تھے۔ جہاں اور جس گھر پر دستک دیتا ان پر گویا عذاب الہی نازل ہوتا تھا۔ چرب دار زبان تھی اس پر ملکہ یہ کہ اس کی جھوٹی باتیں سن کر سچ پر یقین کرنے سے شرمندگی ہوتی تھی۔

لڑکا کانا ہو یا اندھا، کبڑا ہو کالا، موٹا ہو، ناٹا ہو، شرابی ہو یا چرسی، فسادی ہو، جواری ہو، کتنی ہی برائیاں کا مجسمہ کیوں نہ ہو، اپنی زبان سے اس کی اتنی تعریفیں کرتا کہ لوگوں کا شوق جذبہ اور اشتیاق اتنا بڑھ جاتا کہ وہ اسے دیکھنے کے لیے بے قرار ہوتے تھے۔ اپنے کذب سے بد صورت کو یوسف ثانی بناتا اور بد سیرت کو ولی اللہ۔ بے روزگار کو برسر روزگار کرنا اور ان پڑھ کو معلم بنانا فقط اس کی زبان کا ہی کمال تھا۔ اپنے کذب و دروغ سے فقیر کو بادشاہ اور محتاج کو غنی بنا دیتا تھا۔

اس کا گھر بھی انوکھی حیرت انگیزیوں کا ٹھکانہ تھا۔ چار بھائی تھے بہن کوئی نہ تھی۔ بدزبانی ان کے گھر کی لونڈی تھی چنانچہ سارے بھائی ایک دوسرے کو آپس میں نام کے بجائے سالا کہہ کر پکارتے تھے۔ شفقے کی چار بیٹیاں تھیں جو یک بعد دیگرے اپنے اپنے محبوں کے ساتھ بھاگ گئی۔ شفقے کو بڑا قلق تھا اور رقت انگیز لہجے میں افسوس کرتا تھا کہ ہائے کم نصیبوں نے بھاگنے سے پہلے مجھ سے اجازت بھی نہ لی۔ مجھ سے اجازت نامہ لے کر بھاگتی تو مجھے قلق نہ ہوتا۔

اکثر کہتا تھا کہ بیٹیاں میری نصیب والی، باپ کی وفا دار اور شعور دار تھیں۔ باپ کو تکلیف اذیتوں اور پریشانیوں میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی اس لیے اپنا اپنا بندوبست خود کیا۔ جہیز اور مناسب گھر ڈھونڈنا پریشانی اور اذیت ہی تو ہے۔ بیٹے کا خدا جانے کیا نام تھا وہ جب بھی بیٹے کو پکارتا تھا ایک بیہودہ اور ننگی ماں کی گالی دے کر پکارتا تھا۔ ہمیشہ بھائی کے مرنے کی دعا مانگتا تھا تاکہ اس کی بیوہ سے نکاح کرسکے۔ اکثر کہتا تھا کہ خدا مجھے وہ زمانہ دکھائے کہ صرف دنیا میں زنانہ ہی زنانہ نظر آئے اور میرے سوا کوئی مرد نظر نہ آئے۔ اس کی خواہش تھی کہ کرشن کی طرح اس کے اردگرد بھی گوپیاں اور بس گوپیاں رہے۔

شفقے کا کام لڑکوں سے شادی کی بات کرنا تھا۔ یہ تخصیص نہیں تھی کہ لڑکا بالغ ہے یا کم سن۔ جس لڑکے سے ایک بار بھی بات کی اس کو برباد کرنے تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ اس کی پیش کش کو ٹھکرانے کا اختیار کسی کو نہ تھا۔ کسی نے جرات کا مظاہرہ کر کے اس کی بات رد کی تو ہر محفل میں اس کی وہ وہ برائیاں کرتا تھا کہ موجودات عالم اس کو دیکھ کر شک و شبہ میں پڑ جاتی تھی۔ جہاں جسارت کرنے والا انکاری نظر آتا تھا اس کو یہ طعنہ ضرور دیتا کہ تم نے نخرے نہ کیے ہوتے تو تمہارا ایک خوبصورت آشیانہ ہوتا اور قوی امکان ہے کہ صاحب اولاد بھی ہوئے ہوتے۔

ہٹلر نے یہودیوں پر اتنے مظالم نہیں ڈھائے جتنے اس نے نوجوانوں اور سچ پر ڈھائے۔ جھوٹ بڑا میٹھا ہوتا ہے اور حسین خواب اور خوبصورت باغ دکھاتا ہے۔ لوگ جھوٹ سننے کے عادی ہو جائے تو سچ ان کو کڑوا زہر لگتا ہے۔ اس کے جھوٹ سے لوگ سچ سے بیزار اور شادی سے متنفر ہوئے تھے۔ اس شخص پر اللہ کا خاص فضل ہے جو شفیق بچولے کو نہیں جانتا۔ کسی بندے سے خدا شدید ناراض ہو جائے تو اس کا سامنا اور واسطہ اس سے پڑتا ہے۔ ہر اس شخص کو خدا کا شکر بجا لانا چاہیے جو اس سے نہیں ملا۔

اس کے شر سے انسان کو اس کی موت ہی بچا سکتی ہے، باقی کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس کے جھوٹ اور بہتان کو برداشت کر کے زندہ رہ سکے۔ خدا بچائے بری اور خطرناک بلاؤں سے جن میں ایک شفیق بچولیا ہے۔ کنوارے ہی اس سے خائف نہیں بلکہ شادی شدہ حضرات کی بیویاں بھی اس سے تنگ ہیں۔ ان کو ڈر ہے کہ کئی ان کے شوہروں کو ورغلا کر دوسری شادی کرنے پر تیار نہ کردے۔ وہ اسے ہر وقت کوستی رہتی ہیں شاید ان کے کوسنے اور بد دعاؤں سے شفیق اللہ کو پیارا ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments