پاکستان کے سوشل میڈیا پر خواتین کی طلاق کا موضوع زیر بحث: ’طلاق پڑھی لکھی نہیں بلکہ باشعور عورت لیتی ہے‘

ثنا آصف ڈار - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


انگوٹھی، شادی، طلاق

’لڑکی پڑھے گی تو قابو میں نہیں آئے گی، لڑکی گھر سے باہر نکل کر کام کرے گی تو ہاتھ سے بھی نکل جائے گی۔۔۔‘

یہ سب فقرے برسوں پرانے تو ہیں لیکن یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں کہیں نہ کہیں آج بھی یہ سوچ رائج ہے کہ خواتین کا پڑھنا لکھنا اور گھر سے نکل کر کام کرنا ان کی گھریلو زندگی اور خاص کر ان کی ازدواجی زندگی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

اگر خواتین پڑھ لکھ بھی لیں تو اکثر انھیں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور تمام تر تعلیم کے باوجود بھی اکثر خواتین صحیح معنوں میں خودمختار نہیں ہو پاتیں۔

کچھ ایسی ہی گفتگو پاکستان کے ٹوئٹر صارفین کے درمیان ایک ٹوئٹر سپیس کے دوران بھی ہوئی۔

شیری نامی سرگرم ٹوئٹر صارف نے، جو اس سپیس میں موجود تھیں، ایک ٹویٹ کیا کہ انھوں نے ایک ٹوئٹر سپیس میں کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ’پڑھی لکھی عورت کو طلاق ہی ہوتی ہے۔‘

شیری نے اپنی ٹویٹ سے کئی صارفین کی توجہ اس سوچ کی جانب مبذول کرائی جو پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں آج بھی رائج ہے۔

شیری کی اس ٹویٹ کے جواب میں جہاں کئی صارفین نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے ایسی ٹوئٹر سپیس پر پابندی کا مطالبہ کیا تو کئی صارفین نے یہ بھی کہا کہ پڑھی لکھی عورت اپنے حقوق اور ایک بری شادی سے نکلنے کا راستہ بخوبی جانتی ہے۔

صحافی اویس سلیم نے لکھا: ’عورت پڑھ لکھ جائے گی تو آوارہ ہو جائے گی، یہ ذہنیت صدیوں سے موجود ہے۔‘

بے نظیر لیاقت نے اس ٹویٹ کے جواب میں لکھا: ’ہاں یہ سچ ہے کیونکہ اسے اپنے حقوق کا علم ہوتا ہے اور وہ ایک بری شادی سے نکلنا جانتی ہے اور صرف ’پڑھی لکھی‘ عورت ہی اپنی طاقت اور قدر سے واقف ہوتی ہیں۔‘

ہما چغتائی نے بھی کچھ ایسے خیالات کا اظہار کیا اور لکھا: ’کیونکہ اسے (پڑھی لکھی عورت کو) غلط اور صحیح کی پہچان ہو جاتی ہے۔‘

عثمان نامی ایک صارف نے لکھا: ’میری تین رشتہ دار خواتین طلاق یافتہ ہیں اور وہ پڑھی لکھی بھی نہیں۔‘

ایک اور صارف نے اس نکتے کی جانب توجہ دلائی کہ طلاق صرف عورت کو ہی نہیں ہوتی۔ انھوں نے لکھا: ’طلاق صرف عورت کو نہیں ہوتی بلکہ یہ دو افراد کے درمیان ہوتی ہے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا: ’یہ سچ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد ان پڑھ عورت کے ساتھ گزارا کر لیتا ہے لیکن عورت ایسا نہیں کر پاتی۔‘

اسماعیل سید نامی صارف نے لکھا: ’طلاق کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، کوئی خاص فارمولا یا کسی کا مثالی عکاسی معیار (یا رجحان سازی) نہیں ہوا کرتی۔ طلاق کا رجحان یا مجبوری، عموماً تحمل اور عدم تحمل پر دارومدار ہوا کرتی ہے، جس کا شعور (دو طرفہ یا ایک طرفہ سے) پایا جانا یا نہ پایا جانا اس معیار تحمل کی ترجمانی کرتا ہے۔‘

ربیعہ ابرار نے لکھا: ’ایک تکلیف دہ تعلق کو وہ ہی برداشت کرتا ہے جسے اپنے حقوق کا علم نہ ہو یا خود مختاری کی عادت نہ ہو۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں شادی عورت کی ’کامیابی‘ کا پیمانہ کیوں

’یہ معاشرہ نہ طلاق یافتہ عورت کو قبول کرتا ہے، نہ اس کی دوبارہ شادی کو‘

طلاق کے بعد خود سے پیار کرنا سیکھا

تاہم کچھ صارفین ایسے بھی تھے جنھوں نے اس ٹوئٹر سپیس میں ہونے والی اس گفتگو پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ ’ٹوئٹر کو ایسی سپیس پر پابندی عائد کر دینی چاہیے۔‘

ایک صارف نے لکھا: ’ایک ٹوئٹر سپیس میں اتنے منفی لوگ اور یہ کریش بھی نہیں ہوتی۔‘

’طلاق پڑھی لکھی نہیں بلکہ باشعور عورت لیتی ہے‘

ہم نے اس بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی وکیل صدف علی سے بات کی جو سنہ 2008 سے شعبہ وکالت سے وابستہ ہیں اور زیادہ تر فیملی مقدمات کو ہی دیکھتی ہیں جن میں ایک بڑی تعداد طلاق اور خلع کے کیس کی ہے۔

صدف کہتی ہیں کہ اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ اس بات سے متفق نہیں کہ طلاق صرف پڑھی لکھی خواتین کو ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ طلاق پڑھی لکھی نہیں بلکہ باشعور عورت لیتی ہے۔

’میں پڑھی لکھی کے لفظ سے متفق نہیں، ہاں باشعور خواتین، لڑکیاں اور بچیاں اکثر ہم سے خلع کے لیے رابطہ کرتی ہیں۔ اس میں پڑھے لکھے ہونے کا تعلق بہت کم ہو جاتا ہے۔ ان خواتین کو شعور ہوتا ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ان کے پاس طلاق کے لیے آنے والی خواتین میں پڑھی لکھی کے مقابلے میں ان پڑھ یا کم پڑھی لکھی خواتین کی تعداد زیادہ ہے اور اس کی وجہ وہ شعور کو قرار دیتی ہیں۔

’خواتین جانتی ہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں، وہ جانتی ہیں کہ فیملی کورٹ ہیں، اگر ان کے حقوق پورے نہیں ہو رہے تو وہ جانتی ہیں کہ ان کو کہاں جانا ہے۔ اس میں پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں۔‘

کیا طلاق میں اضافہ ہو رہا ہے؟

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

گیلپ پاکستان کے ایک حالیہ سروے کے مطابق اٹھاون فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ ملک میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے۔

عورت

وکیل صدف علی کے مطابق عورت چاہے پڑھی لکھی ہو اور ملازمت کر رہی ہو یا ایسی خاتون جو ہاؤس وائف ہو اور زیادہ پڑھی لکھی بھی نہ ہو، زیادہ تر کیسوں میں طلاق کی وجہ گھریلو تشدد ہی ہے۔

سماجی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر مہناز رحمان اِس رجحان کو خواتین کی ترقی سے جوڑتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ موجودہ دور میں لڑکیوں کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے، وہ کما رہی ہیں اور اپنے حقوق کے بارے میں جانتی ہیں۔

’اب لڑکیوں میں شعور اور عزتِ نفس کا احساس مضبوط ہو چکا ہے۔ لہذا اب اگر صدیوں سے جاری استحصالی نظریے کے تحت اُس کو ذاتی پراپرٹی یا مال مویشی سمجھ کر برتاؤ کیا جائے گا تو ظاہر ہے وہ برداشت نہیں کرے گی۔‘

کیا پڑھی لکھی عورت اور کم پڑھی لکھی یا ان پڑھ خواتین میں طلاق لینے کی وجوہات مختلف ہیں؟

اس سوال کے جواب میں وکیل صدف علی نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں۔

انھوں نے کہا ’عورت چاہے پڑھی لکھی ہو اور ملازمت کر رہی ہو یا ایسی خاتون جو ہاؤس وائف ہو اور زیادہ پڑھی لکھی بھی نہ ہو، زیادہ تر کیسوں میں طلاق کی وجہ گھریلو تشدد ہی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں ’اگر خواتین کے ساتھ مار پیٹ ہو رہی ہو اور ایک پوائنٹ پر انھیں لگے کہ یہ مارپیٹ اب ان کی برداشت سے باہر ہو گئی ہے تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔‘

صدف نے بتایا کہ ان کی وکالت کے دوران دو تین بار ایسا بھی ہوا کہ عدالت یا وکیل کی جانب سے صلح صفائی کے بعد عورت اپنے شوہر سے راضی نامہ بھی کر لیتی ہے لیکن پھر حالات نہ بہتر ہونے پر دوبارہ عدالت سے رجوع کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp