ٹائم (بارہ منٹ) مینجمنٹ


آج فیس بک دیکھتے ایک نہایت خوبصورت تحریر نظروں سے گزری۔

پوسٹ میں نہ تو اس کا کوئی عنوان درج تھا، نہ رائٹر کا نام یا شناخت، اور ٹائپ بھی کسی نو آموز کے ہاتھوں ہوئی تھی۔

ذرا نوک پلک سنواری تو انتہائی شاندار مضمون سامنے آیا۔
دل نے گوارا نہیں کیا کہ اس بلا عنوان، غیر معروف و غیر شائع شدہ تحریر سے آپ سب فیض یاب نہ ہوں۔

لیکن ساتھ ہی یہ خلش بھی پیدا ہوئی کہ جو بھی ہو، یہ تحریر کم از کم میری تو نہیں اور مجھے اس کو شائع کروانے کا بھی کوئی حق نہیں۔

بہت سوچ بچار کے بعد اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہمارے معاشرے کو اس وقت ہر بات سے پہلے یہ سب سمجھنے کی ضرورت ہے، اس فیصلے و نتیجے پر پہنچا کہ اس کا سب تک پہنچنا انتہائی ضروری ہے تو بہتر ہے کہ اس کی نوک پلک سنوار و مربوط کر اور ایک مناسب عنوان دے، آپ کے سامنے پیش کر دوں اور ساتھ ہی بتا بھی دوں کہ اتنی عمدہ و شاندار تحریر مجھ سے بالکل بھی سرزد نہیں ہوئی۔

پیش خدمت ہے۔
جو شخص غصے کی کیمسٹری کو سمجھتا ہو وہ بڑی آسانی سے غصہ کنٹرول کر سکتا ہے۔
میں نے پوچھا غصے کی کیمسٹری کیا ہے؟

وہ مسکرا کر بولے ہمارے اندر سولہ کیمیکلز ہیں، یہ کیمیکلز ہمارے جذبات، ہمارے ایموشن بناتے ہیں، وہ ایموشن ہمارے موڈز طے کرتے ہیں، اور یہ موڈز ہماری پرسنیلٹی بناتے ہیں۔

میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔
وہ بولے ہمارے ہر ایموشن کا دورانیہ 12 منٹ ہوتا ہے۔
میں نے پوچھا ”مثلاً“ ؟

وہ بولے ”مثلاً“ غصہ ایک جذبہ ہے، یہ جذبہ کیمیکل ری ایکشن سے پیدا ہوتا ہے، اگر ہمارے جسم نے انسولین نہیں بنائی یا یہ ضرورت سے کم بنائی، ہم نے ضرورت سے زیادہ نمک کھا لیا، ہماری نیند پوری نہیں ہوئی یا پھر ہم خالی پیٹ گھر سے باہر آ گئے، اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ ہمارے اندر کیمیکل ری ایکشن ہو گا، یہ ری ایکشن ہمارا بلڈ پریشر بڑھا دے گا اور بلڈ پریشر ہمارے اندر غصے کا جذبہ پیدا کر دے گا، ہم بھڑک اٹھیں گے لیکن ہماری یہ بھڑکن صرف 12 منٹ طویل ہو گی، ہمارا جسم 12 منٹ بعد غصے کو بجھانے والے کیمیکل پیدا کر دے گا، اور یوں ہم اگلے 15 منٹ میں کول ڈاؤن ہو جائیں گے۔

چنانچہ اگر ہم غصے کے بارہ منٹوں کو مینیج کرنا سیکھ لیں تو پھر ہم غصے کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں گے۔
میں نے عرض کیا، کیا یہ نسخہ صرف غصے تک محدود ہے؟
وہ مسکرا کر بولے ”نہیں“ ، ہمارے چھ بیسک ایموشنز ہیں ’غصہ، نفرت، خوف، حیرت، غم و خوشی۔

ان تمام ایموشنز کی عمر صرف بارہ منٹ ہوتی ہے، ہمیں صرف بارہ منٹ کے لئے غصہ آتا ہے، صرف 12 منٹ نفرت محسوس کرتے ہیں، 12 منٹ تک خوف کا شکار رہتے ہیں، صرف 12 منٹ ہی حیرت زدہ رہتے ہیں، صرف 12 منٹ غمگین ہوتے ہیں اور 12 منٹ ہی خوشی سے قہقہے لگا سکتے ہیں۔

ہمارا جسم بارہ منٹ بعد ہمارے ہر جذبے کو نارمل کر دیتا ہے۔

میں نے عرض کیا لیکن میں اکثر لوگوں کو سارا سارا دن غصے، نفرت خوف و غم کی کیفیت میں دیکھتا ہوں، اور وہ سارا سارا دن نارمل نہیں ہوتے۔

وہ مسکرا کر بولے آپ ان جذبوں کو آگ کی طرح دیکھیں، جیسے آپ کے سامنے آگ پڑی ہے، آپ اگر اس آگ پر تھوڑا تھوڑا تیل ڈالتے رہیں گے، خشک لکڑیاں رکھتے رہیں گے تو کیا ہو گا؟ آگ پھیلتی چلی جائے گی اور بھڑکتی ہی رہے گی۔

ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے جذبات کو نارمل کرنے کی بجائے ان پر تیل اور لکڑیاں ڈالتے رہتے ہیں، چنانچہ وہ جذبہ جس نے 12 منٹ میں نارمل ہو جانا تھا وہ دو دو، تین تین دن تک حاوی رہتا ہے۔

ہم اگر دو تین دن میں بھی نہ سنبھلیں تو وہ جذبہ ہمارا موڈ بن جاتا ہے، اور یہ موڈ ہماری شخصیت، ہماری پرسنیلٹی بن جاتا ہے۔

یوں لوگ ہمیں غصیل خان، اللہ دتہ اداس، ملک خوفزدہ، نفرت شاہ، میاں قہقہہ اور حیرت چوہدری کہنا شروع کر دیتے ہیں۔

وہ رکے اور پھر بولے کہ آپ نے کبھی غور کیا ہم میں سے بے شمار لوگوں کے چہروں پر ہر وقت غصہ، نفرت، خوف، حیرت، غم یا پھر خوشی کیوں نظر آتی ہے؟ وجہ صرف یہ ہے کہ جذبے نے صرف بارہ منٹ کے لئے ان کے چہرے پر دستک دی، لیکن انہوں نے اسے واپس نہیں جانے دیا، اور یوں وہ جذبہ کوئی سا بھی ہو، ان کی شخصیت بن گیا، ان کے چہرے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ثبت ہو گیا۔

یہ لوگ اگر وہ بارہ منٹ مینیج کر لیتے تو اس عمر بھر کی پیچیدگی یا خرابی سے بچ جاتے، یہ کسی ایک جذبے کے غلام نہ بنتے، اس کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہوتے۔

میں نے عرض کیا اور کیا ”محبت“ جذبہ نہیں ہوتا؟

جواب دیا محبت دراصل لطف، سرور اور خوشی کے والدین میں سے ہے، یہ جذبہ بھی صرف بارہ منٹ کا ہوتا ہے، آپ اگر اس کی بھٹی میں نئی لکڑیاں نہ ڈالیں تو یہ بھی بارہ منٹ میں ختم ہو جاتا ہے، لیکن ہم بے وقوف لوگ اسے زلف یار میں باندھ کر گلے میں لٹکا لیتے ہیں، اور یوں مجنوں بن کر ذلیل ہوتے ہیں۔

ہم انسان اگر کسی طرح ان جذبات کے بارہ منٹ گزار لیں تو ہم گناہ، جرم اور ذلت سے بچ جائیں، لیکن ہم یہ نہیں کر پاتے اور یوں سنگسار ہوتے ہیں، قتل ہوتے ہیں، جیلیں بھگتتے ہیں اور ذلیل ہوتے ہیں۔

”ہم سب بارہ منٹ کے قیدی ہیں“

ہم سب اگر کسی نہ کسی طرح یہ قید ہوش و حواس میں گزار لیں تو لمبی یا پھر کبھی کبھی عمر قید تک سے بچ جائیں، ورنہ یہ 12 منٹ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتے۔

میں نے عرض کیا آپ یہ بارہ منٹ کیسے مینیج کرتے ہیں؟

وہ مسکرا کر بولے میں نے ابھی آپ کے سامنے اس کا مظاہرہ کیا، وہ صاحب غصے میں اندر داخل ہوئے، مجھ سے اپنی فائل مانگی، میں نے انہیں بتایا کہ میں آپ کی فائل پر دستخط کر کے واپس بھجوا چکا ہوں، لیکن وہ نہیں مانے، انہوں نے مجھ پر جھوٹ و غلط بیانی کا الزام لگایا اور مجھے ماں بہن کی گالیاں بھی دیں، میرے تن من میں آگ لگ گئی، لیکن کیونکہ میں جانتا تھا کہ میری یہ صورتحال صرف 12 منٹ رہے گی، چنانچہ میں چپ چاپ اٹھا، وضو کیا اور نماز پڑھنی شروع کر دی، میرے اس عمل پر 20 منٹ خرچ ہوئے، ان 20 منٹوں میں میرا غصہ بھی ختم ہو گیا اور وہ صاحب بھی حقیقت پر پہنچ گئے، میں اگر نماز نہ پڑھتا تو میں انہیں جواب دیتا، ہمارے درمیان تلخ کلامی ہوتی، لوگ کام چھوڑ کر اکٹھے ہو جاتے، ہمارے درمیان ہاتھا پائی ہو جاتی، میں اس کا سر پھاڑ دیتا یا وہ مجھے نقصان پہنچا دیتا، لیکن اس سارے فساد کا آخر میں کیا نتیجہ نکلتا؟

پتہ چلتا ہم دونوں بے وقوف تھے، ہم سارا دن اپنا کان چیک کیے بغیر کتے کے پیچھے بھاگتے رہے، چنانچہ میں نے جائے نماز پر بیٹھ کر وہ بارہ منٹ گزار لئے اور یوں میں، وہ اور یہ سارا دفتر ڈیزاسٹر سے بچ گیا، ہم سب کا دن اور عزت محفوظ ہو گئی۔

میں نے پوچھا کیا آپ غصے میں ہر بار نماز پڑھتے ہیں؟

وہ بولے ”ہرگز نہیں“ ، میں جب بھی کسی جذبے کے غلبے میں آتا ہوں تو میں سب سے پہلے اپنا منہ بند کر لیتا ہوں، میں زبان سے ایک لفظ نہیں بولتا، میں قہقہہ لگاتے ہوئے بھی بات نہیں کرتا، میں صرف ہنستا ہوں اور ہنستے ہنستے کوئی دوسرا کام شروع کر دیتا ہوں، میں خوف، غصے، غم اور حیرت کے حملے میں واک کے لئے چلا جاتا ہوں، غسل کر لیتا ہوں، وضو کرتا ہوں، 20 منٹ کے لئے چپ کا روزہ رکھ لیتا ہوں، استغفار کی تسبیح کرتا ہوں، اپنی والدہ یا بچوں کو فون کرتا ہوں، اپنے کمرے، اپنی میز کی صفائی شروع کر دیتا ہوں، اپنا بیگ کھول کر بیٹھ جاتا ہوں، اپنے کان اور آنکھیں بند کر کے لیٹ جاتا ہوں یا پھر اٹھ کر نماز پڑھ لیتا ہوں، یوں بارہ منٹ گزر جاتے ہیں، طوفان ٹل جاتا ہے، میری عقل ٹھکانے پر آ جاتی ہے اور میں فیصلے کے قابل ہو جاتا ہوں۔

وہ خاموش ہو گئے تو میں نے عرض کیا اور اگر آپ کو یہ تمام سہولتیں حاصل نہ ہوں تو آپ کیا کرتے ہیں؟

وہ رکے، چند لمحے سوچا اور بولے آسمان گر جائے یا پھر زمین پھٹ جائے، میں منہ نہیں کھولتا، میں خاموش رہتا ہوں اور آپ یقین کیجئے سونامی خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ میری خاموشی کا مقابلہ نہیں کر سکتا، وہ بہرحال پسپا ہو جاتا ہے ، آپ بھی خاموش رہ کر زندگی کے تمام طوفانوں کو شکست دے سکتے ہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا۔ جس کا مفہوم ہے۔
”جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پائی“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments