ٹک ٹاک ہمارا رویہ اور بڑھتے مسائل


ٹک ٹاک کی ایپ سے ہم سب آشنا ہیں۔ اگر اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس ایپ کو ستمبر 2016 میں چین کی مقامی مارکیٹ میں متعارف کروایا گیا تھا جبکہ اگلے سال یعنی 2017 میں اسے بین الاقوامی طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن اس کی کامیابی کا آغاز 2018 سے ہوا اور پھر یہ ایپ شہرت کی بلندیوں پر چلی گئی۔

واٹس ایپ ’ٹویٹر‘ فیس بک ’یوٹیوب اور گوگل یہ سب امریکہ کی مشہور و معروف ایپ ہیں لیکن ٹک ٹاک کا تعلق چین سے ہے اور اس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ رکھے ہیں۔

اپنے ابتدائی سالوں میں ٹک ٹاک نے مشرقی اور جنوبی ایشیا میں دھوم مچائی تھی لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ پوری دنیا میں چھا گئی اور امریکہ و یورپ سمیت ہر ملک میں کامیاب ہوئی۔ ویکی پیڈیا کے مطابق اکتوبر 2020 تک ٹک ٹاک پر دو ارب وڈیوز اپ لوڈ ہو چکے تھے جو ایک بہت بڑی تعداد ہے اور اسی ایپ کی بھرپور کامیابی کی عکاسی کرتی ہے۔

دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ٹک ٹاک کو شاندار کامیابی ملی اور عوامی سطح پر بے انتہا مقبول ہوتی چلی گئی۔

اس کی وجہ سے جو مسائل معاشرے میں سر اٹھا رہے ہیں وہ پریشان کن ہیں۔ ٹک ٹاک پر متعدد بار حکومت اور کبھی عدالت نے پابندی عائد کی لیکن تھوڑے ہی عرصے میں معمولی ترامیم کے بعد لگائی گئی پابندی اٹھا دی جاتی ہے کیوں کہ عمومی طور پر لوگ اس سے آمدنی حاصل کر رہے ہیں لیکن کچھ شر پسند عناصر کی وجہ سے مجموعی طور پر سب کو وقتی طور پر نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

کسی بھی ایپ پر پابندی لگانا مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ اب تک اس پر جس طرح کام کیا جانا چاہیے تھا ویسا ممکن نہیں ہو سکا۔

کوئی بھی ایپ اچھی یا بری نہیں ہوتی لیکن جس طرح ہم اس پر اپنا مواد ڈالتے ہیں یا اس کا استعمال کرتے ہیں وہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔

ٹک ٹاک سے رات و رات اور سستی شہرت حاصل کرنے کے چکر میں ہم اپنی تعلیمات ’تربیت اور اپنی ثقافت کو بھول جاتے ہیں اور ہر وہ طریقہ آزماتے ہیں جس سے جلد شہرت مل سکے چاہے وہ اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہی کیوں نہ ہو۔

یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ جو مواد ٹک ٹاک پر تفریح کے نام پر پیش کیا جاتا ہے وہ کہیں سے بھی ہماری تہذیب و ثقافت ’رہن سہن‘ رسم و رواج اور روایات کی پیروی نہیں کرتا۔ ایسا نہیں کہ سب غلط ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں لیکن اکثریت کی وجہ سے سب کا امیج خراب ہوتا ہے اور تصویر کا تاثر ہی برا بن جاتا ہے اور ہم وہ لوگ ہیں جو تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے عادی نہیں اور غلط راہ پر ہمارے قدم خود بخود چل پڑتے ہیں کیونکہ اس سفر میں محنت درکار نہیں ہوتی۔

جب ہم کسی فلم میں کوئی خطرناک منظر دیکھتے ہیں اس کے پیچھے کئی روز کی محنت اور حفاظتی انتظامات ہوتے ہیں پوری ایک ٹیم ہوتی ہے جو ایک منظر کو فلم بند کرواتی ہے اور کچھ سافٹ ویئرز کے ذریعے افیکٹس ڈالے جاتے ہیں اور کاٹ چھانٹ بھی ہوتی ہے لیکن جب ایک ٹک ٹاکر وڈیو بناتا ہے تو اپنے محدود وسائل کی وجہ سے سنسنی خیز منظر کشی کرتے ہوئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر موت کی آغوش میں ابدی نیند سو جاتا ہے۔ کئی لوگ اسی سستی شہرت کے چکر میں نازیبا اور اخلاقی قدروں کو اپنے پیروں تلے روند دیتے ہیں۔

کچھ ہمارے سوشل میڈیا کا بھی کمال ہے کہ ایسے لوگوں کو بھرپور پروموٹ کرتا ہے اور خبروں کی زینت بناتا ہے جبکہ اصل شہرت کے حقدار ’دن رات محنت کرنے والے گمنام ہی رہ جاتے ہیں۔

ہمارے حکومتی ادارے ’پی ٹی اے اس طرح کے مواد کی تشہیر پر اپنا کنٹرول نہیں رکھ پائے جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں ویڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہیں اور ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہونے کی وجہ سے ایسا کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہو پایا جس سے ان ویڈیوز کو دیکھا جا سکے یا فلٹریشن کی جا سکے اور اپ لوڈ ہونے سے روکا جا سکے۔

کیوں کہ یہ ایپ پاکستانی نہیں بلکہ چین کی ایجاد ہے لہذا اس پر اپنے قوانین کی پابندی بھی عائد نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ٹک ٹاکرز کو تعلیم و تربیت دی جا سکتی ہے۔ ان پر پابندی لگائی جا سکتی ہے کہ وہ ایسا کوئی مواد نہ ڈالیں جس سے معاشرے میں مسائل پیدا ہوں یا کسی کی ذاتی زندگی خطرہ میں پڑے۔ ہاں وہ ایسا مواد ڈال سکتے ہیں جس سے ہمارے ملک کی ثقافت و روایات کا پرچار ہو۔ ہمارے ملک کے قدرتی حسن کی تشہیر ہو اور زرمبادلہ کمایا جاسکے۔ ہم کامیڈی کو جو کہ پاکستان کا سرمایہ ہے اچھے اور بہتر انداز میں پروموٹ کر سکتے ہیں۔

اسی طرح باغبانی کے مشغلے کو فروغ دے سکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ موٹیویشنل مواد کی وڈیوز ڈالی جا سکتی ہیں جس سے ہماری نوجوان نسل کچھ سیکھ سکے اور اپنی زندگی میں سدھار لا سکے۔

ہم بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان اور چین کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں اور بھرپور تجارت بھی جاری رہتی ہے لہذا ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس کی بنیاد پر اس ایپ کو بند کیا جائے اور ہمارے باہمی تعلقات پر کوئی اثر پڑے۔

ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں لیکن عقلمندی کا ثبوت یہ ہے کہ ہم مثبت پہلو ڈھونڈیں اور اس پر کام کریں۔ اپنے باعزت شہری ہونے کا ثبوت دیں۔ ٹیکنالوجی کو ایسے استعمال کریں کہ اس کا فائدہ ہو نہ کہ نقصان۔

سارا عمل دخل ہماری سوچ کا ہے لہذا سوچ کو مثبت کریں اور کچھ ایسا نہ کریں جس سے ہمارا ’ہمارے خاندان کا وقار مجروح ہو اور کچھ ایسا کر جائیں جس سے ہمارے پیارے ملک پاکستان کا نام روشن ہو اس کے ساتھ ساتھ اس کا امیج اندرون اور بیرون ملک بہتر ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments