غلیظ لوگ


اتنا پریشان چہرہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ ہمیشہ ہنستی مسکراتی، بھاگتی دوڑتی، گنگناتی لڑکی کو نہ جانے کیا ہو گیا تھا۔ جب وہ ڈاکٹر بنی، کیسا دمکتا ہوا چہرہ تھا اس دن۔ کتنی خوش تھی وہ ڈاکٹر بننے کے بعد پانچ سال کا کورس چھ سال میں ہوا تھا۔ ایک سال کے نقصان کے ساتھ، اس کے ڈاکٹر بننے کے بعد جو خوشی ہمارے خاندان میں آئی اس کا اندازہ کرنا آسان نہیں تھا۔ ہم اپنی بیٹی پر جتنا فخر کر سکتے تھے کم تھا۔ وہ ننھی سی پری دیکھتے دیکھتے بڑی ہوتی چلی گئی اور اب ڈاکٹر بن کر ہماری زندگی میں جگمگا رہی تھی۔ آج اسے پریشان دیکھ کر۔

ابو کوئی بڑے آدمی نہیں تھے، ایماندار محنت کرنے والے متوسط طبقے کے انسان کراچی کے متوسط علاقے فیڈرل بی ایریا کے ایک چھوٹے سے مکان کے باسی، جو میرے دادا نے اپنے اچھے دنوں میں بنایا تھا۔ وہیں میری ماں بیاہ کر آئی تھیں۔ وہیں میں پیدا ہوئی، ہنسی، روئی، کھیلا کودا، اسی گھر میں پلی، بڑھی، گری، گر کر زخم کھائے، بیمار پڑی اور ماں باپ دادی کی شفقتوں میں بچپن سے جوانی تک کا سفر طے ہوتا رہا۔

اسی علاقے کے اسکول میں داخلہ ہوا، دسویں کلاس کا امتحان اچھے نمبروں سے نکالا۔ انٹر میں داخلے کے بعد ڈاکٹر بننے کے شوق میں دن رات محنت کرتی رہی۔ اچھے نمبر لائے اور میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ اسکول سے میڈیکل کالج تک کا سفر آسان نہیں تھا اور پھر میڈیکل کالج میں داخلہ، آس پاس محلے والے بھی مجھے فخر سے دیکھتے تھے۔

ابو ایک کپڑے کے کارخانے میں اکاؤنٹنٹ تھے۔ امی ایک اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ محدود وسائل کے متوسط گھرانے کی زندگی محدود ہی ہوتی ہے۔ گھر میں ایک دادی تھیں اور ایک میں، ابو امی کی اکلوتی بیٹی۔ دادی، ابو اور امی نے مجھے بہت کچھ دیا تھا۔ حد درجہ کا پیار، ہر ممکن سہولت، بے شمار محبتیں، میری زندگی میں کبھی بھی منفی خیالات نہیں آئے تھے۔ زندگی بھرپور تھی، خوشیوں سے بھری ہوئی۔

امی ابو کو اپنے کام کے علاوہ اردو اور انگریزی کے ادب سے بھی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے کتابیں میری زندگی میں اہم مقام رکھتی تھیں۔ بچپن میں بچوں کے رسالے اسکول میں امی کی پسند کی ہوئی کتابیں پھر بعد میں افسانوں، کہانیوں، ناولوں اور شعر و شاعری سے دلچسپی امی ابو کی ہی وجہ سے تھی۔ کتابوں نے مجھے بہت سارا علم دیا۔ علم کی روشنی بھی کیا روشنی ہوتی ہے جو اندر سے باہر تک زندگی کو معمور کر دیتی ہے۔ دوسروں کے تجربوں سے انسان گھنٹوں میں ان سب چیزوں سے آگاہ ہوجاتا ہے جس سے آگہی زندگی گزار کر ہوتی ہے۔ بہت خوش قسمت تھی میں۔ کیا نہیں ملا تھا مجھے زندگی سے، کبھی بھی کوئی شکایت نہیں رہی مجھے کسی سے بھی، ہر کوئی مجھ پر جان دیتا تھا۔ اور کچھ نہیں چاہیے تھا مجھے۔

کالج میں اور بعد میں میڈیکل کالج میں میرے ساتھ پڑھنے والے لڑکے دوست اور سہیلیاں میری علمیت سے مرعوب ہوتے تھے اور حیران بھی کہ مجھے اتنا کچھ پتہ ہے، کتابوں نے مجھے طاقتور بنایا اور میرے اعتماد میں اضافہ کیا تھا۔ میں لوگوں سے آنکھیں ملا کر بات کرتی تھی، خود اعتمادی کے ساتھ۔ یہ طاقت مجھ میں کتابوں سے آئی تھی۔

میڈیکل کالج میں چھ سال ہنستے کھیلتے کودتے خوشی خوشی گزر گئے تھے۔ میں پڑھنے میں بہت اچھی تھی۔ مجھے انسانوں اور انسانوں کی بیماریوں سے دلچسپی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ میں ایک دن بہت اچھی ڈاکٹر بنوں گی۔ لوگوں کا علاج کروں گی اور انہیں صحت یابی سے ہم کنار کروں گی۔

میڈیکل کالج کے تیسرے چوتھے اور پانچویں سال میں وارڈوں میں ڈیوٹی کے دوران مریضوں کا خیال رکھنے اور ان سے باتیں کر کے مجھے مزا آتا تھا۔ امی مجھے پیار سے جنونی ڈاکٹر کہتی تھیں اور یہ دیکھ کر خوش ہوتی تھیں کہ مجھے اپنے پیشے سے دلچسپی ہے۔ میں روزانہ ہی گھر آ کر ابو امی اور دادی کو مریضوں کی بیماریوں کے قصے اور ان کے علاج کے بارے میں بتاتی تھی جسے وہ لوگ بڑی دلچسپی سے سنتے تھے۔ حیران ہوتے تھے، روز کسی نہ کسی مریض کے بارے میں پوچھتے اور کوش ہوتے تھے۔ دادی کی آنکھوں میں غرور دیکھ کر مجھے اندر سے خوشی ہوتی تھی۔

سرکاری ہسپتال میں تو غریب لوگ ہی آتے ہیں۔ ذلتوں کے مارے ہوئے عام لوگ اکثر و بیشتر ناخواندہ اور ان پڑھ مگر زندگی کی یونیورسٹیوں میں پڑھے ہوئے دکھی لوگ جن کے تجربوں کی روداد سن کر میں حیران ہوئی تھی۔ میں اکثر خرچی کے لیے ملے ہوئے پیسوں کو مریضوں پر خرچ کر دیتی تھی جس کا مجھے بہت مزہ آتا تھا۔ وہ مزہ وہ خوشی مجھے سرشار کر دیتی تھی۔ میری دادی میری باتیں سن کر میری بلائیں لیتیں اور بے اختیار میرا صدقہ اتارتی رہتی تھیں۔ جو پیار محبت میری دادی نے مجھے دیا وہ بے مثال تھا۔ یہ دادی نانی کا رشتہ بھی کیا رشتہ ہوتا ہے۔ دنیا سے جاتے ہوئے لوگ اپنے بچوں کے بچوں کو کتنا عزیز رکھتے ہیں۔

میں اچھی طالبہ ہونے کے ساتھ خوبصورت بھی تھی بالکل اپنی امی کی طرح سے۔ مجھے امی بہت خوبصورت لگتی تھیں اور بچپن میں ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتی رہتی تھی۔ امی کا خیال تھا کہ میں ان سے بھی زیادہ خوبصورت ہوں بالکل اپنی دادی کی طرح۔ گورا رنگ، لمبی گردن، لانبا قد، بڑی بڑی آنکھیں، چوڑی پیشانی اور گہرے سیاہ بال، کبھی کبھی آئینہ دیکھ کر مجھے خود ہی اپنے اوپر پیار آ جاتا تھا۔

میڈیکل کالج میں کئی ہم جماعت اور مجھ سے سینئر لڑکوں نے مجھ میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ بعض دفعہ تو کسی لڑکے کی بہن، خالہ، یا ماں کالج میں مجھے دیکھنے بھی آ گئی تھیں جس کا اندازہ بعد میں ہوتا جب کوئی رشتہ بھیج دیتا تھا۔ مگر مجھے کالج میں کبھی بھی اس قسم کی رومانی زندگی اور مستقبل کی شادی سے دلچسپی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ میرا خیال تھا ڈاکٹر بنوں پھر وقت آنے پر شادی بھی ہو جائے گی، اپنی مرضی سے یا ماں باپ کی مرضی سے۔

ابھی تو میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ اسی تیاری، اسی ہماہمی، اسی گھما گھمی میں وقت گزر گیا، میڈیکل کالج کے آخری سال کے آنے تک مجھے بچوں اور بچوں کی بیماریوں سے بہت دلچسپی ہو گئی تھی پھر آہستہ آہستہ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں بچوں کے کینسر کی ڈاکٹر بنوں گی۔

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ میرا دماغ خراب ہے۔ مجھے کیوں ایک ایسے شعبے میں جانا ہے جہاں روزانہ ہی مرتے ہوئے بچوں کو دیکھنا ہوگا، ان کے سسکتے ہوئے ماں باپ کا سامنا کرنا ہوگا۔ کوئی ایسا شعبہ لینا چاہیے جس میں نہ ایمرجنسی ہو نہ موت سے واسطہ پڑے اور نہ ہی پیسے کی کمی ہو۔ مجھے اس قسم کی باتیں بچکانہ لگتی تھیں۔ ڈاکٹر اور تاجر میں فرق ہوتا ہے۔ فرق ہونا چاہیے۔ مریضوں کا علاج تجارت کے اصولوں سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔

مریض نفع اور نقصان کے پیمانے پر نہیں اترتے ہیں۔ وہ کسی شیئر کی طرح مہنگے اور سستے نہیں ہوتے ہیں۔ وہ تو صرف مریض ہوتے ہیں۔ 0 بیمار، علاج کے لیے آتے ہوئے اور مجبور! ڈاکٹر کو تو راتوں کو جاگنا پڑتا ہے، خوشی خوشی، مرتے ہوئے مریضوں کے رشتہ داروں سے بات کرنی ہوتی ہے، ہمدردی کے ساتھ بعض دفعہ آنسوؤں کو پینا ہوتا ہے اور اکثر ان کے درد کے ساتھ جینا بھی پڑتا ہے اگر یہ نہیں ہو سکتا ہے تو ڈاکٹر بننے کی کیا ضرورت ہے اور بھی تو پیشے ہیں جہاں یہ سب کچھ نہیں ہوتا ہے۔

اکثر ہم جماعت کہتے تھے بھئی جلد کی بیماریوں کے ڈاکٹر بنو نہ مریض مرتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر صحت یاب ہوتا ہے، آتا رہتا ہے، علاج کراتا رہتا ہے اور فیس دیتا رہتا ہے۔ ایک دفعہ ایک وارڈ میں ایک ہاؤس جاب کرنے والے ڈاکٹر نے کہا کہ وہ ریڈیالوجسٹ بننا چاہتا ہے یا پھر پلاسٹک سرجری کرے گا۔ دونوں میدانوں میں بہت پیسہ ہے۔ اس کے ماہرین کو تو روپے گننے کی بھی فرصت نہیں ملتی ہے۔

میں اس قسم کی باتوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوئی، میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میڈیکل کالج میں آنے کے بعد اور ڈاکٹر بننے کے بعد اگر بہت سارا روپیہ، گاڑی اور عیاشی ہی مقصد ہے تو ڈاکٹر بننے کا کیا فائدہ ہے۔ انسانیت مریض ان کی خدمت جان بچانے کی خواہش اور جان بچانے کے بعد کی خوشی یہ سب کچھ میرے لیے اہم تھا ضرورت سے بھی زیادہ روپے پیسے تو آہی جاتے ہیں مگر مریض کا کھلتا ہوا چہرہ بھی تو کوئی چیز ہے۔ مگر شاید دنیا کے دستور بدل رہے تھے۔ ڈاکٹری کا پیشہ مقدس پیشہ نہیں رہا تھا۔ سماج میں روپوں اور پیسوں کی ہی اہمیت تھی اور ڈاکٹر بننے والے بھی اسی سماج کا حصہ تھے اسی طرح سے سوچتے تھے۔

ڈاکٹر بننے کی جو خوشی امی اور ابو دادی کو جو ہوئی وہ تو اپنی جگہ پر تھی مگر میری خوشی کو کسی پیمانے سے ناپا نہیں جاسکتا تھا۔ ایک دنیا میرے آگے تھی اور ایک طویل سفر کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا۔ میرے خوابوں کی تکمیل ہونے والی تھی۔

پہلے چھ مہینوں کے ہاؤس جاب کا آغاز ہوا تھا اور میں مکمل طور پر وارڈ میں جذب ہو گئی تھی۔ مجھے اپنے مریضوں کے علاوہ وارڈ کے سارے مریضوں کو دیکھنے کا شوق تھا۔ میں ان کی باتیں سنتی تھی، ان کی تکلیف اور بیماریوں کی تشخیص کر کے مجھے سکون ملتا تھا اور ان کے صحت مند مسکراتے چہروں کو دیکھ کر جو خوشی ہوتی تھی اس کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے۔ امی اور دادی میری مصروفیت کو دیکھ کر خوش بھی ہوتی تھیں اور پریشان بھی اور میں انہیں مریضوں کے قصے سنا کر انہیں بھی اپنے کام میں الجھا لیتی تھی۔

ہاؤس جاب کے شروع ہوتے ہی رشتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ امی کی خواہش تو یہی تھی کہ میری اب شادی ہو جائے لیکن میں نے انہیں سمجھا دیا تھا کہ کم از کم ہاؤس جاب کے ختم ہونے تک شادی وادی کا سلسلہ نہیں کرنا ہے۔ مجھے آگے پڑھنا تھا، فیلو شپ کرنا تھا ایک بہت اچھا کینسر کا ڈاکٹر بننا تھا۔ میں ذہین تھی اور بہت محنتی، مجھے یقین تھا کہ میں پاکستان اور پاکستان سے باہر جا کر اعلیٰ تعلیم میں ضرور کامیابی حاصل کروں گی۔

چھ ماہ بہت تیزی سے گزر گئے۔ ان چھ مہینوں میں جہاں میں نے بہت کچھ سیکھا وہاں مجھے اور بھی ایسی باتوں کا پتہ لگا جس سے میرا دل ٹوٹ ٹوٹ سا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کی دنیا میں اتنا کرپشن ہوگا مجھے اندازہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر اتنے سنگدل بھی ہوں گے میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ڈاکٹر اپنی عیاشی کے لیے مریضوں کو بیچیں گے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ یہ مقدس پیشہ کرپشن کا ایک بہت بڑا بازار تھا۔ دواؤں کی کمپنیوں کے خرچے پر ہوائی جہازوں میں ملکی اور غیر ملکی سفر، میڈیکل اسٹوروں اور لیبارٹریوں سے کمیشن، الٹرا ساؤنڈز اور ایکسرے کے مالکان سے شیئر اور تو اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ بڑے بڑے نامی گرامی ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں کام کم ہی کرتے تھے اور ان ہسپتالوں سے مریضوں کو اپنے ذاتی کلینک اور ہسپتالوں میں منتقل کر دیتے تھے جہاں پیسے لے کر ان کا علاج کیا جاتا تھا۔ ایسا تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ مگر سماج کی یہ بھیانک حقیقت تھی جس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔

دوسری ہاؤس جاب شروع ہونے تک میں میڈیکل کے پیشے کے پیچھے کی تاریکی سے آگاہ ہو گئی تھی۔ شکر یہ تھا کہ میں اور میرے کچھ ساتھی اپنی اسی دنیا میں تھے جہاں ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں اپنے پیشے اور مریضوں سے دلچسپی تھی۔ اچھی تربیت کا شوق تھا، اعلیٰ تعلیم کی خواہش تھی اور اچھا ڈاکٹر بن کر علاج کرنا تھا۔ روپے پیسے تو آہی جاتے ہیں۔ کوئی ڈاکٹر بھوکا نہیں مرتا ہے، کوئی ہسپتال نقصان نہیں اٹھاتا ہے۔

دوسری ہاؤس جاب کو ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ ایک عجیب بات ہوئی۔ وارڈ میں پروفیسر صاحب نے راؤنڈ کے بعد مجھے ایک مریضہ کو دیکھنے کے لیے اپنے کمرے میں بھیج دیا تھا۔ میں نے جا کر مریض کی ہسٹری لی تھی، معائنہ ختم ہی کیا تھا کہ وہ آ گئے تھے۔ پردے کے پیچھے مریضہ لیٹی ہوئی تھی انہوں نے کمرے میں داخل ہو کر دھیرے سے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ مجھے شدید الجھن ہوئی۔ یہ ہاتھ مشفقانہ ہاتھ نہیں تھا۔ کسی استاد کا ہاتھ نہیں تھا، کسی پیشہ ورانہ ساتھی کا بھی نہیں تھا۔

لڑکیوں کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ باب کے ہاتھوں کا لمس ہے یہ بھائی کے ہاتھوں کا پیار ہے، یہ کسی مرد دوست کے ہاتھوں کی معصومانہ شفقت ہے، جسمانی تعلق کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ میں گنگ ہو کر رہ گئی تھی۔ میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ میرے باپ کی عمر کا آدمی، اس طرح سے میرے کاندھے کو دبائے گا، میں کسمسا کر رہ گئی تھی اور دو قدم پیچھے ہٹ کر مریضہ کے سامنے کا پردہ ہٹا دیا تھا، میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کیا کروں۔

مجھے خود اپنے دل کی دھڑکن کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میری نبض بہت تیز ہو گئی، وہ ہنستے ہوئے مریضہ کے پاس چلے گئے تھے۔ مجھ سے کچھ سوال کیے، مریضہ کو دیکھا، مجھ سے کہا تھا کہ درد کی دوا لکھوں اور اینٹی بایوٹک ساتھ میں دے دوں۔ میں نے نسخہ لکھ کر دیا اور باہر جانے لگی تو انہوں نے کرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ بیٹھ جاؤ۔

میں خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ مریضہ کے کمرے سے نکلتے ہی انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا۔

تم بہت خوبصورت ہو، مجھے خوبصورت لوگ بہت اچھے لگتے ہیں، ان کے چہرے پر پراسرار سی مسکراہٹ تھی، جاؤ وارڈ کا کام کرو۔

یہ میرے لیے زندگی کا ایک الگ ہی تجربہ تھا۔ شہر کا اتنا بڑا ڈاکٹر اور میرے کندھے پر اس کا ہاتھ جس کی لمس سے ہی مجھے غصہ آ رہا تھا۔ پہلی دفعہ میں نے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھا۔ وہ ہاتھ میرے کندھے پر جیسے چپک گیا تھا۔ ایک غلاظت کا احساس جس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا، میرا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ میری تو یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کس سے بات کروں۔ ابھی مجھ میں حوصلہ نہیں تھا کہ میں اپنے گھر والوں سے بات کرتی، انہیں بتاتی کہ وارڈ میں کیا ہوا تھا۔

بات کیسے کر سکتی تھی، وہ ایک بہت بڑے ڈاکٹر تھے۔ سماج میں ان کی عزت تھی، لوگ انہیں بہت بڑا انسان سمجھتے تھے جن کے دل میں مریضوں کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ میڈیکل کالج میں استاد تھے اور استاد تو باپ کی طرح ہوتا ہے۔ وہ رات میں سو نہیں سکی تھی۔ صبح دل نہیں کر رہا تھا کہ میں ہسپتال جاؤں پھر اسی وارڈ میں اسی پروفیسر کے سامنے، ان ہی کے ہاتھوں کے دسترس میں مجھے لگا جیسے میرا کاندھا کوئی بہت زور سے دبا رہا ہے۔ میں دبتی جا رہی ہوں، زمین کے اندر دھنستی جا رہی ہوں، مرتی جا رہی ہوں۔

دوسرا دن خیریت سے گزر گیا تھا۔ راؤنڈ کے بعد وارڈ اور مریضوں کے کاموں میں الجھی رہی تھی۔ دن گزرتے گزرتے شام ہو گئی اور جانے کا وقت ہو گیا تھا اور میں گھر چلی آئی تھی۔

دوسرے دن پھر یہی ہوا کہ سر نے مجھے ایک مریض کے ساتھ اپنے کمرے میں بھیجا کہ میں اس کی ہسٹری وغیرہ لے لوں اور اس کا معائنہ کر کے مریض کو تیار کر لوں تاکہ وہ اس کا معائنہ کر لیں۔ مجھے ایک عجیب قسم کے بوجھ کا احساس ہوا تھا۔

میڈیکل کالج کے پانچ سالوں میں میں سر کا ذکر سنتی رہی تھی۔ وہ ایک مقبول استاد تھے۔ ان کے لیکچر کو کوئی چھوڑتا نہیں تھا۔ ان کا چہرہ مہربان، ان کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک اور شخصیت میں جادو تھا۔ میں نے کلینکل سائیڈ میں جب ان کے وارڈ میں پوسٹنگ کی تھی تو میں نے سوچا تھا کہ میں کوشش کر کے ان کے وارڈ میں کام کروں گی، سیکھوں گی اور ان ہی کی طرح کی ڈاکٹر بنوں گی۔ مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ میرے بارے میں دوسری طرح سے سوچ رہے ہیں۔ میں انتہائی جونیئر ڈاکٹر وہ ایک سینئر پروفیسر جن کا میں احترام کرتی تھی، جیسے کسی استاد کا احترام کیا جاتا ہے۔

وہ شادی شدہ انسان تھے، ان کی بیوی تھی، خوبصورت سے بچے تھے، سماج میں ان کا نام تھا، مقام تھا وہ کیسے اپنے وارڈ میں کام کرنے والی ایک جونیئر لڑکی پر عاشق ہوسکتے تھے۔ کیوں انہوں نے میرے کندھے کو دبایا تھا، کیا چاہتے تھے وہ۔ میرے دل کے اندر ایک ہوک سی اٹھی تھی۔ اور میرا ذہن جیسے بالکل خالی ہو گیا تھا۔

میں مریضہ کو لے کر ان کے کمرے میں آ گئی تھی اور ان کے بیٹے کو بھی اندر بلا کر بٹھا لیا تھا۔ ہسٹری لے کر اس کا معائنہ ختم ہی کیا کہ وہ آ گئے تھے۔ انہوں نے میرے نوٹس دیکھے، مریضہ کا معائنہ کیا، ساتھ ساتھ مجھے بتاتے گئے تھے۔ مجھ سے میری تشخیص پوچھی تھی جو میں نے صحیح بتا دیا تھا۔ انہوں نے مجھے شاباش کہا اور کہا تھا کہ میں کچھ ٹیسٹ لکھ کر دوں اور مریضہ کو ٹیسٹ کے بعد تین دنوں کے وقفے سے بلا لوں۔ میں مریضہ اور اس کے بیٹے کے ساتھ کمرے سے نکل آئی تھی۔

میرے دل میں آیا کہ میں خواہ مخواہ سر پر شبہ کر رہی تھی۔ ایک معمولی سی تھپکی ہی تو تھی، کوئی استاد اپنے شاگرد کو اس طرح سے شاباش تو دے سکتا ہے۔ اس میں بڑی بات تو کوئی نہیں۔ یہ سب کچھ غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے۔ اتنا بڑا ڈاکٹر، پروفیسر ایسا نہیں کر سکتا ہے، ضرور مجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔ مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے تھا۔

مجھے غلط فہمی نہیں ہوئی تھی۔ میری سوچ غلط نہیں تھی۔ دوسرے دن صبح کو میں وارڈ میں ایک مریض کا کام کر رہی تھی تو وہ مریض کے بستر پر آ گئے اور مجھ سے پوچھا تھا کہ مریض کو کیا ہوا ہے۔ میں نے جلدی جلدی انہیں مریض کے بارے میں بتایا تھا۔

انہوں نے مجھے کچھ ہدایات دی تھیں پھر کہا تھا کہ کام ختم کر کے تھوڑی دیر کے لیے ان کے کمرے میں آ جاؤں۔

میں جب ان کے کمرے میں پہنچی تو وہ وہاں اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے مسکرا کے دیکھا۔ ان کے ٹیبل پر ایک بہت ہی مہنگے قسم کے چاکلیٹ کا ڈبہ رکھا ہوا تھا۔ اس کی طرف اشارہ کر کے انہوں نے کہا تھا ”یہ تمہارے لیے ہے؟“

ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ تم کو کسی نے بتایا ہے کہ تم بہت خوبصورت ہو۔ بہت زیادہ خوبصورت۔ خوبصورتی اور ذہانت بہت کم یکجا ہوتے ہیں۔

میرا دل جیسے دھک سے رک گیا کل کی تمام سوچ کے بعد ایک بار پھر جیسے مجھ پر بجلی گری تھی۔ میری ماں نے مجھے کبھی بھی نہیں بتایا تھا کہ جب اس قسم کی صورتحال ہوتو مجھے کیا کرنا ہے۔ میرا جسم بڑی شدت سے کانپنے لگا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”زریں بیٹھ جاؤ۔“ میں کپکپاتی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔

میں شادی شدہ ہوں، میرے بچے ہیں تم یہی سوچ رہی ہوگی مگر تمہیں یہ نہیں پتہ ہے کہ میری زندگی کتنی ویران ہے، میں اپنی بیوی سے کتنا پریشان ہوں۔ اس نے میری زندگی عذاب بنا کر رکھ دی ہے۔ میں اسے چھوڑنا چاہتا ہوں مگر چھوڑ نہیں سکتا ہوں، اس کے خاندان کے میرے خاندان پر بڑے احسانات ہیں۔ لیکن میں یہ کر سکتا ہوں کہ دوسری شادی کرلوں۔ کسی ایسی لڑکی سے جو مجھے سمجھ سکے، میرے دکھ میں میرے ساتھ ہو، میرے درد کو بانٹ سکے۔ اسی لیے میں تم سے بات کر رہا ہوں، اس لیے بات کر رہا ہوں کہ تم بہادر ہو، خود سوچتی ہو، سمجھتی ہو اور یہ بھی جانتی ہو کہ مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے اور تم میں اتنی ہمت بھی ہے کہ تم میرے ساتھ زمانے سے ٹکرا سکو گی۔

ان کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔ میں تمہیں ہمیشہ خوش رکھوں گا۔ تمہیں دبئی میں گھر لے کر وہاں رکھوں گا، تمہارے ساتھ رہوں گا۔ ان کی آنکھوں میں نمی سی آ گئی تھی۔ تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو، تمہیں میرے لیے بنایا گیا ہے، مجھے اپنا کر دیکھو تو صحیح۔

میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کہوں۔ میں خاموشی سے کبھی ان کو دیکھ رہی تھی، کبھی زمین کوتک رہی تھی۔ میرے دل میں شدید نفرت کا جیسے ایک غبار سا اٹھا تھا۔

تھوڑی دیر کے لیے وہ خاموش ہو گئے تھے۔ تم سوچ لو۔ اچھی طرح سے سوچ لو۔ انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ میں چاکلیٹ کا ڈبہ لیے بغیر کمرے سے باہر آ گئی تھی۔ میری زندگی میں جیسے بھونچال سا آ گیا۔ اگر گھر میں کسی کو بتاتی تو کس کو بتاتی۔ امی پریشان ہو جاتیں، ابو فوراً ہی میری نوکری چھڑوا دیتے، ابھی تو میرے ہاؤس جاب کے تین مہینے باقی تھے۔ ہاؤس جاب کے بغیر تو میں ڈاکٹر ہی نہیں تھی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی دلدل میں دھنستی جا رہی ہوں۔ میں پریشان مگر چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ کے ساتھ گھر آ گئی تھی۔

ایک ہفتے تک انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ پورا ہفتہ میں یہ کوشش کرتی رہی تھی کہ ان کے سامنے نہیں آؤں لیکن کسی نہ کسی طرح سے میری ان سے مڈبھیڑ ہوہی جا رہی تھی۔ میں نے پتہ کیا تھا کہ اگر میں ان کا وارڈ چھوڑ کر کسی اور وارڈ میں جا سکتی ہوں کہ نہیں۔ مجھے پتہ لگا تھا کہ ایسا فی الحال ممکن نہیں ہو سکے گا۔ مجھے تین مہینے کے بعد دوبارہ سے ہاؤس جاب کرنی ہوگی، میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔

وہ ہفتہ ختم ہوتے ہی انہوں نے مجھے دوبارہ کمرے میں بلا لیا تھا۔
امید ہے کہ تم نے فیصلہ کر لیا ہوگا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا تھا۔

میں حیرانی سے انہیں دیکھ رہی تھی، پھر وہ بولے تھے کہ اگلے ہفتے لاہور میں ایک میڈیکل کانفرنس ہے جس کے لئے میں وہاں جا رہا ہوں اور وارڈ سے دو اور ڈاکٹر بھی جائیں گے، ایک تم اور دوسری نازلی۔ یہ اچھی کانفرنس ہوگی، تمہیں مزا آئے گا۔

سر میرے والدین اجازت نہیں دیں گے۔ میرے گھر والے مجھے کبھی بھی اکیلے نہیں بھیجتے۔ میں نے دھیمے دھیمے مگر بڑے اعتماد سے انہیں کہہ دیا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے سر پر سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہے۔

شام کو وہ ہمارے گھر آ گئے تھے۔ میں انہیں دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی اور سخت ہراساں بھی۔ مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی کہ وہ ہمارے گھر کیوں آ گئے ہیں۔ میرے ذہن میں عجیب و غریب خیالات کا جیسے طوفان آ گیا۔ وہ ہمارے لیے پھولوں کا ایک بڑا گلدستہ لے کر آئے تھے۔ میں جیسے ہی چائے لے کر ڈرائنگ روم میں گئی تو ابو نے کہا تھا بیٹی تم ضرور لاہور جاؤ۔ سر کی بڑی مہربانی ہے کہ انہوں نے تمہارا انتخاب کیا ہے۔ ایسا موقع بار بار نہیں ملتا ہے۔ نہیں سر ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسا بڑا ڈاکٹر ہمارے گھر آیا ہے، ہماری طرف سے پوری اجازت ہے۔ زریں آپ کے ساتھ ضرور جائیں گی۔ آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں اس قسم کی میٹنگوں سے تو ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے۔

میں ابو کو نہیں بتا سکی کہ انہوں نے میرا انتخاب کیوں کیا ہے، وہ تو پریشان ہو جاتے۔ ان کے ذہن میں بنا ہوا ڈاکٹروں اور بڑے بڑے پروفیسروں کا بھرم کھل کے رہ جاتا۔ وہ سارے بت ٹوٹ جاتے، ساتھ ہی میں بھی ٹوٹ جاتی، بکھر جاتی، کوی جرم کیے بغیر۔ میں نے بہت سوچا کہ میں امی ابو کو بتا دوں کہ یہ کیا چاہ رہے ہیں مگر پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ اس کے ساتھ ہی میرا ہاؤس جاب بھی ختم ہو جائے گا اور میں ہر چیز میں پیچھے رہ جاؤں گی۔

ڈاکٹر نازلی ہمارے وارڈ کی سینئر ڈاکٹر تھیں اور ہوٹل میں ہم دونوں کے کمرے ساتھ ساتھ ہی تھے۔ لاہور میں تین دن کی کانفرنس اور ایک دن کا گھومنا گھمانا ان کے ساتھ اچھا لگا تھا۔ وہاں قیام کے دوران کئی دفعہ انہوں نے سر کے بارے میں بہت ساری باتیں کی۔ ان کے گھر کی باتیں، ان کی بیوی کی باتیں۔ مجھے سن کر حیرت ہوئی تھی کہ انہیں سر کے گھریلو حالات کا کچھ زیادہ ہی پتہ تھا۔ انہوں نے باتوں باتوں میں ان کی بیوی اور سر کے تعلقات کے بارے میں ایسی باتیں بتائیں جس سے لگتا تھا کہ وہ بہت ہی خراب عورت ہے، جنہوں نے سر کو مکمل طور پر پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ مجھے معلومات کی حد تک بھی سننے کا نہ تو شوق تھا اور نہ اس کی ضرورت تھی۔

لاہور میں سر کا رویہ بہت اچھا تھا۔ انہوں نے کانفرنس کے علاوہ میرے اور ڈاکٹر نازلی کے گھومنے پھرنے کے لیے بہت اچھے انتظامات کیے تھے۔ ہم دونوں کو قیمتی کپڑوں کا تحفہ بھی خرید کر دیا تھا۔

مگر میرا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب لاہور سے آنے کے تین دن کے بعد ڈاکٹر نازلی نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر مجھے سمجھایا تھا کہ سر مجھے پسند کرتے ہیں اور مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔

میں نے ان سے کہا تھا کہ میں اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ہوں اور میرے ایجنڈے میں شادی نہیں ہے۔ مگر انہوں نے میری کچھ نہیں سنی اور تقریباً ایک گھنٹے تک مجھے سمجھانے کی کوشش کرتی رہیں۔

میں حیران تھی کہ انہیں کیا ہو گیا تھا، کس طرح کی باتیں کی تھی انہوں نے۔ ایک ایسے پروفیسر کے لیے جو مجھ سے بیس پچیس سال بڑا تھا، جس کے بچے تھے، بیوی تھی اور وہ اپنی طالبہ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ مجھے ایسا لگا تھا کہ نازلی کوئی ڈاکٹر نہیں تھیں بلکہ بازار حسن کی ایک کٹنی تھیں جو لڑکیاں تلاش کرتی ہیں۔ انہیں بہلا پھسلا کر بازار میں لے آتی ہیں پھر دولت مندوں کو فروخت کر دیتی ہیں۔ لڑکیاں ڈاکٹر بھی بن جائیں تو فرق نہیں پڑتا ہے، انہیں بیچا جاتا ہے، بکنا پڑتا ہے۔ میری چھوٹی سی زندگی میں بھونچال آ گیا تھا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے اس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دو دن کے بعد میری نائٹ ڈیوٹی تھی۔ وارڈ مریضوں سے بھرا ہوا تھا اور ہم دو ڈاکٹر کام کر رہے تھے کہ رات دس بجے کے قریب سر آ گئے تھے۔ عام طور پر ایسا ہوتا نہیں تھا۔ میں نے کبھی بھی انہیں رات کو وارڈ میں نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی سنا تھا کہ وہ رات کو آتے ہیں۔

زیادہ تر وارڈوں میں تو یہی ہوتا ہے کہ دو تین بجے کے بعد جونیئر ڈاکٹر ہی وارڈ سنبھالتے ہیں، مریض دیکھتے ہیں، ان کا علاج کرتے ہیں، آپریشن کی ضرورت ہو تو آپریشن بھی کر ڈالتے ہیں۔ یہی صحت کا نظام بنا ہوا ہے، اسی طرح سے چل رہا ہے اور اسی طرح سے چلتا رہے گا۔

انہوں نے راؤنڈ کیا تھا پھر مجھے اپنے کمرے میں بلایا تھا۔ بس یہی وقت تھا جب میں نے ڈاکٹرز ڈیوٹی روم میں جا کر اپنا پرس لیا تھا اور رکشہ پکڑ کر گھر آ گئی تھی۔

۔ ۔ میرے قدموں کے نیچے سے جیسے زمین نکل گئی تھی، میرے گلے لگ کر وہ بے قرار رو رہی تھی۔ جو کچھ اس نے بتایا اس کے بعد انسانیت پر میرا اعتبار اٹھ گیا تھا۔ کیا نظام ہے، یہ کیسے لوگ ہیں، ہم کتنے غلیظ ہیں، اس غلاظت کا اندازہ نہیں تھا مجھ کو!

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments