پاکستانی لڑکیوں کی تعلیم


موجودہ دور میں بھی لڑکیوں کو تعلیم کے حصول کے لیے بہت سارے مسائل کا سامنا کر پڑ رہا ہے۔ 2015 میں تعلیم اور ترقی پر سیمینار (اوسلو سمٹ) میں پاکستان کو دنیا میں سب سے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک میں شمار کیا گیا۔

پاکستان میں تعلیم کے سلسلے میں پہلا مسئلہ غربت کا آتا ہے بہت سارے والدین اپنی بچیوں کی تعلیم پہ پیسہ لگانے کی بجائے اپنے بیٹوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ اور کچھ والدین اگر اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں تو وہ میٹرک تک ان کی تعلیم کے خرچے برداشت کرتے ہیں۔ بلوچستان اور اندرون سندھ میں غربت کی وجہ سے 59 ٪ لڑکیاں چھٹی جماعت کے بعد تعلیم کو چھوڑ دیتی ہیں۔ پنجاب میں 29 ٪ لڑکیاں میٹرک تک تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ کی دوسری بڑی وجہ سوچ کی ناپختگی ہے۔ اکثر والدین اپنی بیٹیوں کو اس لیے بھی تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتے کہ بیٹیاں تو پرائے گھر کا مال ہیں ایک نہ ایک دن تو اپنے گھر کی ہو جائیں گی۔ تو آنے والی زندگی کے لیے سیکھیں گھر کے کام کریں، سلائی سیکھیں، کیونکہ شادی کے بعد یہی سب کرنا پڑنا۔ تو کیا والدین کا بیٹیوں پہ حق نہیں ہے؟ بیٹیوں کو اچھی تعلیم دلوانا ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنا؟

تیسری وجہ یہ ہے کہ اس صدی میں بھی کچھ مرد یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹیوں سے کون سا نوکری کروانی ہے جو یہ تعلیم کے لیے سارا دن گاڑیوں میں دھکے کھائے ہم پہ ہماری بیٹیاں بوجھ نہیں ہیں ہم خود ان کا خرچہ اٹھا سکتے ہیں ان کی خواہشات کو پورا کر سکتے ہیں۔ گھر میں باپ اور بھائیوں کے ہوتے ہوئے کیوں ہماری بیٹی باہر جا کر نوکری کے لیے ذلیل ہو۔

چوتھی وجہ آج کی معاشرتی برائیاں ہیں جس میں راہ چلتی لڑکی پہ جملے کسنا، بازار میں چلتی ہوئی لڑکی سے جان بوجھ کے ٹکرا جانا، بس میں سفر کرتی ہوئی لڑکی کو ٹچ کرنا، رکشے میں بیٹھی ہوئی لڑکی کے پیچھے بائیک لگا لینا۔ لڑکی بے شک نقاب میں ہو یا شلوار قمیض میں یا جینز میں ہمارے مردوں کی کمزوری بن گئی ہے۔ اس ڈر سے والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ریپ کیسز دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ والدین کے ذہنوں میں ایک ڈر سا بیٹھ گیا ہے کہ لڑکی ہے عزت ہے اگر کچھ ہو گیا تو دنیا والے جینے نہیں دیں گے۔

پانچویں بڑی وجہ جلد شادی ہے۔ پاکستان کے بہت سارے علاقوں میں آج بھی تعلیم کی بجائے جلد شادی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دیہاتی علاقوں میں لوگ تعلیم پہ پیسہ لگانے کی بجائے جہیز کی فکر میں رہتے ہیں اور اپنی بیٹیوں کے گھر بسانے کی سوچ میں رہتے ہیں۔ اکثر علاقوں میں آج بھی وٹہ سٹہ کی رسم ہے اور بچپن میں ہی لڑکی کی زندگی کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں لڑکی تعلیم تو کیا اپنی زندگی بھی اپنی مرضی سے نہیں بسر کر سکتی۔ اور لڑکیاں ماں باپ کی عزت کی خاطر چپ ہو جاتی ہیں۔

سب سے بڑی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان میں گورنمنٹ تعلیمی ادارے کم ہیں اور دیہات کے لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں اور والدین اپنی بیٹیوں کو اکیلے بھیجنے سے پہلے سو دفعہ سوچتے ہیں۔ اور پھر رشتہ داروں کے طعنے بھی سر فہرست ہوتے ہیں کہ اکیلی بچی کو کیسے شہر بھیج دیا؟ آج کل کے حالات کا نہیں علم کیا بچی سے زیادہ تعلیم ضروری ہو گئی ہے؟ اتنا پڑھ لکھ کے بھی بیاہ ہی کرنا ہے تو کیا فائدہ بچی کو گھر سے باہر بھیجنے کا۔

آخر میں آتا ہے ڈر، والدین کے ذہنوں میں دنیا کا، لوگوں کا، خاندان کا، محلے والوں کا، برادری کا، اور معاشرے کا ڈر بیٹھ گیا ہے۔ جو کہ لڑکیوں کی تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔ اگر گھر کے مرد اپنی بیٹیوں اور بہنوں پہ اعتماد کر کے ان کو تعلیم دلوائیں ان کی زندگی اور تعلیم کے حصول میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کریں تو کوئی بھی لڑکی نہیں ڈرے گی۔ وہ یہ سوچ کے چلے گی کہ میرا سہارا ہے کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دنیا، رشتہ دار، محلے دار، برادری والے سب کو ایک سائیڈ پہ رکھ کے صرف اور صرف اپنی بیٹیوں کے بارے میں سوچیں۔

حل

گورنمنٹ کو چاہیے کہ کم از کم انٹر تک تعلیم کو ہر لحاظ سے مفت کیا جائے۔ تاکہ ہر بچہ اور بچی کی تعلیم تک رسائی ہو۔

گورنمنٹ اداروں کی کارکردگی کو بہتر کیا جائے کیونکہ لوگوں کی ایک سوچ بن چکی ہے کہ گورنمنٹ اساتذہ کرام بچوں کی رہنمائی نہیں کرتے۔

والدین کو اپنی بیٹیوں پہ اعتماد کرنا چاہیے اور ان کو آگے بڑھ کے سپورٹ کرنا چاہیے۔

معاشرے کو اپنی سوچ بدلنی چاہیے اگر کوئی لڑکی تعلیم کے لیے دوسرے شہر میں آئی ہے تو ہر اجنبی کو لڑکیوں کی عزت کرنی چاہیے۔ اگر لڑکی جینز میں ہے یا اکیلی باہر جا رہی ہے اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ اس پہ جملے کسے جائیں، کیونکہ لوگ ایسا سوچنے لگ گئے ہیں اگر لڑکی جینز میں ہے وہ بدکردار ہے وہ خود دوسروں کو موقع دیتی ہے۔ بہت سارے مسلم ممالک میں لڑکیاں جینز پہنتی ہیں لیکن وہاں ان کی عزت کی جاتی ہے۔ یہاں پہناوے سے اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ اس لڑکی کا کردار کیسا ہے۔

”کسی بھی قوم کو بدلنے کے لیے پہلے اس کی سوچ کا بدلنا ضروری ہے“

عائشہ بی بی، فیصل آباد
Latest posts by عائشہ بی بی، فیصل آباد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments