ناراض بلوچوں سے مکالمہ۔ ایک اچھی ابتدا


وزیراعظم عمران خان نے کچھ روز قبل گوادر میں مقامی عمائدین، طلباء اور کاروباری شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ وہ بلوچستان کے ”ناراض لوگوں“ سے بات کرنے کا سوچ رہے ہیں، تو ان کا یہ کہنا ہر اس شخص کے لیے، چاہے وہ بلوچستان کا باسی ہو یا ملک کے کسی بھی دوسرے حصے میں رہتا ہو، خوشی اور امید کا پیغام تھا جو بلوچستان میں امن دیکھنے کا خواہاں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر بجا طور پر کہا کہ بلوچستان کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔

ماضی میں کسی نے بلوچستان کی ترقی پر توجہ نہیں دی۔ بلوچستان سے وفاق اور سیاستدانوں نے انصاف نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ جو پاکستان کا سوچے گا وہ بلوچستان کا سوچے گا۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ بلوچستان کا احساس محرومی ختم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر میں سمندر کے کھارے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے پلانٹ پر کام تیزی سے جاری ہے۔ بلوچستان کے ماہی گیروں کے مفادات اور حقوق کا مکمل تحفظ کریں گے۔

گوادر میں ماہی گیری کی لئے بڑے غیرملکی ٹرالرز پر پابندی لگا دی ہے بلوچستان کے ماہی گیروں کی حالت بہتر بنانے کے لئے 10 ارب میں سے 5 ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ گوادر میں اڑھائی ہزار سستے مکانات بنائے جائیں گے۔ احساس پروگرام کے تحت بلوچستان کے طلباء کے لئے اسکالر شپس بھی رکھے گئے ہیں۔ بلوچستان کے 4698 نوجوانوں کو احساس پروگرام کے تحت وظائف دیے جا رہے ہیں۔ بلوچستان کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے ہر سال ترقیاتی فنڈ میں اضافہ ہوگا۔

درحقیقت جب وزیراعظم نے کہا ”بلوچستان کے ناراض لوگوں سے بات کرنے کا سوچ رہا ہوں“ تو وہ ایسا کرنے کی ٹھان چکے تھے، چناں چہ اس خطاب کے چند روز بعد ہی خبر ملی کہ وزیراعظم نے ناراض بلوچ راہنماؤں نے مذاکرات کے لیے جمہوری وطن پارٹی کے راہنما شاہ زین بگٹی کو معاون خصوصی برائے مفاہمت و آہنگی بلوچستان مقرر کر دیا ہے اور انھیں وفاقی وزیر کا درجہ دیا گیا ہے۔ ناراض بلوچ راہنماؤں سے مذاکرات اور بات چیت کے لیے شاہ زین بگٹی یقیناً ایک بہترین انتخاب ہیں۔

بلوچستان میں اپنے سیاسی اثر و رسوخ اور نواب اکبر بگٹی کے پوتے کی حیثیت سے وہ اور ان کا خاندان بلوچستان کے برہم عناصر اور وفاق کے مابین تنازعے میں اہم فریق ہیں۔ یاد رہے کہ یہ نواب اکبر بگٹی کو زندگی سے محروم کردینے کے بعد ہی بلوچستان کے حالات زیادہ خراب ہوئے اور اس نہج پر پہنچے کہ آج یہ دل کش صوبہ سلگ رہا ہے۔ چنانچہ شاہ زین بگٹی جہاں بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے آئینی اور جمہوری راستہ اپنانے کے باعث جہاں وفاق اور ملک کی مقتدر قوتوں کے لیے قابل اعتبار ہیں وہیں اپنے خانوادے کی قربانی کی وجہ سے مختلف الفکر بلوچ سیاسی حلقوں کے لیے بھی قابل اعتماد ہیں۔

پاکستان کا رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا، نہایت خوب صورت، وسائل سے مالامال اور اسٹریٹیجک طور پر نہایت اہمیت کا حامل صوبہ بلوچستان ملک کی ستر سالہ تاریخ میں کئی بار خراب حالات اور پرتشدد صورت حال سے دوچار رہا ہے۔ اس دل کش خطے کے بار بار سلگنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمراں طبقوں نے اسے مسلسل نظرانداز کیا، اگر اپنی سیاسی ضرورتوں کے لیے نوازا بھی گیا تو اس صوبے کے قبائلی راہنماؤں اور طاقتور شخصیات کو، لیکن بلوچستان کے افلاس زدہ عوام کی زندگی بہتر بنانے اور صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لیے کم کم ہی کچھ کیا گیا۔

پاکستان کے سچے عاشق اور اپنے فکر و عمل سے تاحیات ملک و قوم کی خدمت میں مگن رہنے والے حکیم محمد سعید شہید نے کہیں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ وہ بلوچستان کے دورے پر گئے تو یہ افسوسناک حقیقت ان کے علم میں آئی کہ پاکستان کے سفارتی عملے میں شامل افراد میں سے ایک کا تعلق بھی بلوچستان سے نہیں۔ حکیم سعید نے، جو اس وقت صدر پاکستان کے مشیر طب تھے، اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق کی توجہ اس حق تلفی کی طرف دلائی۔ اس کے بعد جب حکیم سعید شمالی کوریا کے دورے پر گئے تو انھیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہاں تعینات قائم مقام سفیر کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ یہ 80 کے عشرے کا واقعہ ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان کو کس طرح زندگی کے ہر شعبے میں نظرانداز کیا گیا۔

موجودہ صورت حال کی بات کریں تو اس کی ابتدا جنرل پرویزمشرف کے دور آمریت میں ہوئی، جب گوادر کو بندرگاہ بنانے کے معاملے پر بلوچستان کے قوم پرستوں، سیاست دانوں اور اہل دانش کی آواز اور تحفظات پر توجہ نہیں دی گئی اور ان سے مذاکرات کے بجائے طاقت اور بندوق سے بات منوانے کا آمرانہ چلن اور جبر کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اس دوران ڈاکٹر شازیہ خالد نامی خاتون کے ساتھ زیادتی کے شرمناک واقعے اور پھر نواب اکبر بگٹی کی موت کے سانحے نے بلوچستان کے حالات کو مزید خراب کر دیا۔

اگرچہ پرویزمشرف کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں نے مختلف پیکیجز کے ذریعے اور پاک فوج نے بلوچ نوجواں کی فوج میں زیادہ سے زیادہ شمولیت ممکن بنانے اور دیگر کئی اقدامات کی مدد سے بلوچستان میں صورت حال بہتر بنانے اور امن لانے کی کوشش کی لیکن ردعمل کی شدت اور پاکستان دشمن بیرونی عناصر کی پشت پناہی کے باعث بلوچستان میں بدامنی کا سلسلہ پوری طرح ختم نہیں کیا جا سکا۔

اب وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بلوچستان میں بدامنی کے خاتمے اور صوبے میں حالات معمول پر لانے کے لیے کی جانے والی کوشش قابل ستائش اور خوش آئند ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں بالکل ٹھیک کہا کہ جو پاکستان کا سوچتا ہے وہ بلوچستان کا سوچتا ہے۔ بلوچستان میں نہ صرف پائیدار اور مستقل امن ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے بلکہ اس صوبے کی ترقی اور خوشحالی بھی ملک و قوم کے مستقبل کے لیے لازمی ہے۔ بلوچستان کے ناراض عناصر بھی ہمارے اپنے لوگ ہیں۔

ہمارا فرض ہے کہ ان کے خدشات، تحفظات اور غلط فہمیاں دور کر کے اور اس مقصد کے لیے خاطرخواہ اقدامات یقینی بنا کر انھیں قومی دھارے میں لائیں۔ اس وقت جب افغانستان کے حالات بے یقینی کا شکار ہیں اور ہمارے اس ہمسائے ملک کے حوالے سے مختلف اندیشے سر اٹھائے کھڑے ہیں، ہمیں ملک کے اندر مکمل امن وامان اور سکیوریٹی کے معاملات کو مزید بہتر بنانے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ ایسے میں بلوچستان کی صورت حال اسی مفاہمت اور بات چیت کے ذریعے مسئلے حل کرنے کے عمل کا تقاضا کر رہی ہے جس کے لیے وزیراعظم نے قدم بڑھا دیا ہے۔ دعا ہے کہ یہ قدم تیزرفتاری سے اپنا سفر طے کریں اور تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے بلوچستان کو امن کی منزل تک لے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments