تاریخ کے فیصلوں کا وقت‎‎


پاکستان کے سیاسی معاملات، ملک کے قیام سے آج تک اس قدر جمود کا شکار ہیں کہ ایک ہی مسئلے یا موضوع پر کوئی کہاں تک لکھے یا بولے۔ سردار کے کیلے والا لطیفہ بنا ہی ہمارے لیے تھا جو ایک دن راستے پر پڑے کیلے کے چھلکے پر پاؤں رکھ کے پھسل گیا اور دوسرے دن وہیں کیلے کا چھلکا دیکھ کر بولا کہ اوہ ہو آج پھر گرنا پڑے گا۔ وہی مسئلہ کہ حکومت کون کرے گا؟ کیسے کرے گا؟ آئین بنانا ہے یا نہیں، بنا کر اسے ماننا بھی ہے کہ نہیں؟ فوج بہتر ملک چلاتی ہے یا سویلینز؟ قانون کے دائرے میں سرکاری نوکری کرنی ہے یا ایمان کے تقاضے مدنظر رکھنے ہیں؟

خواہشیں اور امیدیں وہاں ہوتی ہیں جہاں امید کی کوئی ٹھوس نہ سہی، معمولی وجہ تو ہو، جو اپنے پاس نہیں۔ وہی بندوق والے محب وطن، وہی ڈرے ہوئے سویلین، وہی تباہ کن فیصلے جو ماضی میں ملک توڑ بیٹھے اور وہی تاریخ پر جھاڑو لگانے والے جمعدار جو ہر سانس میں سیاست دانوں کو گالی دیتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ جس طرح مولوی پر غصہ کھائے لوگ اسلام کا احترام کرنے والے تمام لوگوں کو گالی دیتے ہیں اسی طرح ہر سویلین سے نفرت کرنے والا، بظاہر سیاست دان کو گالی دیتا ہے لیکن مقصد یہ بتانا ہوتا ہے کہ سویلین اس قابل ہی نہیں کہ ملک کو چلا سکے۔

ہم جہاں آج کھڑے ہیں وہاں کیوں آئے، کون لایا وغیرہ کی بحث کا وقت ختم ہو چکا، میرے نزدیک اب یہ اس لئے بے معنی ہے کیونکہ اب قیمت ادا کرنی ہے۔ ہماری جہادی سوچ، جبر سے کچلا ہوا آئین اور قوانین جس کا مذاق اڑاتے کبھی ہم تھکتے ہی نہ تھے مستقبل میں اسی کی یاد میں آنسو بہائے جائیں گے۔

سامنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے طالبان، باقی پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے لئے ایک عظیم مثال ہیں اور اب شروع ہونے والی لڑائی میں یہ سب طالبان کے پیچھے کھڑے ہوں گے۔ خادم رضوی مرحوم کی اہل سنت و الجماعت ہو یا مولانا فضل الرحمان کی دیو بند جماعت، حتیٰ کہ خود کش حملوں کے خلاف فتویٰ دینے والا ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی ہوا کا رخ دیکھ کر طالبان کی حمایت کا کوئی راستہ نکالنا ہو گا ورنہ اس کی جماعت آتے ہوئے مذہبی طوفان میں اڑ جائے گی۔ طالبان کا حامی طبقہ صرف میڈیا میں طبل جنگ بجنے کا انتظار نہیں کر رہا بلکہ ان کے حامی، طاقت، عدل اور سرکار کے ہر مرکز میں موجود ہیں اور انتظار کر رہے ہیں۔ یہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ ووٹ سے انہیں کبھی اقتدار نہیں ملے گا لہذا یہ سارے جمہوریت کے شدید مخالف ہیں اور اسے کافروں کا نظام کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر وہ نظام جو انہیں اقتدار نہیں دیتا وہ غیر اسلامی اور کافرانہ ہے۔
سچی بات ہے کہ پاکستان میں نادیدہ حمایت سے یہ لوگ ہر شعبے میں بہت حد تک کامیاب ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج کروڑوں افراد نہایت دیانتداری سے یقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت وغیرہ کفر کی تبلیغ ہے، دنیا ہم سے ناجائز سلوک کرتی اور سازشیں کرتی ہے۔ خلافت ہی پاکستان کے مسائل کا حل ہو گا اور جیسے ہی اس خلافت کے لئے تحریک اٹھی ہم اس کے لئے جان کی بازی لگا دیں گے۔

دوسری طرف ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف پھیلی شدید ہوتی قوم پرستی ہے۔ یہ لوگ مذہبی جماعتوں کی سیاست کے سخت مخالف تو ہیں مگر پاکستان کی مقتدرہ کے بارے ان کے خیالات، طالبان سے مختلف نہیں۔ عین ممکن ہے کہ آپس کی لڑائی کو یہ لوگ وقتی طور پر ایک جانب رکھ کے معاہدہ کر لیں کہ پہلے مشترکہ دشمن (پاکستان کی مقتدرہ اور حکومت) سے نمٹ لیں اور پختون، بلوچ علاقوں کو آزاد کروا لیں پھر دیکھ لیں گے کہ خلافت ہو گی یا جمہوریت۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی پاکستان کی حکومت یا باوردی اہلکاروں سے لڑتے ہوئے جنگ کے دوران یہ دونوں فریق پاکستان کے خلاف ایک دوسرے کی مدد جہاں پر ممکن ہو گی، کر ڈالیں گے۔

ایک جانب طالبان اور مذہبی جماعتوں کا مسلح اتحاد ہو گا جس کے کارکن موت کو گلے لگانے کے لئے بے چین ہوں گے اس لئے کہ انہیں مسلمانوں کو عورتوں بچوں سمیت ہلاک کر کے بھی جنت کی ضمانت ملتی ہے۔ دوسری جانب قوم پرست جنگجو کھڑے ہوں گے اور ان سب کا مقابلہ ایک ہی ساتھ اس حکومت نے کرنا ہے جو خود ایسی بیساکھی پر کھڑی ہے جسے دیمک لگ چکی ہے۔

پشاور، کراچی، لاہور، کوئٹہ، مظفر آباد ہو یا گلگت، یہ نئی جنگ پاکستان کے راستوں، گلی محلوں میں لڑی جائے گی۔ اس کے آغاز کی صف بندیاں شروع ہو چکی ہیں۔ ہر جانب پھیلی انتہائی غربت اور مستقبل سے مکمل مایوسی اس نئی جنگ کا سب سے بڑا ایندھن ہے۔

چین سخت بے چین ہو کر اگر پبلک میں کہتا ہے کہ وہ پاکستان کی سر زمین پر لڑائی کے لئے اپنے میزائلوں سے حملے کو تیار ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ (چین) بند کمروں کی آفیشل ملاقاتوں میں یہ آفر پہلے بھی کر چکا ہے۔ طالبان کو اگر ڈالر کی ضرورت ہے تو کس کے پاس زیادہ ہیں؟ ہمارے پاس یا امریکہ کے پاس؟

عرض یہ ہے کہ ایٹم بم رکھنے والی ریاست کی توڑ پھوڑ میں دنیا لاتعلق نہیں رہے گی اور اس خطرے سے نمٹنے کو چین، امریکہ سمیت ساری دنیا آپس کی تلخی ایک جانب رکھ کے ان ہتھیاروں پر پاکستان سے ”دوستانہ تعاون“ کرنے کو تیار ہوں گے۔ مجھے اور آپ کو نئی گولی مل جائے گی کہ اب ہم ہمالیہ سے بلند دوستی والے چین اور پرانے یار امریکہ کی مدد سے اپنے ایٹمی پروگرام کی اکٹھے مل کر حفاظت کرتے ہیں ورنہ یہ خطرے میں پڑ جاتے لہذا مبارک ہو کہ ہم ایٹمی اثاثے بچانے میں کامیاب ہو گئے۔

ہمارے ہمسائیوں سمیت باقی دنیا کی دلچسپی ہمارے ملک میں اس طاقت سے بات کرنے میں ہو گی جو اس جنگ کو آخری نتیجے میں جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ امن ہو اور کاروبار چلے۔ ابھی تک یہ ضمانت پاکستان کی فوج دے رہی ہے لیکن اگر یہ ضمانت کوئی اور مثلاً طالبان اور تمام مولوی اتحاد مل کر دے ڈالے تو؟ یہ دونوں ہی فریق ایک دوسرے کو مارتے مارتے گر پڑیں تو خالی ہوئی جگہ پر کوئی تیسرا کیوں نہیں آئے گا؟ ہمارے ہمسایوں کی نظریں ہم پر اتنی گہری ہیں کہ ایک اشارے پر وہ اپنی سرحدوں سے باہر نکل سکتے ہیں۔ دشمن ہو گا تو کہے گا اس پر حملے کا امکان تھا لہذا اپنے دفاع میں سرحد عبور کی اور دوست ہو گا تو بولے گا کہ عام شہریوں کی زندگی بچانے کے لئے پاکستان کی مدد کی ہے۔ یاد رہے کہ صرف بھارت ہے جو ایٹم بم سے خائف ہو سکتا ہے، چین نہیں۔ اور جب ہمارے ایٹمی ہتھیار دنیا کے ”دوستانہ تعاون“ میں چلے گئے تو پھر بھارت کو کسی بہانے کی ضرورت بھی باقی نہیں ہو گی۔

کیا ان تمام خطرات کا کوئی حل ہے؟
بالکل ہے۔
کیا وہ حل ہم اپنائیں گے؟
ہرگز نہیں۔

اگر آپ یہاں تک پڑھ چکے ہیں تو شاید آپ نے نوٹ کیا ہو کہ میں نے ایک ہی امکان کی جانب اشارہ کیا ہے کہ فیصلہ کن جنگ شروع ہوا چاہتی ہے البتہ یہ لکھنے سے گریز کر رہا ہوں کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ اگر جیتنے کی امید ہوتی تو ضرور لکھتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments