پنجاب کی شاہی اسمبلی


کوئی بیس سال قبل نئی دہلی کے علاقے حوض خاص میں عظیم پنجابی شاعرہ، کہانی نویس اور ناول نگار امرتا پریتم سے ان کے گھر پر ملاقات ہوئی، لاہور کی یادوں اور باتوں کے بعد انھوں نے بھارت آنے کا مقصد پوچھا جس پر انھیں بتایا کہ دہلی میں ”ورلڈ پنجابی کانگریس“ کے اجلاس میں شریک ہونے آئے ہیں، کچھ لمحے خاموش رہیں پھر دھیمے لہجے میں بولیں پنجابیاں نوں اپنی چھوٹی چھوٹی چیزاں دے وڈے وڈے ناں رکھن دی عادت اے ( پنجابیوں کو اپنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بڑے بڑے نام رکھنے کی عادت ہے ) ۔

پنجاب کی دھرتی کے چپے چپے کے دکھ، درد اور جذبوں کو اپنی تحریروں میں سمونے والی امرتا پریتم سے یہ الفاظ سن کر ان کی گہرائی کو سمجھنے میں وقت ضرور لگا مگر بات پلے پڑ گئی، میو ہسپتال ایشیاء کا سب سے بڑا ہسپتال، ایف سی کالج ایشیاء کا سب سے بڑا کالج، ہال روڈ لاہور ایشیاء کی سب سے بڑی الیکٹرانکس مارکیٹ اور نہ جانے کیا کیا سب سے بڑا یونہی نہیں ٹھہرا، یہ بات گزشتہ دنوں اس وقت پھر یاد آئی جب پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا تو کئی صحافی حضرات نے اس کی ظاہری خوبصورتی کی قصیدہ گوئی کے ساتھ اسے ایشیاء کی سب بڑی اسمبلی بھی قرار دے ڈالا، خیال آیا کہ تین سو اکہتر ارکان کی اسمبلی یا پھر چین کی تین ہزار ارکان پر مشتمل نیشنل پیپلز کانگریس بڑی ہوگی، خیر پھر سوچا ایسا ہو بھی سکتا ہے آخر ملک کے گیارہ کروڑ سے زائد آبادی والے صوبے کا ایوان ہے۔

غربت، بیروزگاری، تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی جیسے بنیادی مسائل کے حل کے لئے ماری ماری پھرنے والی عوام کا دکھ درد رکھنے والے منتخب نمائندوں کی پگ، چودھراہٹ اور اونچے شملے کا جو سوال ٹھہرا اس لئے شریکے، باقی تینوں صوبوں اور ایشیاء کے تمام ممالک کی اسمبلیوں میں بھی تو نمبر ون رہنا ہے نا، کیا ہوا صرف پانچ ارب انتالیس کروڑ روپے ہی تو خرچ ہوئے ہیں، ایک معزز رکن کی کرسی میز صرف ایک کروڑ پینتالیس لاکھ میں ہی تو پڑتی ہے، باتیں بنانے والوں کا کیا ہے بناتے رہیں کہ جی کاغذوں میں تو لکھا ہے کہ اس کی عمارت کے اسکیلیٹرز یورپ سے آنا تھے مگر مال چائنہ کا لگ گیا ہے، کیا ہوا ابھی اسمبلی سیکرٹریٹ اس کے مالی اخراجات کی تفصیلات کو خفیہ رکھ رہا ہے، پرانی تاریخی عمارت بھی تو ابھی تک زبردست تھی جنرل مشرف کے دور میں ایوان کے ارکان کی تعداد بڑھنے کے بعد ہال میں کرسیوں کی تعداد بھی پوری کردی گئی تھی، جنہوں نے عوام کی بہتری کے لئے اسمبلیوں میں قانون سازی کرنا ہوتی ہے وہ نئی اور بڑی بڑی بلڈنگز پہلے تیار نہیں کرواتے، پارلیمنٹ کی ماں کہلانے والے ساڑھے چھ سو ارکان کے برطانوی ہاؤس آف کامنز کے لئے بھی کئی سو سال بعد وہی پرانا اور چھوٹا ہال ہے جس میں ارکان ایک دوسرے کے ساتھ پھنس کر بیٹھے ہوتے ہیں، اور تو اور یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ اسمبلی کے ملازمین کی اکثریت صرف ایک ضلع گجرات کے رہائشیوں کی ہے، بس کیا کریں ہمارے ہاں منفی سوچ اور ہر معاملے میں کیڑے نکالنے والے بہت ہیں جو اس عظیم تاریخی کامیابی پر بد شگون ہیں، ایسی بدگمانیاں ماضی میں بھی کچھ سر پھرے کرتے رہے ہیں جیسے جب پنجاب اسمبلی میں ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق خطاب فرمانے آئے تھے، پھر پنجاب اسمبلی کی نئی عظیم الشان عمارت کا آغاز بھی تو ڈکٹیٹر جنرل پرویزمشرف کے دور میں ہی ہوا تھا جب صوبے کے وزیراعلی چودھری پرویز الہی تھے اور آج اسی خوبصورت اسمبلی کے وہ سپیکر بھی ہیں، جی وہی چودھری پرویزالٰہی جو ڈکٹیٹر مشرف کو وردی میں دس بار صدر منتخب کروانے کا نعرہ مستانہ لگایا کرتے تھے، مگر کیا کریں یہ کمبخت کچھ مایوس سر پھرے جب بھی بولے ان سب کامرانیوں کے خلاف ہی بولے۔

ان حاسدین کا کیا جائے پنجاب اسمبلی میں گزشتہ تین سال کے دوران ہونے والی کتنی ہی ایسی قانون سازی کے خلاف بک بک کرتے رہتے ہیں، دیکھیں جی سپیکر صاحب نے ذاتی دلچسپی لے کر گزشتہ برس ایک ایسا بل متفقہ منظور کروا دیا جسے شاید کسی بھی رکن اسمبلی نے دھیان سے پڑھا ہی نہیں تھا اور سب نے صرف ٹائیٹل ’بنیاد تحفظ اسلام بل دو ہزار بیس‘ پڑھ کے ہاتھ اٹھا دیے تھے۔ وہ تو جب ایک مسلک کی جانب سے یہ کہا گیا کہ یہ بل ملک کو فرقہ واریت میں دھکیلنے کے لئے کافی ہو گا تو سب کو ہوش آیا، اچھا متفقہ بل سے یاد آیا ماشاءاللہ پنجاب اسمبلی کوایک فوقیت یہ بھی حاصل ہے کہ جب معزز اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل آتا ہے تو وہ سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر تمام جماعتیں وسیع تر قومی مفاد میں ایک ہی صف میں کھڑی ہوجاتی ہیں، یہی جمہوریت کا حسن بھی تو ہے کہ جب بات عوام کے منتخب نمائندوں کی ہو تو پھر کیا حکومت اور کیا اپوزیشن ارکان مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں، اب دیکھیں صوبے بھر سے منتخب ہونے والے عوام کے غم میں نڈھال نمائندے صحافیوں اور بیوروکریسی کو لگام بھی نہ ڈالیں، اب ممبرز تحفظ استحقاق بل کی تیاری کو خفیہ رکھ کر اگر روٹی کپڑا اور مکان کا پیارا سا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی کے رکن مخدوم عثمان محمود کے ذریعے پرائیویٹ ممبرز ڈے پر بل کی جزئیات پڑھے بغیر صرف ٹائیٹل پڑھ کر ہی سپیکر صاحب نے متفقہ منظوری کروا لی تو پھر داد تو بنتی ہے نا، صحافیوں اور بیوروکریٹس کو زیر اثر رکھنے کی صرف حکومت کو ہی نہیں نون لیگ کو بھی ضرورت ہے، کسی رکن اسمبلی کا استحقاق مجروح کرنے پر گستاخ صحافی کے خلاف اسمبلی کے اندر ہی ایک طرح کی عدالت لگے گی جو گرفتاری، سزا اور جرمانہ کرسکے گی.

ظاہر ہے اب ہمارے ارکان اسمبلی اتنے بیوقوف تھوڑی ہیں جو صحافیوں کو سزائیں دلوانے کے لئے رائج عدالتی نظام کی لمبی کارروائیوں کے جھنجھٹ میں پڑیں، فوری انصاف ملنا چاہیے عوام کے منتخب شہزادوں کو، بات کدھر کی کدھر نکل گئی بس یہ سب صوبے کی برق رفتار ترقی کے حاسدین کی سوچ کا نتیجہ ہے اور ایسے عناصر جو مرضی کہتے رہیں کہ جی پرائیویٹ ممبر ڈے پر کسی رکن کا کسی بھی معاملے پر بل منظور ہونا دراصل سپیکر صاحب کی جانب سے ایک طرح کی سیاسی رشوت ہوتی ہے، بس کیا کریں ایسے صحافیوں کاجو کہتے ہیں کہ پہلے ہی مختلف محکموں اور اداروں میں صحافیوں کو اپنے فرائض ادا کرنے نہیں دیے جاتے اب اسمبلی سے کالا قانون منظور کروا کے یہاں بھی قدغن لگائی جا رہی ہے اس لئے صحافی آزاری صحافت پر ہونے والے اس حملے کے خلاف سراپا احتجاج رہیں گے، بس اب ہمارے چودھری صاحب تھوڑے حیران اور پریشان بھی ہو گئے ہیں کہ ان کا تو دسترخوان وسیع اور ہاتھ بھی کافی کھلا ہے پھر بھی یہ سارے صحافی قابو نہیں آتے، بس کیا کریں چودھری صاحب یہ سر پھرے صحافی عوام کے لاڈلے شہزادوں کی جوابدہی پریقین بھی تو رکھتے ہیں، باقی آپ فکر نہ کریں اسمبلی میں موجود حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام ارکان، صوبے کے گورنر، وزیراعلی اور وزراء عوام کے اس آخری مسئلے کے حل کے لئے بنائے گئے ممبر تحفظ استحقاق قانون کی حفاظت کے لئے اندرون خانہ آپ کے ساتھ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments