کیا آپ ایک صحتمند گرین زون خاندان بنانا جانتے ہیں؟


میری اپنی مریضہ ماریا سے پہلی بار ملاقات دس برس پہلے ہوئی تھی۔ ان دنوں وہ اپنے شوہر کے ہاتھوں بہت پریشان تھی اور اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے حد سے زیادہ شراب پیتی تھی۔ میں جب ماریا کے شوہر رچرڈ سے ملا تو اسے کھل کے مجھے بتایا کہ وہ اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتا۔ میں نے جب اس سے پوچھا کہ تم ماریا کے ساتھ کیوں رہتے ہے؟

تو کہنے لگا ’میں اس پر رحم کھاتا ہوں۔ وہ میری بیٹی روزا کی ماں ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میری بیٹی بغیر ماں کے جوان ہو‘

میں نے جب مشورہ دیا کہ بیٹی کی صحتمند تربیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیٹی کی ماں کا احترام کرے تو وہ زور زور سے ہنسنے اور بیوی کا مذاق اڑانے لگا۔ ان دنوں روزا کی عمر سولہ برس تھی۔

میں نے جب ماریا کو بتایا کہ وہ ایک ریڈ زون خاندان کا حصہ ہے اور اسے اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ ضروری فیصلے کرنے ہیں تو وہ خاموش ہو گئی اور پھر اس نے کلینک آنا بند کر دیا۔

میری دس برس تک ماریا سے ملاقات نہ ہوئی اور پھر ایک دن وہ اسی پراسرار طریقے سے واپس لوٹ آئی جس پراسرار طریقے سے وہ غائب ہوئی تھی۔

میں نے اس کا حال پوچھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کر کے اس کے ہاتھوں پر گرنے لگے۔ پھر اس نے اپنے پرس سے دو خط نکالے اور مجھے پڑھنے کو دیے۔ پہلا خط ماں ماریا کا تھا اور دوسرا خط بیٹی روزا کا تھا۔

ماں کا خط

پیاری روزا!
میں جتنا تم سے پیار کرتی ہیں تم اتنی ہی ماں کی دل آزاری کرتی ہو۔

کیا تم نہیں جانتی کہ میں نے تمہیں پیدا ہونے سے پہلے نو ماہ اپنے پیٹ میں پالا۔ پھر تمہیں دودھ پلایا۔ تمہیں تعلیم دلوائی اور جوان کیا اور اب جب تم نے یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کر لی ہے تو تمہارا دل احساس ممنونیت کی بجائے غصے ’نفرت اور تلخی سے بھرا ہوا ہے۔ تم نہیں جانتی کی دنیا میں کوئی اور شخص تم سے تمہاری ماں سے زیادہ محبت نہیں کر سکتا۔

تمہاری دکھی ماں
ماریا

بیٹی کا خط

تمہارے الفاظ خالی اور کھوکھلے ہیں۔ تم ساری زندگی دوسروں کی زندگی تباہ کرتی آئی ہو۔

تم نے مجھے نو مہینے اپنی کوکھ میں رکھا تو کون سی کرامت ہو گئی۔ سب مائیں یہی کرتی ہیں۔ ماں بننے کا فیصلہ تمہارا تھا۔ اگر پیدا ہونے سے پہلے کوئی مجھ سے پوچھتا تو میں کبھی تمہیں اپنی ماں نہ چنتی۔ تم جھوٹ بولتی ہو۔ لوگوں کو دھوکہ دیتی ہو۔ تم منافق ہو۔ لوگوں کی پیٹھ پیچھے برائی کرتی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ کوئی بد کردار شخص نہیں دیکھا۔

مجھے آہستہ آہستہ احساس ہو رہا ہے۔ تم عورت نہیں چڑیل ہو جادوگرنی ہو۔
میں آج تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ اگر تم کل مر گئیں تو میں تمہارے جنازے میں شرکت نہیں کروں گی۔
روزا

۔ ۔ ۔
یہ خط ملنے کے بعد ماریا نے جب اپنے شوہر سے پوچھا
’تم میری بیٹی کے سامنے میری تذلیل کیوں کرتے ہو؟‘ تو اس نے کہا
’ تا کہ یہ بھی تمہاری تذلیل کرے۔ تم نے ہم دونوں کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے‘

اس واقعہ کے بعد ماریا کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا۔ اس نے مجھ سے نفسیاتی مدد مانگی تا کہ وہ اتنا حوصلہ پیدا کر سکے کہ اپنے شوہر اور بیٹی کو چھوڑ کر واپس یورپ اپنے بوڑھے والدین کے پاس چلی جائے۔

۔ ۔

ماریا کا خاندان ایک غیر صحتمند ریڈ زون خاندان تھا۔ ایسے ریڈ زون خاندانوں میں مندرجہ ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں

1۔ ریڈ زون میاں بیوی ایک دوسرے کی عزت نہیں کرتے
2۔ وہ ایک دوسرے سے محبت پیار کا اظہار نہیں کرتے
3۔ وہ اپنے مسائل کا تسلی بخش حل تلاش نہیں کر پاتے
4۔ وہ اپنے بچوں کے بارے میں صحتمند فیصلے نہیں کر سکتے
5۔ وہ اپنے بچوں کے ذہنوں میں غصہ نفرت اور تلخی بھر دیتے ہیں

عبدالقوی ضیا کا شعر ہے
؎ خاندانوں پہ عذاب آئے گا
نفرتیں خون میں بونا کیسا

ہم جب ریڈ زون خاندانوں کا اپنے کلینک میں علاج کرتے ہیں تو انہیں صحتمند گرین زون خاندان کے بنیادی اصول سکھاتے ہیں۔

ہم انہیں بتاتے ہیں کہ میاں بیوی کے صحتمند گرین زون رشتے کی تین منزلیں ہوتی ہیں
پہلی منزل میں وہ دوست ہوتے ہیں
دوسری منزل میں وہ دو محبوب بنتے ہیں
تیسری منزل میں وہ والدین بن جاتے ہیں

ہم انہیں سکھاتے ہیں کہ گرین زون خاندان صحتمند اور کامیاب گرین زون ریاست کی طرح ہوتے ہیں۔
کامیاب گرین زون ریاست میں تین اہم ادارے ہوتے ہیں
پہلا ادارہ مقننہ کا ہوتا ہے جو پارلیمانی ریاست کے قوانین بناتا ہے۔
دوسرا ادارہ پولیس کا ہوتا ہے جو قوانین کی نگہبانی کرتا ہے
تیسرا ادارہ عدالت کا ہوتا ہے جو ان لوگوں سے نبرد آزما ہوتا ہے جو قانون شکنی کرتے ہیں۔

گرین زون خاندانوں میں ماں باپ اپنے خاندان کے اصول و ضوابط بناتے ہیں اور پھر اپنے بچوں کی مدد کرتے ہیں کہ وہ ان اصولوں پر عمل کریں۔

ہم گرین زون جوڑوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ انہیں گرین زون خاندان بنانے کے لیے ہر ہفتے ایک میٹنگ کرنی چاہیے۔ اس میٹنگ میں وہ پچھلے ہفتے پر نظر ثانی کرتے ہیں اور اگلے ہفتے کا اہتمام کرتے ہیں۔

گرین زون خاندانوں میں ماں باپ بچوں کا مثبت رول ماڈل بن جاتے ہیں۔

جو بچے گرین زون خاندانوں میں پلتے بڑھتے ہیں وہ جوان ہو کر معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں اور باقی گرین زون لوگوں کے ساتھ مل کر ایک پرسکون دنیا کے پہلے خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments