جہیز ایک لعنت ہے


جہیز ایک لعنت ہے یہ بات سب مانتے ہیں لیکن کیا جہیز کو ایک لعنت سمجھنے والوں نے ذاتی حیثیت میں کبھی اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھایا ہے؟ یہ ہے وہ سوال جس پہ بحث کرنے کی اور اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

پاکستانی معاشرے میں جہیز ایک روایت بن گیا ہے لڑکی والے جہیز دینا اپنا فرض اور لڑکے والے جہیز لینا اپنا حق سمجھتے ہیں جیسے جیسے ٹیکنالوجی میں ترقی ہو رہی ہے ویسے ویسے جہیز میں بھی ”ترقی“ ہو رہی ہے۔ پہلے صرف فرنیچر، کپڑے اور چند ہوم اپلائنسس ہی دی جاتی تھی اب ٹی وی، فریج اور اے سی جیسی مہنگے اور لگژری آئٹمز بھی جہیز کا حصہ ہیں۔ باپ یا بھائی اپنی تمام تر جمع پونجی اس خود ساختہ اور فرسودہ قسم کی روایت کو پورا کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ پھر بھی بہت سے لالچی لوگوں کا منہ بند نہیں ہوتا اور وہ وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے لڑکی والوں سے مطالبے کرتے رہتے ہیں سوال یہ ہے کہ آخر گھر کے مردوں پہ اتنا بوجھ ڈالنے کی ضرورت کیا ہے؟ یاد رہے کہ جہیز کے علاوہ شادی کے دیگر اخراجات بھی ہوتے ہیں اور یوں شادی لاکھوں روپے خرچ کر کے پوری ہوتی ہے

اس رسم/روایت کے خاتمے کی شروعات لڑکے یا اس کے گھر والوں کی طرف سے ہی ہو سکتی ہے اگر لڑکے یہ قدم اٹھائیں اور جہیز لینے سے صاف منع کردیں تو آہستہ آہستہ یہ روایت ختم ہو جائے گی کیونکہ سب ایک دوسرے کو ایسا کرتے دیکھ کر خود بھی اس کی تقلید کریں گے لیکن اگر لڑکے والے جہیز لینے کو اپنا فرض سمجھتے رہیں گے تو ہمیشہ یہ رسم چلتی رہے گی اور لڑکی والوں پہ بوجھ بڑھتا ہی جائے گا۔ البتہ یہ عمل اخلاص کے ساتھ ہونا چاہیے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ جہیز نہیں لیتے مگر پھر شادی کے بعد لڑکی کو طعنہ مار کر اور احسان جتا کر اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں کچھ کیسز میں یہ معاملات اتنے گمبھیر ہو جاتے ہیں کہ نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں جہیز کا رواج اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ لڑکی کے والدین سمجھتے ہیں کہ اگر جہیز نہ دیا تو ہماری عزت میں کمی ہو جائے گی، ہماری ناک کٹ جائے گی لوگ ہمیں کمتر سمجھیں گے یہی وجہ ہے کہ میں یہ بات کہہ رہی ہوں کہ لڑکے ہی اس رسم کو ختم کر سکتے ہیں۔ یہ ایسا کام ہے جسے ذاتی حیثیت میں انجام دیا جا سکتا ہے لوگوں کی خود ساختہ روایات کو وہ خود ہی ختم کر سکتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جہیز جیسے اہم سماجی ایشو پہ بات کی جائے اس پہ بحث کی جائے۔ وہ وجوہات سامنے لائی جائیں جن کی وجہ سے یہ بڑا مسئلہ بن گیا بہت سی لڑکیاں آج اس لئے کنواری بیٹھی ہیں کہ ان کے والدین لڑکے والوں کے ”مطالبے“ کے مطابق ”عالی شان“ جہیز نہیں دے سکتے۔ شادی جو کہ سنت ہے اسے جہیز جیسی خود ساختہ اور فرسودہ رسم کے ساتھ نتھی کرنا نا انصافی ہے۔ اس موضوع پہ بات کرنے کے لئے ہمارے میڈیا کو بھی کردار ادا کرنا ہو گا وقت آ گیا ہے کہ ایسے موضوعات ’جن کا براہ راست تعلق معاشرے سے ہو‘ پہ ڈرامے اور فلمیں بنائی جائیں اور لوگوں کو آگاہی دی جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ ہم جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ سادگی کا درس دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میڈیا اس اہم موضوع کو ہائی لائٹ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے تو معاشرے پہ اس کے مثبت اثرات ہوں گے

اسلام میں ٹرک بھر بھر کر جہیز دینے کا کوئی تصور نہیں ہے یہ سب ہماری خود ساختہ روایات ہیں۔ جن کے بوجھ تلے ہم دبے ہیں۔ حضور پاک ﷺ نے جب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللی تعالی عنہا کی شادی کی تھی تو چند انتہائی ضرورت کی اشیاء ان کو بطور جہیز دی تھی جس کی رقم حضرت علی رضی اللی تعالی عنہ نے اپنی زرہ بیچ کر ادا کی کیونکہ حضور پاک ﷺ ہی حضرت علی کے سرپرست تھے۔ اس حوالے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام ہمیں سادگی اپنانے کا راستہ بتاتا ہے جس پہ ہمیں چلنا چاہیے۔

بہت سے لوگوں میں یہ تصور عام ہے کہ لڑکی کو جہیز تو دے دیا جاتا ہے مگر وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا جو کہ اس کا شرعی حق ہے لڑکیاں بھی اس بات کی عادی ہو چکی ہیں لہذا وہ خود ہی اپنا حق ”معاف“ کر دیتی ہیں آپ اندازہ کریں ایک رسم جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اسے ہم بھرپور طریقے سے ادا کرتے جبکہ دوسری طرف جہاں اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ وراثت میں لڑکی کا حق دیا جائے تو ہم عذر پیش کرتے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ اپنے اپنے طور پہ جو لوگ اس رسم کے خلاف قدم اٹھا سکتے ہیں وہ ضرور اٹھائیں ہو سکتا ہے آپ سے متاثر ہو کر آپ کا کوئی قریبی بھی اس فرسودہ روایت کو ختم کرنے کے لئے آپ کا ساتھ دے۔ اور معاشرے سے آہستہ آہستہ یہ فرسودہ رسم ختم ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments