غزوۂ خیبر


غزوۂ غابہ کے تین دن بعد جنگ خیبر پیش آئی۔ خیبر کے یہود، اسلام کے سخت دشمن تھے۔ غزوۂ احزاب میں اگرچہ ان کو کامیابی نہیں ہوئی۔ مگر وہ اسلام کو مٹانے کے لیے برابر سازش کر رہے تھے۔ غطفان ان کو مدد دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ رسول الٰلہ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہزار چھ سو کی جمعیت کے ساتھ نکلے۔ جن میں سے دو سو سوار اور باقی سب پیادہ تھے۔ راس المنافقین عبدالٰلہ بن ابی بن سلول نے اہل خیبر کو کہلا بھیجا۔ کہ محمد صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم تم سے لڑنے آ رہے ہیں۔ مگر تم ان سے نہ ڈرنا۔ تمھاری تعداد بہت ہے۔ یہ تو مٹھی بھر آدمی ہیں۔ جن کے پاس ہتھیار تک نہیں۔

اس سفر میں جب لشکر اسلام صہباء میں پہنچا۔ جو خیبر سے بارہ میل پر ہے۔ تو رسول الٰلہ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز عصر پڑھ کر کھانا طلب فرمایا۔ صرف ستو پیش کیے گئے۔ جو حسب الارشاد پانی میں گھول دیے گئے۔ آپ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم نے اور صحابہ کرام رضی الٰلہ تعالٰی عنہ نے وہی کھائے۔ صہبا سے روانہ ہو کر خیبر کے قریب غطفان و یہود کے درمیان وادیٔ رجیع میں اترے تاکہ غطفان یہود کی مدد کو نہ جا سکیں۔ چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔ یہ مقام اسلامی کیمپ یا لشکر گاہ مقرر ہوا۔ یہاں سے لڑائی کے لیے تیار ہو کر جایا کرتے۔ اور زخمیوں کو علاج کے لیے یہاں لایا جاتا۔ غرض اسباب بار برداری اور مستورات کو یہاں چھوڑ دیا گیا۔ اور رات یہیں گزاری۔

کیونکہ رسول الٰلہ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم کی عادت مبارک تھی کہ کسی قوم پر رات کو حملہ نہ کیا کرتے تھے۔ صبح کو نماز فجر اول وقت پڑھ کر آگے بڑھے۔ جب بستی نظر آئی تو رسول الٰلہ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم نے تین بار یوں پکارا۔

” الٰلہ اکبر! خیبر ویران ہو گیا۔ ہم جب کسی قوم کی انگنائی میں اترتے ہیں۔ تو ڈرائے گیوں کی صبح بری ہوتی ہے“ ۔

جب آپ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم شہر میں داخل ہونے لگے تو فرمایا۔ ٹھہرو۔ یہ سن کر تمام فوج نے تعمیل ارشاد کی۔ اور آپ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دعا مانگی۔

” اے پروردگار سات آسمانوں کے اور ان چیزوں کے جن پر آسمانوں نے سایہ ڈالا ہے اور پروردگار سات زمینوں کے اور ان چیزوں کے جن کو زمینوں نے اٹھایا ہوا ہے۔ اور پروردگار شیطانوں کے اور ان کے جن کو شیطانوں نے گمراہ کیا ہے اور پروردگار ہواؤں کے اور ان چیزوں کے جن کو ہوائیں اڑا لے جاتی ہیں۔ ہم تجھ سے اس بستی اور بستی والوں اور بستی کی چیزوں کی خیر مانگتے ہیں۔ اور اس بستی اور بستی والوں اور بستی کی چیزوں کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں“ ۔

آپ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم کا معمول تھا۔ کہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے تو یہی دعا مانگتے۔ اس کے بعد شہر میں داخلہ ہوا اور تمام قلعے یکے بعد دیگرے فتح ہوئے۔

سب سے پہلے قلعۂ ناعم فتح ہوا۔ حضرت محمود بن مسلمہ انصاری اوسی اسی قلعہ کی دیوار تلے شہید ہوئے۔ گرمی کی شدت تھی۔ وہ لڑتے لڑتے تھک کر دیوار کے سایہ میں آ بیٹھے۔ کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق نے اکیلے یا بشراکت مرحب فصیل پر سے چکی کا پاٹ ان کے سر پر گرا دیا۔ جس کے نتیجے میں انھوں نے شہادت پائی۔

ناعم کے بعد قموص فتح ہوا۔ یہ بڑا مضبوط قلعہ تھا جو اسی نام کی پہاڑی پر واقع تھا۔ ابن ابی الحقیق یہودی کا خاندان اسی قلعہ میں رہتا تھا۔ عرب کا مشہور پہلوان مرحب اسی قلعہ کا رئیس تھا۔ رسول الٰلہ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی الٰلہ تعالٰی عنہ پھر حضرت عمر رضی الٰلہ تعالٰی عنہ کو فوج دے کر بھیجا۔ مگر یہ قلعہ فتح نہ ہوا۔ جب محاصرے نے طول کھینچا۔ تو ایک روز آپ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ”میں کل علم اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر خدا فتح دے گا۔ اور جو الٰلہ اور الٰلہ کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور الٰلہ اور الٰلہ کے رسول بھی اس کو دوست رکھتے ہیں“ ۔

صحابۂ کرام رضی الٰلہ تعالٰی عنہ نے یہ رات انتظار و بیقراری میں گزاری کہ دیکھیں علم کسے عنایت ہوتا ہے۔ صبح کو ارشاد ہوا کہ علی کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ ان کی آنکھوں میں آشوب ہے۔ فرمایا ان کو بلاؤ۔ جب وہ حاضر خدمت ہوئے۔ تو آپ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا لعاب دہن مبارک ان کی آنکھوں میں ڈالا۔ اور دعا کی۔ فوراً آرام ہو گیا۔ اور علم ان کو عنایت ہوا۔ دشمن کی طرف سے پہلے مرحب کا بھائی حارث نکلا۔ جو شجاعت میں معروف تھا۔

وہ حضرت مرتضٰی رضی الٰلہ تعالٰی عنہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ تو خود مرحب بڑے طمطراق سے نکلا۔ اس کو بھی حضرت علی رضی الٰلہ تعالٰی عنہ نے قتل کیا۔ مرحب کے بعد یاسر نکلا۔ اسے حضرت زبیر رضی الٰلہ تعالٰی عنہ نے قتل کیا۔ اس طرح یہ محکم قلعہ بھی فتح ہو گیا۔ جو سبایا ہاتھ آئیں وہ صحابہ کرام رضی الٰلہ تعالٰی عنہ میں تقسیم کر دی گئیں۔ اور صفیہ بنت حیئی بن اخطب جو کنانہ بن ربیع کے تحت میں تھیں۔ ان کو آزاد کر کے رسول الٰلہ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم اپنے نکاح میں لائے۔

حضرت صفیہ کا باپ رئیس خیبر تھا۔ ان کا شوہر قبیلہ نضیر کا رئیس تھا۔ باپ اور شوہر دونوں قتل کیے جا چکے تھے۔ وہ کنیز ہو کر بھی رہ سکتی تھیں۔ مگر حضور رحمتہ للعالمین نے حفظ مراتب اور رفع غم کے لیے ان کو آزاد کر کے اپنے عقد میں لے لیا اور وہ امہات المومنین میں شامل ہوئیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا حسن سلوک ہو سکتا تھا۔

قموص کے بعد باقی قلعے جلدی فتح ہو گئے۔ ان معرکوں میں 93 یہودی مارے گئے۔ اور صحابہ کرام رضی الٰلہ تعالٰی عنہ میں سے پندرہ نے شہادت پائی۔ فتح کے بعد زمین خیبر پر قبضہ کر لیا گیا۔ مگر یہود نے آنحضرت صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی کہ زمین ہمارے قبضہ میں رہے۔ ہم پیداوار کا نصف آپ کو دے دیا کریں گے۔ آپ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ درخواست منظور کی اور فرمایا۔

” ہم تمھیں برقرار رکھیں گے۔ جب تک ہم چاہیں“ ۔

جب غلہ کا وقت آیا تو آپ صلی الٰلہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عبدالٰلہ بن رواحہ رضی الٰلہ تعالٰی عنہ کو وہاں بھیج دیا۔ انھوں نے غلہ کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کر کے یہود سے کہا کہ جو حصہ چاہو لے لو۔ اس پر وہ حیران ہو کر کہتے کہ ”زمین و آسمان ایسے ہی عدل سے قائم ہیں“ ۔

منصور احمد قریشی
Latest posts by منصور احمد قریشی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

منصور احمد قریشی

Mansoor Ahmed Qureshi is an independent journalist, columnist, blogger, researcher and content writer. He writes about politics, international affairs and social issues.

mansoor-ahmed-qureshi has 7 posts and counting.See all posts by mansoor-ahmed-qureshi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments