مردوں کی جنسی مجبوریاں اور ان کی وجوہات


محترمہ ڈاکٹر لبنیٰ مرزا صاحبہ نے ایک اہم موضوع ”خواتین میں جنسی خواہش کی کمی“ کے موضوع پر ایک مضمون تحریر فرمایا ہے۔ موضوع تو بہت نازک ہے۔ لیکن پھر بھی اس موضوع کے بارے میں دوسرے فریق، یعنی، مرد کی طرف سے اسی موضوع کے بارے میں موقف پیش کرنا اس معاملے کا دوسرا پہلو اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے۔ جنس کی نوعیت انسان کی عمر کے مختلف حصوں میں اپنی عملیت میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

جس طرح مکڑی سپائڈر کی ایک قسم نر کو مختلف طریقوں سے ملتفت کرتی ہے۔ لیکن جوں ہی نر اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر لیتا ہے۔ اور اس مادہ کو نئی نسل کی پیدائش کی بنیاد پڑنے کا یقین ہو جاتا ہے تو وہ نر کو ہلاک کر دیتی ہے۔ گویا جنس کی ایک مخصوص عمر میں شدت فطرت کی طرف سے نسل میں اضافے کے مقصد کی جانب مائل کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جیسے پودے اپنی نسل کشی کے مقصد کے تحت خوبصورت پھول اور ان میں میٹھا نیکٹر یعنی رس پیدا کرتے ہیں تاکہ ان کے لالچ میں شہد کی مکھیاں اور دوسرے کیڑے ان پودوں اور پھولوں پر بیٹھیں اور ان کا پولن دوسرے پودوں تک پہنچانے اور نسل کشی کا باعث بن جائیں، اسی طرح انسانوں کی زندگی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ حسب منشاء بچے پیدا ہونے اور ان کی ابتدائی ضروری پرورش کی سٹیج ( جب تک عورت کو بچوں کی پرورش کے لئے مدد اور لاجسٹک کی ضرورت رہتی ہے۔ ) اس وقت تک تو مرد کی جنسی ضرورت سے اس کی دلچسپی اور احساس قائم رہتا ہے لیکن جوں ہی حسب منشاء بچے پیدا ہو کر اور پرورش پا کر ایک مناسب ٹیک آف کی پوزیشن میں آ جاتے ہیں تو جنس میں عورت کی دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔ اور اس کار جہان شاید غیر ارادی طور پر جنس سے بچنے کے لیے مذہب یا دوسرے سماجی مشاغل کی طرف زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کو مشہور کالم نگار محترم عطاء الحق قاسمی نے اپنے ایک کالم میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ مرد جب گھر واپس آتا ہے۔ تو بیڈ روم میں ایک پاکیزہ فرشتہ جاء نماز بچھائے مصروف عبادت نظر آتا ہے۔ اب انسان ایک فرشتے کے بارے میں کیا جذبات رکھ سکتا ہے۔

فیض کی مشہور غزل ”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ“ محترمہ نور جہاں کے بجائے کسی مرد گلوکار سے گوائی جانی چاہیے تھی کیونکہ شنید یہ بھی ہے۔ کہ جیسے جنسی جذبات اور خواب کسی مرد میں بالکل آغاز جوانی میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ جنسی خواب ہی کسی مرد میں بلوغت کے آغاز کی علامت ہوتے ہیں۔ ایسے ہی جذبات اور خواب کئی خواتین میں سن یاس کے بعد کی عمر میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور ان کی نظر میں عمر کے تقاضے سے مجبور بجھتا ہوا مرد اس تعلق کے لیے ان کے دل میں حقارت پیدا کرنے کا باعث بھی بن جاتا ہے۔

یہاں مرد اور عورت کی طبعی ساخت کے فرق کو ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے تاکہ بات سمجھ میں آ سکے وہ یہ کہ عورت بغیر خواہش اور مرضی کے بھی جنسی عمل میں حصہ لے سکتی ہے۔ جبکہ مرد کی طبعی کیفیت کی وجہ سے مرد کے لیے ایسا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ یعنی مرد کو بہکا کر مائل تو کیا جا سکتا ہے۔ لیکن زبردستی اس کی مرضی کے خلاف اس کو کسی طرح سے بھی جنسی عمل میں حصہ لینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، یوسفی ایسی صورتحال کی وضاحت کے لیے لکھتے ہیں کہ عورت تیس برس کی عمر کے بعد ”ابولہول“ بن جاتی ہے۔ یعنی چہرہ عورت کا اور دھڑ شیر کا۔

جہاں ڈاکٹر صاحبہ کے مطابق پانچ فیصد خواتین میں جنسی خواہشات کا فقدان یا بالکل موجود نہ ہونے کی علامات پائی جاتی ہیں۔ وہیں دوسری طرف تقریباً دس فیصد خواتین میں بڑھی ہوئی جنسی خواہش کی ”شکایت“ بھی پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں کافی عرصہ قبل پشاور کے ایک عالم دین کی سوانح عمری کے مطالعے کا موقع ملا، مولانا اس میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ طویل عرصہ کسی بڑی مسجد کی امامت کے علاوہ نکاح خوان بھی رہے، وہ اس ضمن میں ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں۔

انہوں نے ایک شریف گھرانے کی لڑکی کا نکاح اسی علاقے کے ایک نوجوان کے ساتھ پڑھایا، یہ نوجوان صحت مند تھا اور فوج میں ملازم تھا لیکن کچھ عرصے کے بعد یہ نوجوان پریشان حالت میں مولانا کے پاس آیا اور اپنی نوبیاہتا بیوی کو طلاق دینے کی بات کی، مولانا حیران ہوئے کہ ابھی تو شادی کو چند ماہ ہی ہوئے ہیں تو اس نوجوان نے دبے لفظوں میں بتایا کہ اس کی بیوی کی جنسی خواہش اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ اس کی خواہش کے مطابق عمل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

خیر مولانا نے اس کی طلاق کروا دی، کچھ عرصے بعد کسی دوسری جگہ اس خاتون کی دوسری شادی ہوئی یہ نکاح بھی ان ہی مولانا نے پڑھایا، لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد اسی شکایت کے ساتھ دوبارہ طلاق کی نوبت آ گئی۔ اب طلاق کا مطالبہ دونوں فریقین کی طرف سے آیا تھا۔ خیر حسب خواہش پھر طلاق کروا دی گئی۔ اب تقریباً ڈیڑھ سال گزر گیا تو اس خاتون کے لیے ایک موٹر مکینک جس کی پہلی بیوی فوت ہو چکی تھی اور اس کی عمر بھی چالیس بیالیس سال تھی۔ کا رشتہ آیا تو اس خاتون کی تیسری شادی اس رنڈوے موٹر مکینک کے ساتھ کر دی گئی۔ مولانا لکھتے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر اس بار اس خاتون کا گھر بس گیا اور وہ خوش و خرم اپنے تیسرے شوہر کے گھر آباد ہے۔ تو معاملات بھی اس طرح متضاد کیفیت کے بھی ہوا کرتے ہیں۔

مردوں کی طرف سے ایک معاملہ اور بھی طرح سے پیش آ سکتا ہے کہ جب عورت کی گھر، مرد اور بچوں کے لیے طویل عرصہ تک کی مسلسل خدمت اور رفاقت مرد کے دل میں عورت، جو اس کی شریک حیات ہوتی ہے۔ کے لیے ”سچی محبت“ اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کر دیتی ہے۔ تو نہ جانے کیوں سچی محبت اینٹی سیکس ہوتی ہے۔ اور ان حالات میں عورت کو سیکس کے لیے کہتے ہوئے بھی شرم آنے لگتی ہے۔ اس بیمار محبت یعنی عمومی الفاظ میں سچی محبت کے پیدا ہونے پر کیوں سیکس کم ہو جاتا ہے۔

یہ بات صرف عائلی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ نوعمری میں جب نوجوان اکثر ”سچی محبت“ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تو اس لڑکی کے بارے میں کوئی جنسی خیال تک ذہن میں نہیں پیدا ہوتا، میرا خیال تھا۔ کہ، کسی ذاتی ذہنی کجی کی وجہ سے ایسا ہوتا ہو گا لیکن جوش ملیح آبادی کی ”یادوں کی بارات“ میں ایک واقع پڑھا، کہ جوش صاحب کا ایک دوست کسی طوائف کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس کی بے چینی اور بے قراری دیکھ کر تمام دوست پیسے جمع کر کے اس طوائف کو لے آتے ہیں۔ اور اس دوست کو کہتے ہیں کہ اپنے دل کی خواہش پوری کر لے، اس دوست کو کمرے میں بھیجتے ہیں۔ اور دروازہ بند کر دیتے ہیں جوش صاحب شرارتی طبیعت کی بناء پر روشندان سے جھانکتے ہیں۔ تو وہ دوست اس طوائف کے پیروں پر سر رکھ کے رو رہا ہوتا ہے۔

تو یہ وہ کیفیت ہوتی ہے جسے میں بیمار محبت کی جگہ سچی محبت کہہ رہا ہوں۔ اس معاملے میں کئی بار خیال آیا کہ محترم ڈاکٹر خالد سہیل صاحب سے فرمائش کی جائے کہ وہ نفسیاتی طور پر اس رویے کی توجیع اور تشریح فرمائیں، لیکن آج محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کا اس موضوع پر مضمون پڑھا تو خیال آیا کہ ریکارڈ درست رکھنے کو یہ مردانہ موقف بھی پیش کر دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments