مکران میں کرونا کی وبا اور لوگوں کی اموات


صحافیوں کی بھی زندگی ہوتی ہے انھیں صبح شام، کئی کئی سیاسی و سماجی تقریبات کی کوریج اور شہر کے کئی مقامات پر جانا پڑتا ہے۔ بھاگتے دوڑتے شہر کو سکون کا سانس لیتے دیکھنا آنکھوں کو تو شاید اچھا لگتا ہو لیکن دل کا کیا کریں جو کہتا ہے کہ اب کچھ وقت آرام بھی کریں کچھ وقت اپنے کو بھی دیں کہ اچانک دور کسی مسجد میں اعلان سنائی دیتا ہے کہ شمبے اسماعیل کے رہائشی علی داد ولد عید محمد ماسٹر در محمد کے والد شفع محمد کے چاچا قضائے الہی وفات پا گئے ہیں بعد نماز ظہر ان کا جنازہ اٹھایا جائے گا۔

ہم سوچنے پر مجبور ہیں کہ صبح ہم نے استا چار شمبے کا جنازہ اٹھایا اور دفنا کر جوں ہی آفس پہنچے تو ماہی گیروں کی تنظیم کی ایک پریس کانفرنس ہوئی جس کو پر ہجوم بنانے کے لئے 50 دیگر ماہی گیروں کا جم غفیر بھی ساتھ لایا گیا تھا کوئی بھی ایس او پیز کا خیال ہی نہیں رکھتے۔

پریس کلب انتظامیہ نے کئی بار مختلف سیاسی و سماجی افراد سے درخواست کی کہ کرونا وبا اور ایس او پیز کے سبب زیادہ سے زیادہ 5 افراد پریس کانفرنس کر سکتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اب ناراضگی چھوڑو اور پریس کانفرنس کرنے دو ہمارے لوگ ناراض ہوں گے ۔

یوں تو حکومت نے احتیاطی تدابیر کے طور پر لگائی گئی پابندیوں میں کافی حد تک نرمی کر دی تھی۔ لیکن اس لاک ڈاؤن نے لوگوں کی اکثریت کو معاشی طور پر خاصا پیچھے دھکیل کر معاشی طور پر مفلوج بنا دیا ہے۔

روایتی اور ثقافتی ماحول میں آنے والی تبدیلی تو پھر بھی قبول ہو جائے گی لیکن ان لوگوں کی بے بسی کا کیا کریں جو کرونا وائرس کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی آئسولیشن میں جانے کے بجائے سڑکوں پر آ گئے ہیں۔

لاک ڈاؤن کی شروعات میں تو صرف ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور کچھ مزدور جو سندھ اور پنجاب کو چھوڑ کر گوادر اور مکران آئے تھے وہ بھوک و افلاس کے شکار ہو کر دوبارہ اپنے اپنے علاقوں میں بھاگ گئے۔ ایک دو تو اس وبا کے شکار ہو کر اس دنیا سے گزر گئے۔

دکاندار اور کاروباری لوگوں پر بھی پابندی لگائی گئی کہ فلاں دن درزی کی دکان بند ہوں گے اور فلاں دن آٹو پارٹس والے بند کریں اور کھولے جائیں۔ اس دوران پولیس کافی متحرک رہی۔

لیکن جوں جوں وقت گزرتا رہا لوگوں کی مشکلات زیادہ بڑھتی گئیں۔ پھر اچانک حالات نارمل ہو گئے۔

لاک ڈاؤن میں نرمی سے قبل تو شہر میں یہ صورت حال تھی کہ بے روزگاری بھوک و افلاس نے اپنے پنجے گاڑے تھے۔

اگر یہ کہیں کہ کئی سالوں ایسے اموات تو نہیں ہوئے کرونا وائرس براستہ چائنا یا براستہ ایران بلوچستان میں داخل ہوئی تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ کیوں کہ پاکستان میں ابتدائی طور پر رپورٹ ہونے والے کرونا وائرس کے زیادہ تر کیسز ایران سے آنے والے زائرین میں سامنے آئے تھے جو براستہ تفتان پاکستان پہنچے تھے۔ یا ہمارے مکران سے ان قریبی بارڈروں سے آئے تھے۔

بلوچستان میں ہم نے بہت سے واقعات کی رپورٹنگ کی ہے۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے لے کر لاپتا افراد کی کہانیوں تک۔ اور سائل و وسائل کی لوٹ مار مگر سب سے زیادہ مشکلات اس عالمی وبا کی کوریج کے دوران ہی پیش آئیں۔ کیوں کہ ایسے حالات ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ جب ہر طرف کمزور قوت مدافعت کے مالک لوگوں کو کرونا کا شکار ہو کر سسک سسک کر مرتے ہوئے دیکھا ہو۔

گوادر جیسے چھوٹے شہر میں دن میں پانچ چھ افراد کے جنازے اٹھائے جا رہے ہوں اور پھر بھی ہم ایس او پیز کو مذاق سمجھیں تو یہ بڑی حماقت ہے۔

جب بلوچستان میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی کوریج کی کہ آج کتنے بندے جی ڈی اے ہسپتال میں داخل ہوئے اور کتنے کراچی ریفر ہوئے کتنے اموات ہوئے سب کرونا کے کھاتے میں درج تھے۔

بعد ازاں کافی وقت گزرنے کے بعد جب ہم کراچی پہنچے اور کرونا وائرس سے متعلق لوگوں کی لا پروائی نے ہمیں حیران کر دیا۔ صرف شاپنگ مالوں، بنکوں اور ہسپتالوں میں ماسک لگانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔

اس وقت تو کچھ حلقے کرونا وائرس کو مذاق سمجھتے ہوئے ایک سازش قرار دے رہے تھے۔ لیکن بعد میں جب گوادر جی ڈی اے ہسپتال میں قرنطینہ مراکز بنے اور متاثرہ افراد کو یہاں لایا گیا تو ہم نے اکثر لوگوں کی رائے بدلتے دیکھی۔

شہروں میں تو لوگوں نے کرونا کے خوف سے ماسک لگانا شروع کر دیے۔ ہر ایک کو سینی ٹائزر کے استعمال اور 20 سیکنڈز تک ہاتھ دھونے سے متعلق آگاہی مل گئی۔ مگر بلوچستان کے کئی علاقوں میں بسنے والے افراد عالمی وبا اور اس کے نقصانات سے بے خبر اور بے خوف ہی رہے تھے۔ یہاں تک کہ کچھ ایسے صحافی بھی ہیں جو کرونا کو امریکہ اور یورپ کی سازش اور اسلام دشمنی قرار دیتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کو ایس او پیز کی کوئی پروا نہیں ہمارے جن ساتھیوں نے احتیاطی کرونا کے انجکشن لگائے یہ ان کا بھی مذاق اڑاتے ہیں۔ اور ان کا ایمان پختہ ہے۔ اور پیشانی کو رگڑ رگڑ کر اپنے ایمان کو مزید مستحکم کر چکے ہیں۔

کوریج کے دوران ہم نے ایک دیہی علاقے میں کچھ گوادر یا اس کے مضافاتی علاقوں اور مکران کے لوگوں کو دیکھا تو لوگ بے خوف و خطر کھجور کے درختوں اور کھیتوں کے پاس درخت کے سائے میں بیٹھ کر آپس میں قریب چٹائی بچھا کر ایک بڑے پیالے میں پانی پی رہی تھے، اور چائے پی رہے تھے۔ جب ان سے بات کی تو پتا چلا کہ وہ کرونا وائرس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے اور بے خوف و خطر اپنے کشتیوں اور لانچوں میں یا کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ ایس و پیز اور فاصلوں کی کوئی پروا نہیں آخر آگاہی تو ہمیں دینا ہی پڑی۔

اور ہاں ایک بزرگ دیہاتی نے بتایا کہ جس سال زور کا زلزلہ آیا تھا تو چیچک کے وبا سے ہمارے کافی لوگ ہلاک اور اندھے ہو گئے تھے اور ان مریضوں سے لوگوں کو خوف آتا تھا ان کو چار پائی پر اٹھا کر جنگل یا قبرستان میں کوئی ایک بوڑھی عورت یا بوڑھا مرد اس وقت ان کی دیکھ بھال کرتے تھے جب وہ مر جاتے تھے تو ان کو وہی دفن بھی کرتے تھے۔ بہت کم افراد بچتے تھے۔ اس دور میں علاج وغیرہ کی کوئی سہولت میسر نہ تھی۔

انہیں اب بھی حکومت سے صرف یہ گلہ تھا کہ ان کے علاقے میں صحت کا کوئی بنیادی مرکز نہیں، جہاں بخار اور سردرد کی دوا تو کم از کم میسر ہوتا۔

حالیہ دنوں کرونا کی چوتھی لہر نے تباہی مچا دی وبا سخت و شدید ہے۔ اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر گوادر عبدالکبیر خان زرکون کے ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے خاتمے اور ویکسینیشن عمل کو تیز کرنے کے لئے ضلع گوادر کے تمام گورنمنٹ / پرائیویٹ اسپتالوں / کلینکس میں ہر وہ آنے والے مریضوں کے لیے ماسک /کرونا ویکسینیشن کارڈ لانا لازمی اور ضروری قرار دی گئی ہے ( 18 سال سے کم عمر، حاملہ عورت اور وہ مریض جس کا علاج جاری ہے ان کو استثٰنی حاصل ہے مگر ماسک ضرور استعمال کریں۔ ضلع گوادر کے ماہی گیروں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر کروانا وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے کروانا ویکسین ضرور لگائیں بصورت دیگر ان کو سمندر میں شکار کرنے پر پابندی ہوگی۔ جن ماہگیروں کے پاس ویکسینیشن کارڈ ہوگا وہ شکار کے لئے سمندر جا سکیں گے۔

اب ماہی گیر پریشان ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں وہ ویکسینیشن لگائیں یا وہ روزی روٹی کے لئے سمندر کا رخ کریں۔ اگر وہ یہ ویکسین لگائیں گے تو شاہد ان کی قوت مدافعت بڑھے گی اور وہ کرونا کو شکست دینے میں کامیاب ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments